سوات ہوٹل

’’سوات ہوٹل ‘‘، جسے اَب ’’سوات سیرینہ ہوٹل‘‘ کے نام سے پہچانا اور یاد کیا جاتا ہے، ریاستِ سوات کے دور میں میاں گل جہان زیب المعروف والی صاحب کے دورِ حکم رانی میں سرکاری ہوٹل کے طور پر وجود میں آیا۔ سرکاری ہوٹل میں تبدیل کرنے یا سرکاری ہوٹل قرار دینے سے قبل اس جگہ اور عمارت کا مصرف کیا تھا اور یہ کس نام سے یاد کیا جاتا تھا؟ اس حوالے سے کئی ایک دعوے سامنے آرہے ہیں۔ بہ طورِ مثال، 12 ستمبر 2020ء کو باخبر سوات ڈاٹ کام کی ایک رپورٹ بہ عنوان ’’ریاستِ سوات کے وزیر اعظم کے گھر کو لیز پر دینے کا اشتہار جاری‘‘ کے مطابق ’’صوبائی حکومت کے محکمۂ کلچر اینڈ ٹورازم اتھارٹی نے سوات کے سابق دارالخلافہ سیدو شریف میں ریاستِ سوات کے وزیر اعظم (مشر وزیر) کے گھر اور موجودہ ’سوات سرینہ ہوٹل‘ کی تاریخی اور اربوں روپے کی عمارت کو لیز پر دینے کے لئے بولی کا اشتہار دے دیا۔‘‘
ڈاکٹر سلطانِ روم کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/dr-sultan-e-rome/
اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’’ریاست کے دور میں یہ عمارت وزیرِ اعظم (مشر وزیر) کا گھر اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس تھی۔ اس عمارت کا پہلا نام ’وزیر ہاؤس‘ دوسرا ’سوات ہوٹل‘ اور تیسرا اور موجودہ نام ’سوات سرینہ ہوٹل‘ ہے۔ اس وقت کے وزیرِ اعظم اور کچھ وزرا نے جب ریاست سوات میں والئی سوات کا تختہ الٹنے کی کوشش شروع کی، تو خفیہ اداروں کی اطلاع پر والئی سوات نے ان کو گرفتار کرکے ریاست بدر کیا اور اس عمارت کو ہوٹل میں تبدیل کیا۔ اس میں پی آئی اے اور پی ٹی ڈی سی کے دفاتر بھی تھے۔ اس ہوٹل کا نام ’سوات ہوٹل‘ رکھا گیا، جو ریاستِ سوات کے ادغام کے بعد بھی برقرار تھا۔ 1984ء میں صوبائی حکومت نے اس عمارت کو سرینہ ہوٹلز کو لیز پر دے دیا، جس کا نام ’سوات سرینہ‘ رکھ دیا گیا۔‘‘
اس گتھی کو سلجھانا ریاستِ سوات کی تاریخ اور اس کے اقتدار کے ایوانوں میں سیاسی داؤ پیچ کوسمجھے اور پرکھے بغیر ممکن نہیں۔ اگرچہ اس ضمن میں بعض حقائق تلخ ہیں، لیکن اُن کے ذکر اور اُن پر بحث کے بغیر یہ گتھی سلجھائی نہیں جاسکتی ،لہٰذا مجبوراً اُن پر بات کرنا پڑے گی۔
1915ء میں سوات کے علاقوں نیک پی خیل، سیبوجنی اور شامیزی میں نوابِ دیر کی حکم رانی کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں مذکوہ علاقوں کو نوابِ دیر کی حکم رانی سے آزاد کرانے کے بعد اُن علاقوں کے جرگہ نے اخون عبدالغفور المعروف سیدو بابا کے پوتے میاں گل عبدالودود المعروف باچا صاحب کو اُن علاقوں کا حکم ران بننے کی پیشکش کی، لیکن اُس نے بہ وجوہ پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ اِس کے نتیجے میں متعلقہ علاقوں کے جرگہ نے سید عبدالجبار شاہ کو اُن علاقوں کا حکم ران بننے کی پیشکش کی۔
سید عبدالجبار شاہ نے اس پیشکش کو قبول کیا۔ اس طرح متعلقہ جرگے نے ریاستِ سوات کو قائم کرکے سید عبدالجبار شاہ کو اس کا پہلا حکم ران بنایا، لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر 2 ستمبر 1917 ء کو اُسے اقتدار اور سوات چھوڑنے کو کہا۔ 4 ستمبر 1917 ء کو عبدالجبار شاہ کے سوات سے چلے جانے کے بعد، میاں گل عبدالودود المعروف باچا صاحب کو متعلقہ جرگے نے آنے والے دنوں میں مسندِ اقتدار پر بٹھایا۔ (ان باتوں کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میری انگریزی کتاب ’’سوات سٹیٹ (1915-1969)‘‘، شائع کردہ: اُکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، 2008ء، یا اس کا اُردو ترجمہ ’’ریاستِ سوات (1915 ء تا 1969ء)‘‘، شائع کردہ: شعیب سنز، پبلشرز اینڈ بُک سیلرز، مینگورہ، سوات، 2013ء۔)
