قربانی کا جانور خریدتے وقت احتیاط کیجیے

قربانی کرنا ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ہوگا جو صاحبِ استطاعت ہو اور قربانی نہ کرے۔ یہ اسلام کا ایسا رکن ہے جس کی ادائی مسلمان بڑے شوق اور مذہبی جذبے کے ساتھ کرتے ہیں۔ قربانی کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ جانور کا گوشت کھانا ہے۔ اگر ایسا ہوتا، تو قربانی کے دنوں میں انتہائی مہنگے جانور کوئی نہ خریدتا بلکہ عام دنوں میں نصف سے بھی کم قیمت میں وہی جانور خرید لیے جاتے۔ مقصد سنتِ ابراہیمی کی ادائی ہوتا ہے۔ جب فرض کی ادائی میں ذاتی شوق اور مذہبی جذبہ بھی شامل ہوجائے، تو ایک خوش گوار احساس اور پُرسکون کیفیت بندے پر طاری ہو جاتی ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
قربانی کے لیے بعض لوگ جانوروں کی پرورش کاروباری نقطۂ نظر سے بڑی احتیاط اور محبت سے کرتے ہیں۔ جانوروں کو وہ طاقت ور اور قیمتی خوراک کھلائی جاتی ہے، جو وہ خود بھی گھر میں نہیں کھاتے۔ وہ انھیں مکھن کے پیڑے، پھل، چنے اور دوسری طاقت ور غذائیں کھلاتے ہیں۔ جب عیدالاضحی سے چند دن پہلے اُن جانوروں کو فروخت کے لیے منڈی میں لایا جاتا ہے، تو خوب محنت سے پالے ہوئے اُن جانوروں کے جسموں کی چمک (Glow) دیکھنے والوں کی فوری توجہ حاصل کرلیتی ہے۔
منڈی میں آپ کو ایسے بکرے بھی مل جاتے ہیں، جن کا وزن ڈیڑھ سے دو من تک ہوتا ہے۔ مال دار حضرات ایسے جانوروں کی خریداری میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر ڈیڑھ من گوشت کی قیمت کا حساب لگایا جائے، تو ایک لاکھ روپے کے لگ بھگ قیمت بنتی ہے مگر ایسا جانور بخوشی چھے سات لاکھ روپے میں خرید لیا جاتا ہے۔ اسی طرح خصوصی طور پر پالا گیا 7، 8 من وزنی بیل 40 سے 50 لاکھ روپے میں بھی خرید لیا جاتا ہے۔
سبھی لوگ قیمتی جانور خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ نہ تمام جانور اتنے قیمتی ہی ہوتے ہیں۔ شدید مہنگائی کے اس دور میں محدود آمدنی رکھنے والے خصوصاً ملازمت پیشہ حضرات کی خواہش ہوتی ہے کہ انھیں قربانی کے لیے سستا جانور مل جائے۔ اکثر لوگ کئی کئی دن مویشی منڈی کے چکر لگاتے ہیں، تاکہ انھیں مناسب قیمت پر معقول سا جانور مل جائے۔
قربانی ایک مقدس مذہبی فریضہ ہے۔ اس میں فرض کی ادائی کے لیے عقیدت کے جذبات بھی شامل ہوتے ہیں۔ مویشی فروخت کرنے والے بعض ہوشیار بیوپاری جن کا دین ایمان ہی پیسا ہوتا ہے، لوگوں کی اِس عقیدت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ کم عمر بکروں یا چھتروں کو قربانی کا اہل ثابت کرنے کے لیے مصنوعی دانت لگوا لیتے ہیں۔ جانور کی خوب صورتی کے لیے اور دام بڑھانے کی خاطر انھیں مصنوعی سینگ لگوا دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ جانوروں پر پینٹ تک کروا دیتے ہیں۔ مذہبی معاملات میں ہمارے ہاں دھوکا دہی بہت بڑھ گئی ہے۔ شاید اسی لیے معاشرے سے سکون اور اطمینان اُٹھ چکا ہے۔ بہرحال اناڑی خریدار جو سستا جانور خریدنے کی وجہ سے کسی سمجھ دار انسان کو شرمندگی سے بچنے کے لیے ساتھ نہیں لیتے، اُن ہوشیار بیوپاریوں کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔ جب گھر جاتے ہیں، تو جانور کی اصلیت سامنے آتی ہے۔ جانور واپس کرنے کے لیے مویشی منڈی کا رُخ کرتے ہیں مگر بنجارے لاد چکے ہوتے ہیں۔
گذشتہ دو تین سال سے جانوروں کی فروخت میں دھوکا دہی کا ایک نیا طریقہ عام ہوچکا ہے۔ فیس بک پر گروپ بنا کر اس میں اچھے خاصے پلے ہوئے جانوروں کی تصاویر اور ویڈیوز اَپ لوڈ کی جاتی ہیں، جو سیکڑوں کی تعداد میں کسی بہت بڑے باڑے یا فارم ہاؤس میں پھر رہے ہوتے ہیں۔ ان جانوروں کی قیمت انتہائی کم بتائی جاتی ہے، بلکہ یہاں تک آفر دی جاتی ہے کہ آٹھ سو روپے کلو کے حساب سے اپنی مرضی کا زندہ جانور تول کر لے جائیں۔ یہ تصویریں اور ویڈیوز دیکھ کر کئی لوگ لالچ میں آ جاتے ہیں…… بلکہ اگر انھوں نے ایک جانور خریدنا ہو، تو تین چار جانور خریدنے کا پلان بنا لیتے ہیں۔ ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ایک بکرے کی قربانی دی جائے گی۔ باقی دو تین جانور فروخت کر کے اپنی قربانی کی رقم کھری کرلی جائے گی۔ لالچ بری بلا ہے۔ یہ بات زندگی میں ہر موقعے پر درست ثابت ہوتی ہے۔ خریدار بتائے ہوئے مقام پر پہنچتا ہے۔ دیے گئے نمبر پر فون کر کے فارم ہاؤس یا باڑے کا پتا پوچھتا ہے، تو اسے انتظار کرنے کو کہا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد موٹر سائیکل پر دو لوگ آ کر اُسے درمیان میں بٹھا کر لے جاتے ہیں یا کوئی کار آ کر اسے لے جاتی ہے اور پھر گھر والوں کو فون آتا ہے کہ آپ کا بندہ اِغوا ہو چکا ہے۔ اتنی رقم لے کر آ جائیں اور بندہ لے جائیں۔ اگر رقم پہنچانے میں دیر ہو جائے، تو مغوی پر شدید تشدد کی ویڈیو ارسال کر دی جاتی ہے۔
عیدِ قربان میں چند دن رہ گئے ہیں۔ قربانی کا جانور خریدتے وقت مکمل احتیاط کیجیے۔ جانور خریدتے وقت کسی ایسے آدمی کو ساتھ رکھیے جسے جانوروں کی سمجھ ہو، اور ہاں…… جانوروں کی آن لائن خریداری سے مکمل پرہیز کیجیے!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے