جب پتھر کو بہترین انداز میں تراشا جائے، تو وہ گوہرِ نایاب بنتا ہے، اور جب کسی بچے کی اعلا پائے کی تربیت کی جائے، تو وہ دکھی انسانیت کا مسیحا بنتا ہے۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
خدمتِ انسانیت کی روشن مثال، عبدالستار ایدھی بھی عظیم ماں سے اعلا تربیت لے کر عملی زندگی میں داخل ہوئے کہ اُن کی والدہ عبدالستار ایدھی کو روز انہ ایک پیسا کھانا کھانے کے لیے دیتیں اور ایک پیسا کسی دوسرے شخص کی مدد کے لیے۔ یہی وجہ ہے کہ عبدالستار ایدھی نے ساری زندگی رنگینیوں سے کنارہ کش ہو کر خود کو خدمتِ انسانیت کے عظیم مشن کی تکمیل کے لیے وقف کیے رکھا۔ ایدھی نے رسمی تعلیم تو ہائی سکول تک بھی حاصل نہیں کی تھی، تاہم وہ کہتے تھے کہ دنیا کے غم میرے استاد اور دانائی و حکمت کا ذریعہ رہے ہیں۔ 1951ء میں انھوں نے ذاتی دکان میں ایک ڈاکٹر کی مدد سے مختصر شفاخانہ کھولا۔ ان کے ایک دوست نے اِس کام میں اُن کی مدد کی۔ اُس دوست سے ملنے والے پیسوں سے اُنھوں نے دو ہزار روپے کی ایک گاڑی لی۔ ایک ڈسپنسری بنائی اور ایک خیمے کے اندر چار بستروں کا ہسپتال قائم کیا۔ ایدھی اپنی ایمبولینس میں دن بھر شہر کا چکر لگاتے اور جب بھی کسی ضرورت مند یا زخمی شخص کو دیکھتے، اُسے فوراً امدادی مرکز لے جاتے۔
باقاعدہ طور پر ’’ایدھی فاؤنڈیشن‘‘ کا آغاز 1957ء میں اُس وقت ہوا، جب کراچی میں بڑے پیمانے پر زکام (فلو) کی وبا پھیلی۔ اُس موقع پر ایدھی صاحب نے مخیر حضرات کی مدد سے کراچی کے قرب و جوار میں مفت طبّی کیمپ لگوائے۔ اُن کے کام سے متاثر ہوکر مخیر حضرات نے اُنھیں خطیر رقم کا عطیہ کیا، جسے دیانت داری سے استعمال کرتے ہوئے انھوں نے وہ پوری عمارت خریدلی جہاں ڈسپنسری قائم تھی۔ اُسی عمارت میں جہاں انھوں نے ایک زچہ خانہ اور نرسوں کے لیے ایک تربیتی ادارہ قائم کیا، وہاں ان کی ملاقات نرس بلقیس سے ہوئی جن سے انھوں نے 1965ء میں شادی کرلی…… اور اُن کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
اپنے فلاحی کاموں کا آغاز اس چھوٹے سے مکان سے کرنے والا اُن کا ادارہ آج جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے غیر ریاستی فلاحی اداروں میں سے ایک ہے…… جس کے لیے انھوں نے کسی بھی لسانی اور مذہبی تفریق سے بالاتر ہوکر اپنے ہم وطنوں کی بے لوث خدمت کی اور اپنی پوری زندگی اس کام کے لیے وقف کردی۔
ایدھی بذاتِ خود ایک ایسا ادارہ تھے جو کہ ملک کے پس ماندہ طبقے کے لیے کام کرتا تھا۔ انھوں نے مشکل وقت بھی دیکھا ، اُن کو سیاسی معاملات میں بھی استعمال کرنے کی کوشش کی گئی اور ناکام ہونے پر اُن کو انتقام کا نشانہ بھی بنایا گیا، جس پر اُن کو کچھ عرصے پاکستان سے باہر بھی رہنا پڑا…… لیکن انھوں نے اپنے مشن ’’خدمتِ انسانیت‘‘ کو جاری رکھا۔ اس عظیم فلاحی کارکن نے ایدھی فاؤنڈیشن چھے دہائیوں تک کچھ ایسے چلائی کہ حکومت بھی وہ کام نہ کرسکی جو اس تنظیم نے کیا۔ بلاشبہ ایدھی فاؤنڈیشن نے نہ صرف پاکستان بلکہ بر صغیر میں فلاحی کام کو ایک انقلابی شکل دی۔