حکم ران بننے سے قبل اور بعد میں جو دو افراد باچا صاحب کے دستِ راست اور سب سے زیادہ وفادار ثابت ہوئے، اور جنھوں نے باچا صاحب کی حکم رانی کو استحکام بخشنے، مضبوط کرنے اور ریاستِ سوات کے حدود وسیع کرنے میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کیا، وہ دو بھائی حضرت علی اور احمد علی تھے۔ ابتدا میں حضرت علی کو وزیر کا عہدہ دیا گیا اور اسی وجہ سے وہ وزیر حضرت علی کے نام سے مشہور ہوا۔ جب 1918 ء میں باچا صاحب کا چھوٹا بھائی اور سپہ سالار میاں گل شیرین جان، شموزو کے علاقہ میں نوابِ دیر کی افواج کے خلاف لڑائی کے دوران میں باقاعدہ حکمت عملی کے ذریعے راستے سے ہٹایا گیا، اس لیے کہ وہ اب بھی اقتدار کی خاطر باچا صاحب کے حریف کی حیثیت رکھتا تھا، تو بعد میں احمد علی (جوکہ پہلے تحصیل دار کے عہدے پر فائز تھا) کو فوج کا سپہ سالار بنایا گیا۔ اس کے بعد دونوں بھائی وزیر اور سپہ سالار کے القاب سے یاد کیے جانے لگے۔
دونوں بھائیوں نے بہ طورِ وزیر اور سپہ سالار، مختلف حوالوں سے، باچا صاحب کے لیے جو خدمات سر انجام دیں، باچا صاحب نے مختلف مواقع پر اُنھیں سراہا بھی اور اُن کے لیے اُنھیں انعامات سے بھی نوازا۔ وزیر حضرت علی کو ’’فاتح الملک‘‘ کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ باچا صاحب کے لیے دونوں بھائیوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب وزیر حضرت علی کی بیوی وفات پاگئی، تو باچا صاحب نے اپنی 9 سالہ بیٹی کا نکاح اُس سے کیا۔ اس طرح وہ باچا صاحب کا داماد بھی بن گیا۔
تاہم یہ شادی بعد میں ریاست اور حکم ران خاندان کے اندر، خاص کر اُس وقت کے حکم ران باچا صاحب اور اُس کے بیٹے اور ولی عہد میاں گل جہان زیب (جو بعد میں حکم ران بننے کے بعد والی صاحب کے لقب سے مشہور ہوا اور سوات میں عام طور پر اسی لقب سے جانا اور یاد کیا جاتا ہے)کے درمیان بد اعتمادی اور چپقلش کا سبب بنی۔ یہ اس وجہ سے کہ وزیر حضرت علی سے بیاہی گئی باچا صاحب کی بیٹی میاں گل جہان زیب کی سوتیلی بہن تھی، لہٰذا ولی عہد میاں گل جہان زیب کو خدشہ لاحق ہوا کہ وزیر حضرت علی اُس کو ولی عہدی سے معزول کرکے اُس کی جگہ اپنی نئی بیوی کے حقیقی بھائی سلطان روم کو ولی عہد نام زد کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح، سلطان روم کی کم عمری اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے، یہ دونوں بھائی سارے اختیارات یا سیاہ و سفید کے مالک بن جائیں گے۔
والی صاحب کے مطابق، It was the Wazirs and I who became tarburs (والی صاحب کی فریڈرک بارتھ کو بیان کردہ انگریزی خودنوشت سوانح عمری ’’دی لاسٹ والی آف سوات‘‘ کا بنکاک سے 1995ء میں شائع شدہ ایڈیشن کاصفحہ 79۔) یعنی کہ مَیں اور حضرت علی اور احمد علی اختیارات اور اقتدار کی جنگ میں تربور (چچا زاد، جوکہ عام طور پر خاندان کے اندر ہی اقتدار اور اثر و رسوخ کے لیے ایک دوسرے کے حریف بن جاتے تھے) بن گئے۔ وزیر برادران (حضرت علی اور احمد علی کو سوات میں بعد میں عام طور پر وزیران یعنی دو وزیروں کے نام سے یاد کیا اور پہچانا جانے لگا،اس لیے والی صاحب نے اُنھیں اپنے محولہ تبصرہ یا رائے میں وزیروں کے القاب سے یاد کیا ہے) نہ صرف حکم رانِ ریاست کے دستِ راست تھے بلکہ بڑا بھائی اُس کی بیٹی کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں بھی منسلک ہوا۔ اس کے علاوہ دونوں بھائی اعلا ریاستی عہدوں پر بھی فائز تھے اور اُنھوں نے سوات کے دوسرے کئی ایک بااثر خاندانوں کے ساتھ ازدواجی رشتے بھی استوار کیے تھے۔ اس وجہ سے اُس وقت کا ولی عہد میاں گل جہان زیب اُن کو اپنے لیے بڑا خطرہ اور حریف تصور کرنے لگا اور اُن سے اقتدار کی رسہ کشی میں جُت گیا۔ دوسری طرف حکم رانِ ریاست میاں گل عبدالودود اپنے ولی عہد میاں گل جہان زیب سے، ریاستی اُمور میں اُس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی وجہ سے، بدظن ہوکر اُس سے خطرہ محسوس کرنے لگا۔
