سویڈن میں ایک بدبخت نے عید کے دن قرآنِ پاک کو نذرِ آتش کرکے مسلم اُمہ میں غم و غصے اور اشتعال کے جذبات پیدا کر دیے۔ پوری دنیا میں اس واقعے کی مذمت کی جا رہی ہے۔
آزادیِ اظہارِ رائے کے نام پر کسی کے بھی مذہبی جذبات کو پامال کرنے یا ٹھیس پہنچانے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی، مگر سوال یہ ہے کہ ایسا کرنے والے اجازت مانگتے ہی کب ہیں؟ وہ ایسا کر گزرتے ہیں۔ بظاہر یہ فردِ واحد کا کام ہے، مگر ایسے کام فردِ واحد کے بس کی بات نہیں ہوتے۔ اس قسم کے کاموں کے پیچھے کمیونٹی کی ایک بڑی تعداد، انتہا پسند لوگ اور اکثر اوقات حکومتی پشت پناہی بھی ہوتی ہے۔ موجودہ واقعے کے بارے میں بھی بتایا جا رہا ہے کہ یہ حکومتی سرپرستی میں وقوع پذیر ہوا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
بڑھتے ہوئے عالمی دباو کے بعد سویڈن کی حکومت نے اس واقعے سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے اسے ایک شخص کا انفرادی فعل قرار دے دیا ہے، مگر تاحال اس واقعے کے مرتکب کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
جب سے یہ واقعہ ہوا ہے، اُس وقت سے میں مسلسل یہ سوچ رہا ہوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اہلِ مغرب کی جانب سے اس قسم کے واقعات گاہے بہ گاہے رونما ہوتے رہتے ہیں، جو مسلمانوں کے مذہبی جماعت مجروح کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ کبھی پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی شانِ اقدس میں گستاخی کرتے ہوئے ان کے خاکے یا کارٹون بنائے جاتے ہیں۔ کبھی ملعون سلمان رشدی اور ملعونہ تسلیمہ نسرین سے گستاخی بھری کتابیں لکھوائی جاتی ہیں اور کبھی قرآنِ مجید کو نذرِ آتش کرکے مسلمانوں کی غیرتِ دینی کو للکارا جاتا ہے۔
آج تک عیسائیوں نے یہودیوں کی مذہبی کتاب کو کبھی نقصان پہنچایا ہے، نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کی ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتاب گیتا کو کبھی اہلِ مغرب نے نقصان نہیں پہنچایا۔ انھیں ہندوؤں کے بے شمار دیوی دیوتاؤں سے بھی کبھی مسئلہ نہیں ہوا۔ دنیا میں کتنے ہی مذاہب ہیں، لیکن عیسائیوں یا مغرب کو صرف مسلمانوں اور اسلام ہی سے دشمنی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ کہیں یورپ اپنی ثقافتی اور معاشرتی یلغار کے نتائج تو نہیں دیکھنا چاہتا، جو اس نے نازیبا و اخلاق باختہ ویڈیوز کے ذریعے ہمارے کچے ذہن کے نابالغوں اور نوجوانوں پر کی ہے۔ اس کے علاوہ مادر پدر آزاد اپنی معاشرتی اقدار کو این جی اُوز کے ذریعے پھیلا کر یورپ ہمارا امتحان تو نہیں لے رہا کہ ہمیں مذہب سے کس حد تک دور لے جانے میں کامیاب رہا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ دیکھنا چاہتا ہو کہ پوری مسلم دنیا میں ایسے واقعات کا کیا ردِعمل آتا ہے۔ کون کون سے ممالک نے شدید ردِعمل دیا ہے۔ کون سے ممالک سے کم زور ردِعمل آیا ہے۔ اس کے بعد وہ طے کرتے ہوں گے کہ مسلمانوں کے ایمان کو کم زور کرنے کے لیے کون سے ملک میں کتنا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کس ملک میں این جی اُوز کے ذریعے کون سا ایجنڈا مکمل کرنا ہے۔ کون سے ملک کو تعلیمی میدان میں امداد دے کر اس ملک کے درسی نصاب میں مرضی کی تبدیلیاں کروانی ہیں۔ اس سے ان کے سابقہ مکمل کیے گئے یا زیرِ تکمیل منصوبوں کا فالو اَپ بھی مل جاتا ہو گا۔
یہ سب سوچتے ہوئے میں ہمارے (من حیث القوم) اَعمال پر نظر ڈالتا ہوں، تو مجھے شبہ ہونے لگتا ہے کہ قرآنِ پاک جلانے کے اس واقعے میں ہم سب بالواسطہ ملوث ہیں۔ کسی جگہ مسلم حکم رانوں کی مجبوریاں وجہ بنی ہیں اور کہیں پر ان کی نالائقی اور عیاش فطرت اس کا موجب بنی ہے۔