ایدھی فاؤنڈیشن اِس وقت بھی وسیع پیمانے پر ایمبولنس سروس، مفت ہسپتال، لاوارث بچوں، خواتین اور بوڑھوں کے لیے دارالامان چلا رہی ہے۔ اس ٹرسٹ نے 20 ہزار سے زیادہ لاوارت نومولود بچوں کی زندگی بچائی، 50 ہزار سے زیادہ یتیموں کی کفالت کی اور 40 ہزار سے زیادہ نرسوں کو ٹریننگ دی۔ ملک کے چپے چپے میں ایدھی ٹرسٹ کے کلینک، پناہ گاہیں، بزرگوں اور عورتوں کے لیے گھر اور ایسے ہی بے شمار منصوبے ملیں گے۔ کوئی حادثہ ہو، قدرتی آفات یا دھماکا…… چند منٹ بعد سائرن بجاتی اور تیزی سے موڑ مڑتی سفید سوزوکی گاڑیاں جائے وقوع پر پہنچتی ہیں، جیسے کہ وہ اگلی گلی میں اسی واردات کا انتظار کر رہی تھیں۔ تربیت یافتہ عملہ پھرتی سے اُتر کر زخمیوں اور ہلاک ہونے والوں کو اس مہارت سے سٹریچروں پر ڈال کر ایمبولینسوں میں منتقل کرتا ہے، جیسے وہ سالہاسال سے بس یہی کام کرتا چلا آیا ہو۔
بلاشبہ ایدھی کی ذات پر جو اعتبار تھا، وہ قوم نے کسی دوسرے کو نہ بخشا۔ کیوں کہ انسانیت کے اس عظیم محسن نے ان گلی سڑی لاوارث لاشوں کو بھی اپنے ہاتھوں سے اُٹھا کر دفن کیا جن کو اُن کے وارثان بھی چھونے کو تیار نہ تھے۔ اُن بچوں کو اُس نے نئی زندگی دی جن کو کوڑے کے ڈھیر پر مرنے کے لیے پھینک دیا گیا تھا۔ بے شمار یتیم اور بے سہارا اُن کے صدقے ایک نئی زندگی پاگئے۔
انسانیت کی بے لوث خدمت میں عالمی شہرت حاصل کرنے کے باوجود، پاکستان کے اکثر سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے برعکس ایدھی نے سادگی سے زندگی گزاری اور یہی وجہ ہے کہ عوام نے اُن پر محبت اور چندوں کی بارش کی۔ وہ انتہائی معمولی شلوار قمیص پہنتے۔ اُن کے پاس ملیشیا کے سستے ترین کپڑے کے صرف دو جوڑے تھے۔ ایک میلا ہو جاتا، تو دوسرا پہن لیتے جب کہ جوتوں کا ایک ہی جوڑا گذشتہ 20 سال سے اُن کے استعمال میں رہا۔
عبدالستار ایدھی نے اپنی زندگی میں اس بات کو یقینی بنایا تھا کہ وہ اپنے پیچھے ایک ادارہ چھوڑ جائیں جو اُن کے بعد بھی انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرتا رہے۔
آج ایدھی ہم میں نہیں، مگر اُن کے اہلِ خانہ اور ایدھی فاؤنڈیشن کے کارکنان اُن کا مشن آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ موت کے بعد امر ہو جانے کی ایک علامت ہے۔ آج ایدھی صاحب تو ہم میں نہیں، مگر اُن کی عظیم خدمات کی بدولت اُن کا نام پاکستان میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ سڑک پر چلتی ہوئی ہر ایدھی ایمبولینس ہمیں اُن کی یاد دلاتی رہے گی اور ہمارے دلوں سے اُن کے لیے دعائیں نکلتی رہیں گی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