اگرچہ ولی عہد اِس کے ماننے سے انکاری ہے کہ اُس نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے اپنے والد اور حکم رانِ ریاست کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنایا، لیکن حقیقت میں ایسا ہی تھا۔ جب اس سازش کو عملی جامہ پہنانے سے قبل ہی یہ راز حکم رانِ ریاست باچا صاحب پر افشا ہوا، تو اُس نے 1935ء میں ولی عہد میاں گل جہان زیب کو نہ صرف اپنے اختیارات سے سبک دوش کیا، بلکہ اُسے ریاست بدر بھی کیا۔ چوں کہ ولی عہد کی انگریز افسروں سے جان پہچان اور قریبی مراسم تھے، لہٰذا اُن مراسم اور اثر و رسوخ کی وجہ سے اُس کی ریاست بدری تو جلد ختم ہوئی، لیکن وہ بدستور اپنے پرانے اختیارات کے استعمال سے محروم رہا۔ آخرِکار صوبائی گورنر نے بیچ میں پڑ کر باپ اور بیٹے کے درمیان مفاہمت کرائی۔ اس کے نتیجے میں پانچ سال بعد ولی عہد کو اپنے اختیارات کے ساتھ دوبارہ بحال کیا گیا۔ میاں گل جہان زیب کا، اپنے والد کے ساتھ اس کشیدگی کی وجہ وزیر برادران کی سازش کا نتیجہ قرار دینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نہ صرف اُس کے باپ کے خدشات اور حسد اس کا سبب تھا، بلکہ ڈلہ بازی (دھڑا بندی) کے معاملات اور اقتدار کے لیے رسہ کشی کا بھی اس میں ہاتھ تھا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، والی صاحب کی محولہ بالا انگریزی خود نوشت سوانح عمری ’’دی لاسٹ والی آف سوات‘‘ کے ابواب 7 تا 9۔)
صوبائی گورنر کے بیچ میں پڑنے اور باپ اور بیٹے کے درمیان مفاہمت کرانے کے وقت 1939 ء میں دو اہم دستاویزات ضبطِ تحریر میں لائی گئیں۔ ایک دستاویز باچا صاحب کا وصیت نامہ ہے جس میں اُس نے اپنی جائیداد کی اپنی دونوں بیٹوں میاں گل جہان زیب اور سلطان روم کے درمیان تقسیم وغیرہ کی بات کی ہے۔ اُس وصیت نامے کو اُس وقت کے اس صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) کے گورنر جارج کننگھم نے اپنے دستخط ثبت کرکے تصدیق کی ہے۔
دوسری دستاویز جو کہ دسمبر 1939ء میں تحریر اور دستخط کی گئی ہے، وہ وزیر حضرت علی سے متعلق ہے۔
اس دستاویز کے انگریزی ترجمے کو اگر اُردو کے قالب میں ڈھالا جائے، تو صورتِ حال کچھ یوں بنتی ہے کہ مَیں میاں گل عبد الودود حکم رانِ ریاستِ سوات یہ وعدہ اور اقرار کرتا ہوں کہ میرا وزیر حضرت علی خان میرے دورِ حکم رانی کے ابتدا ہی سے میرے لیے وفادار اور سود مند خدمات انجام دے رہا ہے۔ اِن خدمات کے صلے کے طور پر، جب بھی ولی عہد جہان زیب میرے ذریعے سے یا میری وفات کے بعد بر سرِ اقتدار آجائے، تو وہ وزیر حضرت علی خان کو تاحیات ماہانہ 400 روپے پنشن کے طور پر ادا کرے گا۔ علاوہ ازیں جو جائیداد اُس نے خریدی ہے، اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ یہ جائیداد ریاست کے تمام قواعد و قوانین کے تابع ہوگی۔ اُسے اور اُس کے بچوں کو جسمانی یا مالی طور پر کوئی گزند نہیں پہنچائے گا۔ جہان زیب کو یہ مکمل اختیار حاصل ہوگا کہ اُنھیں اپنی ملازمت میں رکھے یا نہ رکھے۔ اگر وہ چاہے، تو اُنھیں اپنی ملازمت میں رکھ سکتا ہے، بہ صورتِ دیگر وہ اُن کو اپنی ملازمت میں نہ رکھے۔ باچا صاحب نے اپنی مہر لگا کر اسے تاریخ کا حصہ بنایا۔
باچا صاحب کے اس بیان کے نیچے، اُس کے بیٹے اور ولی عہد کا یہ بیان درج ہے کہ مَیں میاں گل عبدالحق جہان زیب بہ طورِ ولیِ عہد ریاستِ سوات، شمال مغربی سرحدی صوبے کے گورنر کے رو بہ رو درجِ بالا سطور کی توثیق کرتا ہوں۔ انگریز حکومت کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ مجھے اس معاہدے کا پابند بنائے، اور اگر مَیں نے اس سے سرتابی کی، تو انگریز حکومت کو اختیار ہوگا کہ اس کے مکمل نفاذ کو یقینی بنائے۔
اپنے اس اقرار نامے کو دستخط کرکے میاں گل جہان زیب نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کی۔