ایک وہ زمانہ تھا کہ ایک مظلوم مسلمان عورت کی پکار پر محمد بن قاسم سمند کا سینہ چیر کر مدد کو آ گیا تھا۔ تب حکم رانوں میں غیرتِ ایمانی موجود تھی، تو خود آقا علیہ السلام نے سلطان نورالدین زنگی کے خواب میں تشریف لاکر روضۂ رسول تک سرنگ کے ذریعے رسائی اور آپ کے جسدِ مبارک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والوں سے آگاہی دے کر ان کی شکلیں بھی دکھا دی تھیں۔ اللہ تعالا نے بھی ان ایمان والوں کے مقدر میں فتح لکھ دی تھی۔
’’لَیسِ الاِنسانَ اِلَّا مَا سعیٰ۔‘‘ جب ہمارا ایمان کم زور ہوا، تو حکم ران ہی قوم کی بہو بیٹیوں کو غیروں کے ہاتھ فروخت کرنے لگے اور اس کا برملا اعتراف بھی کرنے لگے، تو عزت اور عظمت چِھن جانا اچنبھے کی بات نہیں۔
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر
اور ’’ہم‘‘ خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
امتِ مسلمہ میں کہیں حکم ران اور اشرافیہ ہوسِ اقتدار میں محلاتی سازشوں میں مصروف ہیں، تو کہیں ملکی خزانے پر نقب لگا رہے ہیں۔ کہیں حکم ران نفسانی اور شہوانی خواہشات کے غلام بن کر اہلِ مغرب کے سامنے سرنگوں ہیں، تو کہیں ذاتی مفادات کو مقدم رکھ کر قوم و ملک کی نیا ڈبو رہے ہیں۔ قرآن اور قرآنی تعلیمات کو طاقِ نسیاں پر رکھ دیا گیا ہے۔
حکم رانوں پر ہی کیوں جائیے۔ عوام کا بھی یہی حال ہے۔ کتنے سالوں سے گھروں میں قرآنِ پاک غلاف میں لپٹے پڑے ہیں۔ تلاوت تو دور کی بات ہے۔ کبھی غلاف سے گرد جھاڑنے کی توفیق بھی نہیں ہوئی، قرآنی تعلیمات پر عمل کیا خاک کریں گے جب تعلیم سے بے بہرہ ہوں گے! ہم مسلمان اس لیے ہیں کہ مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارے اعمال دیکھ کر یہود و نصارا و ہنود ہی نہیں شرما رہے بلکہ شیطان بھی انگشتِ بدنداں ہوگا۔
ہم وہ قوم ہیں جو نبی علیہ السلام کی حرمت اور قرآنِ پاک کی عظمت پر کٹ مرنے کو تو تیار رہتے ہیں، مگر نبی کی سنت اور قرآن کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے۔ ہماری زندگی پر اسلام کی چھاپ کیسے نظر آئے؟ یہی وہ نکتہ ہے جس نے ہمیں زمانے میں رسوا کر رکھا ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے 7 جولائی (آج) کو یومِ تقدسِ قرآن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس دن سویڈن واقعے کے خلاف ملک گیر احتجاج ہو گا، ریلیاں نکالی جائیں گی اور پوری قوم ایک زبان ہو کر شیطانی ذہنوں کو یہ پیغام دے گی کہ قرآنِ مجید کے وارث ابھی زندہ ہیں۔
یاد رکھیے! احتجاج کم زور لوگ کرتے ہیں۔ طاقت ور احتجاج نہیں کرتے، وہ تو ظالم کا بازو مروڑتے ہیں۔ بلاشبہ اس وقت ہم کم زور ہیں۔ احتجاج کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن موجود نہیں، لیکن یہ واقعہ ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔ ہمیں اگر طاقت ور اور معزز بننا ہے، تو قرآن و سنت کو تھامنا ہوگا۔ قرآنی تعلیمات پر عمل اور سنت کی پیروی کرنا ہوگی۔ فی الحال قرآنِ پاک کی بے حرمتی کرنے والوں سے انتقام قرآنِ پاک پر عمل کرکے لیا جاسکتا ہے۔ اپنے بے حس حکم رانوں سے اُمیدیں چھوڑیں اور قرآنِ پاک کو اپنی عملی زندگی میں نافذ کرکے ساری دنیا کوبتائیں کہ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
آئیں، آج یہ عہد کریں کہ قرآن کے مقصد کو سمجھیں گے۔ روزانہ اس کی تلاوت کریں گے اور بڑی بڑی قرآن محفلیں منعقد کر کے سویڈش حکومت کے منھ پر طمانچہ ماریں گے اور اسے یاد دلائیں گے کہ ہمارے اسلاف نے اس کتاب کو تھام کر سیکڑوں سال اس دنیا پر حکومت کی اور اب ہم وہ دور واپس لائیں گے، ان شاء اللہ!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