اس کے بعد صوبائی گورنر کا یہ بیان درج ہے کہ مَیں، سر جارج کننگھم، گورنر شمال مغربی سرحدی صوبہ تصدیق کرتا ہوں کہ میاں گل جہان زیب درج شدہ شرائط کا پابند رہے گا۔ اگر اُس نے اِن پر عمل درآمد سے اجتناب کیا، تو انگریز حکومت کو یہ اختیار ہوگا کہ اُسے اِن پر عمل درآمد کا پابند بنائے۔ اپنے اس بیان کی اپنے دستخط کے ذریعے گورنر نے توثیق کی۔ (مذکورہ معاہدے کی انگریزی ترجمے کی کاپی کے لیے ملاحظہ ہو، ٹرائبل آفیئرز ریسرچ سیل، پشاور، میں سیرئیل نمبر 18/Swat، فائل نمبر 12-S.Sts)
درجِ بالا سیاق و سِباق میں، پانچ سال بعد، 1940ء میں باچا صاحب نے نہ صرف اپنے ولی عہد میاں گل جہان زیب کو اپنی پرانی ذمے داریاں نبھانے اور کام کرنے کا اختیار دیا، بلکہ اُسے ریاست کی فوج کی سپہ سالاری بھی تفویض کی۔ اس کے نتیجے میں ابھی تک سپہ سالاری کے فرائض سر انجام دینے والا احمد علی اپنے عہدے سے سبک دوش ہوا، لہٰذا اُسے وزیر کا عہدہ دیا گیا اور اُس کے بڑے بھائی کو، جس کے پاس ابھی تک وزیر کا عہدہ تھا، وزیرِ اعظم کا عہدہ دیا گیا۔ اس وجہ سے دونوں بھائی ’’وزیران‘‘ یا وزیر برادران، اور انفرادی طور پر بڑا ’’مشر وزیر‘‘ اور چھوٹا ’’کشر وزیر‘‘ کے القاب سے مشہور ہوئے۔
اگرچہ حکم ران باچا صاحب، ولی عہد میاں گل جہان زیب اور وزیر برادران کے درمیان ایک طرح کا سمجھوتا اور اقتدار میں شراکت کا نیا ڈھانچا وجود میں آیا، لیکن فریقین کے درمیان جو بداعتمادی پیدا ہوئی تھی، اُس کا ختم ہونا مشکل تھا۔ علاوہ ازیں، ریاستی فوج کی سپہ سالاری کی احمد علی سے ولی عہد میاں گل جہان زیب کو منتقلی نے اختیارات کے توازن اور شکل کو مکمل طور پر بدل دیا۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بادشاہت رشتے ناتے نہیں جانتی، یا باشاہت کو رشتوں ناتوں سے کوئی سروکار نہیں، اس میں حکم ران اور حکم رانی کے مفادات ہر چیز پر بھاری ہوتے ہیں، یہی صورتِ حال یہاں پر بھی سامنے آئی۔
تیزی سے بدلتے ہوئے پس منظر میں رشتے ناتے اور پرانی بیش بہا خدمات، وزیر برادران کے کچھ کام آنا ایسا کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ جیسا کہ والی صاحب نے بھی اعتراف کیا ہے کہ وزیر حضرت علی انتہائی ذہین اور دور اندیش تھا، اُس نے نئی اُبھرتی ہوئی صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے ریاستِ سوات سے باہر ملاکنڈ پروٹیکٹیڈ ایریا یا عرفِ عام میں ملاکنڈ ایجنسی میں درگئی کے قریب وزیر آبادمیں اپنے لیے رہایش گاہیں تعمیر کیں۔ ریاستِ سوات میں اقتدار اور اختیارات کی اس رسہ کشی میں اپنے آپ کو کم زور اور غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے، بالآخر 1943ء میں وہ ریاستِ سوات چھوڑ کر وزیر آباد منتقل ہوگئے۔
قارئین کی معلومات کے لیے اس کا کچھ ذکر ہوجائے کہ وزیر برادران کے سوات سے چلے جانے کے بعد یہاں پر اُنھوں نے جو جائیداد خریدی تھی، وہ بہ حقِ سرکار ضبط کی گئی۔ اس بابت اور وزیر حضرت علی کے ضمن میں دسمبر 1939ء کے محولہ بالا باچا صاحب اور والی صاحب کی تحریری یقین دہانیوں کی پاس داری کی خاطر، وزیر حضرت علی نے پہلے انگریز حکومت اور بعد میں پاکستان کے صوبائی حکام کو درخواستیں بھی دیں اور کافی تگ و دو بھی کی، لیکن بے سود۔ اس کاتذکرہ والی صاحب نے اپنی سوانح عمری میں بھی کیا ہے (ملاحظہ ہو، والی صاحب کی محولہ بالا انگریزی خودنوشت سوانح عمری ’’دی لاسٹ والی آف سوات‘‘ کا صفحہ 99۔) اور ٹرائبل آفیئرز ریسرچ سیل کی محولہ بالا فائل میں بھی اس حوالے سے دستاویزات موجود ہیں۔
یاد رہے کہ عبدالولی خان کی کتاب ’’رختیا، رختیا دی‘‘ (حقائق، حقائق ہیں) کے مطابق وزیرِ اعظم حضرت علی انگریزوں کے لیے سوات، بونیر، مردان اور رانڑیزی کے علاقوں میں ملاؤں کے ذریعے خفیہ طور پر کام کرتا تھا۔ (ملاحظہ ہو مذکورہ کتاب کا افغانستان سے 1987ء میں شائع شدہ نسخے کا صفحہ 151۔) اُنھوں نے اُسے’’ خان بہادر‘‘ کے خطاب سے بھی نوازا تھا۔ تاہم یہ سب اُس موقع پر اُس کے کچھ کام نہ آیا۔
یہاں اس کا ذکر بھی ہوجائے کہ اگرچہ محولہ بالا معاہدے کی محولہ بالا انگریزی نقل میں صرف وزیر حضرت علی کا ذکر ہے، لیکن ٹرائبل آفیئرز ریسرچ سیل کی محولہ بالا فائل میں جو دستاویزات موجود ہیں، اُن میں حضرت علی کی انفرادی درخواستوں، جن میں محولہ بالا پنشن کی ادائی اور ضبط شدہ جائیداد کی واپسی اور اُس سے حاصل شدہ آمدنی کی اُس کو دینے کی استدعا کی گئی ہے، کے ساتھ ساتھ ایسی درخواستیں بھی موجود ہیں جوکہ دونوں بھائیوں کی مشترکہ ہیں اور جن میں دونوں بھائیوں کو مذکورہ بالا پنشن کی ادائی اور دونوں کی ضبط شدہ جائیداد کی واپسی اور اس سے حاصل شدہ آمدنی کی اُن کو دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
اگرچہ اس حوالے سے والی صاحب کا نکتۂ نظر اور جواب اس حد تک حق بجانب قرار دیا جاسکتا ہے کہ وزیر برادران کو نوکریوں سے برخاست نہیں کیا گیا تھا، بلکہ وہ خود اُن سے دست بردار ہوکر سوات سے چلے گئے اور یہ سب کچھ اُسے یعنی والی صاحب کو اقتدار کی منتقلی سے پہلے اُس کے والد باچا صاحب کے دور میں ہوا۔ لہٰذا نہ تو اُسے اس کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے اور نہ مذکوہ معاہدے کے تحت وہ پنشن کے حق دار ہی تھے۔ تاہم وزیر برادران کی خریدی گئی جائیداد کے ضبط کرنے کے ضمن میں والی صاحب کی اس دلیل کو وزنی قرار نہیں دیا جاسکتا کہ یہ جائیداد اُس کے والد نے ضبط کی تھی۔ لہٰذا اُس کی واپسی یا معاوضے کی ادائی کا وہ ذمے دار نہیں یا اُس کے نہ ادا کرنے کے لیے اُسے موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ وزیر برادران کی خریدی گئی جائیداد کو اگرچہ باچا صاحب نے ضبط کیا، لیکن اس ضبطی کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا تھا، لہٰذا جب اُنھوں نے اس کی واپسی یا اُس کے معاوضہ کی ادائی اور اُس وقت تک اُس کے محاصلات کی ادائی کے لیے درخواستیں دائر کیں، تو اُن درخواستوں کے دائر کرنے کے وقت بہ طورِ حکم ران یہ والی صاحب کا فرض تھا کہ ہر ممکن طریقہ سے اُن سے کی گئی زیادتی کی تلافی وہ ہر قیمت پر کرتا، لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا۔
اِس حوالے سے بعض افراد کی طرف سے یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ یہ جائیداد اُنھوں نے اپنے عہدوں کی بہ دولت حاصل کی تھی یا اُن کا استعمال کرتے ہوئے حاصل کی ہوئی دولت سے بنائی تھی، اِس لیے اُسے بہ حقِ سرکار ضبط کیا گیا۔ ریاستِ سوات میں تو دوسرے بہت سارے سرکاری عہدہ داروں اور با اثر افراد نے بھی اپنے سرکاری عہدوں اور حکم رانوں سے تعلق کی وجہ سے بااثر ہونے کی بدولت جائز و ناجائز یا قانونی اور غیر قانونی دونوں طریقوں سے دولت اور جائیدادیں بنائی تھیں، لہٰذا اِس منطق کی رو سے تو اُن سب کی جائیدادوں کو بھی ضبط کیا جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے وزیر برادران کی جائیداد کو بہ حقِ سرکار ضبط کرنے اور اُن کی بار بار درخواستیں دائر کرنے کے باوجود اُن کو اُس کا معاوضہ تک بھی نہ ادا کرنے کے لیے مذکورہ دلیل کوئی وقعت اور وزن نہیں رکھتی۔ یہ عمل باچا صاحب اور والی صاحب کے کردار پر ایک بد نُما داغ ہے۔
سیاسی اختلاف اور اقتدار کی رسی کشی میں اپنی ناکامی کو تسلیم کرتے ہوئے جب وزیر برادران نے ریاست ہی کو چھوڑ دیا، تو باچا صاحب اور والی صاحب کو اُن کی پرانی خدمات اور اُن سے رشتہ داری کا کچھ خیال اور بھرم رکھتے ہوئے اس حد تک نہیں جانا چاہیے تھا۔ تاہم جیسا کہ پہلے بھی بتایا جاچکا ہے کہ بادشاہت رشتے ناتے نہیں جانتی، یا باشاہت کو رشتوں ناتوں سے کوئی سروکار نہیں، یہ بات یہاں بھی درست ثابت ہوئی۔
ایک اور دل چسپ بات یہ کہ جن وزیروں کے اوصاف اور خاندانی شرافت کے ضمن میں تاج محمد خان زیب سرؔ نے اپنی کتاب ’’عروجِ افغان‘‘ کی دونوں جلدوں میں زمین آسمان کے قلابے ملائے ہیں، مذکورہ بالا تناظر میں اُن کے سوات چھوڑنے کے بعد اُس نے اُن کے ذم یا ہجو میں 1945ء میں ’’موزیر نامہ یا عبرت نامہ‘‘ کے نام سے کتاب تحریر کر ڈالی، جو درباری مؤرخین اور لکھاریوں کا خاصا ہے۔ علاوہ ازیں ریاستِ سوات کے حکم رانوں کی طرف سے ریاست کے باشندوں پر نہ صرف اُن سے ملاقات پر پابندی لگا ئی گئی بلکہ اُنھیں ’’وزیران‘‘ کی بہ جائے ’’موزیران‘‘ (موذیران) کہا جانے لگا۔ اس کے ثبوت ضلعی محافظ خانہ، (گل کدہ، سوات) میں ریاستِ سوات کے ریکارڈ میں راقم نے دیکھے ہیں۔
درجِ بالا طول طویل تمہید اور سیاق و سِباق میں، پہلے باخبر سوات ڈاٹ کام کی محولہ بالا رپورٹ کی اس بات کو سمجھنے اور سلجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سابقہ ’’سوات ہوٹل‘‘ یا موجودہ ’’سوات سیرینہ ہوٹل‘‘ کی عمارت واقعی ریاستِ سوات کے دور میں وزیر حضرت علی (بعد میں وزیرِ اعظم اور مشر وزیر) ’’کا گھر اور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس تھی۔‘‘ اس بات کو تاج محمد خان زیب سرؔ کی کتاب ’’عروجِ افغان‘‘ کی جلدِ اول کی روشنی میں دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔ زیب سرؔ نے اپنی کتاب کی جلدِ اول کے صفحات 367 تا 372 میں بہ عنوان ’’د لیدو لایق مقامات او د اَمیر المؤمنین د دورانِ حکومت تعمیرات‘‘، یعنی باچا صاحب کے دورِ حکومت کی تعمیرات اور قابلِ دید مقامات، میں اس وقت کی اہم عمارات کا ذکر کیا ہے۔ اِن میں دوسری تعمیرات کے علاوہ سیدو شریف میں سیدو بابا کا مزار، باچا صاحب کا محل اور بڑینگل (نیا نام عقبہ) میں باچا صاحب کا بنگلہ اور اس بنگلے میں خوب صورت مہمان خانے، ولی عہد یعنی میاں گل جہان زیب کا محل اور اس کے پہلو یا پڑوس میں اس کا بنگلہ، وسیع میدان میں وزیر حضرت علی کا بنگلہ اور اس کے پہلو یا پڑوس میں اس کا گھر، مینہ (نیا نام مرغزار) میں قصریں، میاں دم میں خوب صورت بنگلے اور طوطالئی میں بنگلہ شامل ہیں۔
تاج محمد خان زیب سرؔ نے انتہائی واضح انداز میں محلات، گھروں اور بنگلوں کی صراحت کی ہے اور اس میں کسی ابہام کی گنجایش نہیں چھوڑی کہ محلات، گھر اور بنگلے نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف تھے، بلکہ اُن کا مصرف بھی علاحدہ تھا۔ باچا صاحب اور ولی عہد میاں گل جہان زیب کے محل اُن کے گھر تھے، جب کہ اُن کے بنگلے اُن کے دیرے یا مرد مہمانوں کے لیے استعمال کی جگہیں یا عمارات تھیں۔ اسی طرح اُس نے وسیع میدان میں واقع وزیر (بعد میں وزیرِ اعظم اور مشر وزیر) حضرت علی کے بنگلے اور اُس کے گھر کا ذکر علاحدہ علاحدہ کرکے اُن میں بھی فرق کو واضح کیا ہے۔ علاوہ ازیں میاں دم اور طوطالئی کے بنگلوں کے ذکر کے ذریعے اُس نے مزید صراحت کی ہے کہ بنگلہ محل یا گھر نہیں، بلکہ مہمان خانہ ہی ہے۔
یہاں اس کا ذکر بے جا نہیں ہوگا کہ تاج محمد خان زیب سرؔ کی کتاب ’’عروجِ افغان‘‘ کی جلدِ اول (شائع شدہ 1360 ہجری) میں کوئی تصویر نہیں، جب کہ اس کی جلدِ دوم (شائع شدہ 1361 ہجری) میں ریاستِ سوات کے اُس وقت کے حکم ران باچا صاحب اور ولی عہد میاں گل جہان زیب کے علاوہ وزیرِ اعظم حضرت علی اور وزیر احمد علی کی ذاتی یا شخصی تصاویر دی گئی ہیں، لیکن اُن کے محلوں اور بنگلوں کے نہیں۔ عبدالغفور قاسمی کی پشتو کتاب ’’تاریخِ ریاستِ سوات‘‘ (تالیف شدہ 1939ء) اور اس کے انگریزی ترجمے ’’دی ہسٹری آف سوات‘‘ (شائع شدہ 1940ء) میں مختلف محلات، اہم جگہوں اور تعمیرات کی تصاویر دی گئی ہیں، لیکن اُن میں بھی وزیرِ اعظم حضرت علی کے محل اور بنگلے کی تصاویر نہیں۔
اگرچہ والی صاحب نے اپنی سوانح عمری میں مشر وزیر کے گھر کو سوات ہوٹل بنانے کی بات کی ہے، اور اپنے حوالے سے بھی اپنے گھر کو غیر ملکی سیاحوں کے ٹھہرنے کے لیے استعمال کرنے کی بات کی ہے، لیکن زیب سرؔ کی تصریح سے واضح ہے کہ سابقہ ’’سوات ہوٹل‘‘ اور موجودہ ’’ سوات سیرینہ ہوٹل‘‘ کے وسیع و عریض قطعۂ ارضی میں وزیر حضرت علی کا بنگلہ آیا ہے، اُس کا گھر نہیں۔ اُس کا گھر پہلو یا پڑوس میں واقع موجودہ کمشنر ہاؤس ہی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سوات ہوٹل میں تبدیل کی گئی عمارت اور اُس کے چمن کو بعد میں بھی وزیر صاحب کے بنگلے کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس عمارت کا اُس کا گھر نہ ہونے کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ اِس کے اِرد گرد گھر یا محل جیسی چار دیواری نہیں تھی۔ مزید یہ کہ آج بھی والی صاحب کے دیرے والے حصے کو اُس کے بنگلے کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، نہ کہ اُس کے گھر یا محل والے حصے کو۔ اس صراحت کے بعد کسی ابہام کی گنجایش نہیں کہ سوات ہوٹل میں تبدیل کی گئی عمارت وزیر یا بعد میں وزیرِ اعظم ریاستِ سوات کا دیرہ یا بنگلہ ہی تھا گھر نہیں۔ گھر والا حصہ موجودہ کمشنر ہاؤس ہے۔
علاوہ ازیں، وزیر حضرت علی کا یہ بنگلہ یا دیرہ اُس کا ذاتی مہمان خانہ یا گیسٹ ہاؤس تھا نہ کہ ’’اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس‘‘۔ جیسا کہ زیب سرؔ کے بیان سے بھی واضح ہے کہ اُن دنوں میں اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس یا سرکاری مہمان خانے بڑینگل (موجودہ عقبہ) میں باچا صاحب کے بنگلے ہی میں تھے۔ سابق وزیر یا وزیرِ اعظم یا مشر وزیر کے بنگلے کو 1943ء میں اُس کے سوات چھوڑنے کے بعد بھی باچا صاحب کے دورِ حکم رانی میں ’’اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس‘‘ کے طور پر استعمال نہ کرنا والی صاحب کے درجِ ذیل بیان سے بھی واضح ہے۔ سابق وزیر یا وزیرِ اعظم یا مشر وزیر کے بنگلہ یا دیرہ کی عمارت کو ہوٹل میں کیوں تبدیل کیا گیا یا اس تبدیلی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب والی صاحب کی خود نوشت سوانح عمری ہی میں موجود ہے۔ والی صاحب کی اس خود نوشت سوانح عمری کے صفحہ 126 پر بیان کے مطابق:
We wanted Swat to be open to tourists; my father and I both welcomed them. In his time, there was no hotel here, so whenever a European came, he used to stay with me. Luckily they were few. My house became home-cum-guest-house. When the Wazirs left Swat and I became Ruler, I took the house that had been occupied by the elder Wazir and made it into the Swat hotel – it has been expanded several times since then. From then on, we put most of our guests there – they were not charged of course – in that way I could be free to do my State work.
یعنی والی صاحب کے بہ قول: ہم سوات کو سیاحوں کے لیے کھول کے رکھنا چاہتے تھے۔ مَیں اور میرے والد دونوں نے اُنھیں خوش آمدید کہا۔ میرے والد کے دورِ حکم رانی میں یہاں پر (یعنی سیدو شریف میں) کوئی ہوٹل نہیں تھا، پس جب بھی کوئی یورپی یہاں آتا، وہ میرے ہاں ٹھہرتا تھا۔ خوش قسمتی سے ایسے افراد کم تھے۔ میرا گھر یا ٹھکانا، مکان اور مہمان خانہ بن گیا۔ جب وزیروں نے سوات چھوڑا اور مَیں (دسمبر 1949ء میں) حکم ران بنا، تو مَیں نے اُس گھر کو، جس پر مشر وزیر براجماں تھا، لے کر اُسے سوات ہوٹل میں تبدیل کیا۔ اِسے اُس کے بعد کئی دفعہ وسعت دی گئی ہے۔ اُس کے بعد، ہم اپنے اکثر مہمانوں کو یہاں ٹھہراتے تھے۔ تاہم اُن سے کرایہ وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ اس طرح مَیں اپنے ریاستی اُمور کی انجام دہی کے لیے آزاد رہا۔
رہی باخبر سوات ڈاٹ کام کی محولہ بالا رپورٹ کی یہ بات کہ ’’اُس وقت کے وزیرِ اعظم اور کچھ وزرا نے جب ریاستِ سوات میں والئی سوات کا تختہ اُلٹنے کی کوشش شروع کی، تو خفیہ اداروں کی اطلاع پر والئی سوات نے اُن کو گرفتار کرکے ریاست بدر کیا اور اس عمارت کو ہوٹل میں تبدیل کیا۔‘‘ اس بات کی وضاحت پہلے ہی کی جاچکی ہے کہ وزیران یا وزیر برادران کیوں اور کن سیاسی حالات میں سوات چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ تاہم اس بات کی کچھ وضاحت ہوجائے کہ واقعی وزیرِ اعظم اور کچھ وزرا نے والئی سوات کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی تھی اور خفیہ اداروں کی اطلاع پر والئی سوات نے ان کو گرفتار کرکے ریاست بدر کیا؟
پہلی بات یہ کہ ریاستِ سوات کے حکم رانوں کے مخبر ہوا کرتے تھے، لیکن اُس دور میں کوئی باقاعدہ خفیہ ادارہ تھا اور نہ ریاست کے حکم رانوں نے ایسے کسی ادارے کے قیام کی ضرورت محسوس ہی کی تھی۔ اس بات کا اعتراف بھی والی صاحب کے محولہ بالا خود نوشت سوانح عمری میں موجود ہے۔ ریاستِ سوات میں کسی باقاعدہ خفیہ ادارے کا نہ ہونا اس نظام کی خامیوں میں سے ایک تھا۔ اس لیے کہ حکم رانوں کے اُن مخبروں کی خبریں اکثر ذاتی پسند و ناپسند اور مفادات پر مبنی ہوتی تھیں اور یہی وجہ تھی کہ والی صاحب اپنے آخری دور میں اس قسم کے مخبروں کی رپورٹوں اور باتوں کی بنیاد پر بعض ایسے اقدامات کر بیٹھا جو اُس کے لیے مسائل کا سبب بنے۔
دوسری بات، اُس وقت یعنی 1943ء میں باچا صاحب حکم ران تھا، والی صاحب نہیں۔ والی صاحب تو چھے سال بعد 12 دسمبر 1949ء کو حکم ران بنا تھا، تو 1943ء میں وزیرِ اعظم اور کچھ وزرا کا والئی سوات یا والی صاحب کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
مزید یہ کہ والی صاحب کی محولہ بالا خود نوشت سوانح عمری کے صفحہ 99 پر اُس کے بیان کے مطابق 18 جون 1943ء کو باچا صاحب نے وزیرِ اعظم کا عہدہ بھی اُس کے ہی سپرد کیا تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت علی کو وزیرِ اعظم کے عہدے سے سبک دوش کیا گیا تھا اور اگر یہاں والئی ریاست سے باچا صاحب مراد ہوں، تو اُس کے خلاف بھی اِس طرح کی کسی سازش کا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا۔
تیسری بات، یہ کہ واقعی خفیہ اداروں کی محولہ بالا سازش کی اطلاع پر وزیر برادران کو گرفتار کرکے ریاست بدر کیا گیا۔ اس نکتے کو بھی والی صاحب کے بیان کے ذریعے ہی واضح کرنا بہتر ہوگا۔ والی صاحب اپنے محولہ بالا خود نوشت سوانح عمری کے صفحہ 99 پر بتاتا ہے کہ میرے وزیرِ اعظم بننے کے جلد بعد مشر وزیر کچھ بہانہ بنا کر ستمبر کے مہینے میں کشمیر چلا گیا۔ میرے خیال میں اُسے ڈر تھا کہ میرا والد اُسے قتل کرے گا، لہٰذا وہ دور رہا۔ اکتوبر میں میرا والد گورنر سے رسمی ملاقات کی خاطر پشاور گیا۔ مشر وزیر اور میرا والد دونوں ڈین ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ مشر وزیر میرے والد کے پاس آیا اوریہ کہتے ہوئے کہ وہ سوات واپس جانا نہیں چاہتا، وہاں پر اپنا استعفا اُسے پیش کیا۔ پھر، جب کہ میرا والد ابھی پشاور ہی میں تھا، اُس نے اپنے چھوٹے بھائی کو سوات ٹیلی فون کیا اور اُسے بتایا کہ اپنا ساز و سامان لپیٹ کر سوات سے آجاؤ۔ لوگ میرے پاس آکر پوچھنے لگے کہ کیا وزیروں کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا ہے؟ مَیں نے کہا کہ مجھے افسوس ہے، لیکن اُسے ہدایت کی گئی ہے اور اُسے جانا ہے۔ پس مَیں نے اُنھیں اُن کے سامان لے جانے کے لیے کچھ مال بردار گاڑیاں فراہم کیں اور 18 اکتوبر 1943ء کو وہ اپنے خاندانوں کے ہم راہ پُرامن طور پر چلے گئے۔ چوں کہ اُنھوں نے پہلے ہی درگئی کے قریب وزیر آباد میں اپنے لیے گھر تعمیر کیے تھے، لہٰذا اُنھیں وہاں پر رہایش کے کوئی مسائل نہیں تھے۔
والی صاحب کا یہ بیان وزیرِ اعظم حضرت علی اور کچھ دوسرے وزرا کی بغاوت کی سازش اور خفیہ اداروں کی اُس کے افشا ہونے کی بنیاد پر اُن کی گرفتاری اور ریاست بدری کی نفی کرتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے