ملاوٹ، دھوکا دہی اور ناپ تول میں کمی جیسی برائیاں اور قباحتیں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم ’’قومِ مدین ‘‘ میں پائی جاتی تھیں۔ انھی بری عادتوں کے باعث ان پر اللہ تعالا کا عذاب نازل ہوا اور پوری قوم تباہ و برباد ہو گئی۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
اس واقعے میں امتِ محمدیہ کے لیے ملاوٹ مافیا اور ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے عبرت ناک انجام کا عندیہ ہے۔ آج شریعت میں ممانعت اور سخت عذاب کی وعید اور ملک میں قانون موجود ہونے کے باوجود جابجا ملاوٹ مافیا اور کم تولنے والوں کی بھرمار ہے۔ بحیثیتِ مسلمان ہمیں اچھے اعمال و افعال اور نیک نامی میں آگے ہونا چاہیے، مگر اس کے برعکس ہمارے معاشرے کا ایک خاص طبقہ بد دیانتی اور لوٹ مار میں آگے نظر آتا ہے۔ نا جائز منافع خوری، ناپ تول میں کمی، اشیائے خور و نوش میں ملاوٹ اور مہنگائی ہمارا وطیرہ بن چکا ہے۔ اشیائے خور و نوش میں سب سے سستا نمک ہے، مگر صد افسوس کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پیک شدہ نمک کی فروخت بڑھانے کے لیے عام خوردنی نمک میں بھی پتھر کی ملاوٹ کی جارہی ہے۔ چنے کے چھلکوں سے چائے کی پتی اور پھر اس میں جانوروں کا خون اور مضر صحت رنگ، بیکریوں میں گندے انڈوں کا استعمال، آٹے میں میدے کی آمیزش، سرخ مرچوں میں چوکر، اینٹوں اور لکڑی کا بورا، کالی مرچوں میں پپیتے کے بیج کی ملاوٹ، معروف برانڈ کی کمپنیوں کے ڈبوں میں غیر معیاری اشیا کی پیکنگ جیسی دھوکا دہی ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ ملاوٹ مافیا کہیں خطرناک کیمیکل، سوڈیم کلورائیڈ، فارمالین، ڈٹرجنٹ اور پانی کی آمیزش سے دودھ تیار کرکے فروخت کررہا ہے، تو کہیں دودھ کی مقدار کو بڑھانے کے لیے اس میں پروٹین، چکنائی، کوکنگ آئل، یوریا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کو شامل کیاجارہا ہے ۔ اسی طرح ٹافیوں، پرفیوم، شیمپو، میک اَپ کے سامان میں مختلف بیماریوں کا باعث بننے والی اشیا کی ملاوٹ کی جا رہی ہے۔ کہیں گوشت کا وزن بڑھانے کے لیے ذبیحہ کی شہ رگ میں پانی کا پریشر استعمال کیا جارہا ہے، تو کہیں گدھے، گھوڑے، کتے اور مردار کا گوشت مدغم کرکے فروخت کیا جا رہا ہے۔ ایسا گوشت عام طور باربی کیو اور ہوٹلوں پر پر مرغن او مسالہ دار بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مرغیوں کی چربی سے بنے ناقص گھی اور تیل میں بیسن کی بوندیاں اور بچوں کے کھانے کی چیزیں تلی جارہی ہیں، جب کہ ہماری نہروں میں شہر بھر کے گٹروں کا پانی ڈالا جارہا ہے جو کہ بعد ازاں نہروں سے کھیتوں میں جاتا ہے اورپھر اسی گندے اور زہریلے پانی میں سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔
اشیائے خور و نوش کی اس گھمبیر صورتِ حال کے نتیجے میں بچوں کی نشو و نَما متاثر ہورہی ہے اور شہریوں بالخصوص بچوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ہر چوتھا پاکستانی منھ، جگرکے کینسر، ہیپاٹائٹس، گردوں کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر، جلدی امراض اور معدے کے عارضہ میں مبتلا ہے۔ ملک بھر میں سرکاری و نجی اسپتالوں پر مریضوں کا رَش دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ملک میں کوئی خطرناک وبا پھوٹ پڑی ہے۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں کوئی مریض نہ ہو۔ اُس پر ستم ظریفی یہ کہ مضرِ صحت اشیا کے ہاتھوں بیمار ہونے کے بعد خالص ادویہ تک دست یاب نہیں۔ کیوں کہ ادویہ میں بھی ملاوٹ کی بھرمار ہے۔ بہت سے تاجر اور دکان دار گاہک کو بظاہر پوری چیز دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں مقدار سے خاصی کم ہوتی ہے۔
آہ! کس کس چیز کا ذکر کیا جائے۔ غرض یہ کہ آج بہت سے انسان دونوں ہاتھوں سے ناجائز دولت سمیٹنے کے لیے ہر وہ قدم اُٹھا رہے ہیں،جس کی منزل دنیا میں حصولِ زر اور آخرت میں جہنم کے ایندھن کے علاوہ کچھ نہیں۔ انسان کی خودغرضی نے اُسے اس قدر حریص بنا دیا ہے کہ وہ انسانیت کی تمام حدیں پار کرنے اور دوسروں کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ حالاں کہ ہر صوبے میں’’کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ‘‘ موجود ہے۔ پنجاب میں بھی صارفین کے حقوق و مفادات کے تحفظ اور غیرمعیاری اور ناقص اشیائے خور و نوش، مصنوعات اور پبلک سروسز کے متعلق شکایات کے اِزالے کے لیے کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ 2005ء نافذالعمل ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کے باب 14 میں بھی اس حوالے سے قانون موجود ہے اور پیور فوڈ آرڈیننس 1960ء میں بھی سزائیں تجویز کی گئی ہیں، مگر طبیعت میں خباثت ہو، تو قانون کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے! مردہ ضمیر لوگ چند پیسوں کے لالچ میں انسانی زندگیوں سے کھیلتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ان کو خوفِ خداہے نہ فکر آخرت۔
کچھ عرصے سے پنجاب فوڈ اتھارٹی ملاوٹ مافیا کے خلاف اور اشیائے خور و نوش کا معیار بہتر بنانے کے لیے حرکت میں آئی ہے جو کہ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں چراغ کی مانند ہے۔ بلاشبہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے جرمانوں کے بعد بیکریوں اور ہوٹلوں میں صحت و صفائی کا معیار کسی حد تک بہتر ہوا ہے، لیکن ایسے غیر انسانی فعل پر ملاوٹ مافیا کو محض تھوڑا بہت جرمانہ یا عارضی طور پر ان کا کاروباربند کیا جاناکافی نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ انھیں عبرت ناک سزائیں دی جائیں اور اس سلسلے میں مزید سخت قانون بنا یاجائے، تاکہ انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے ان بے ضمیروں کا قلع قمع ہوسکے۔ اگر بددیانتی کی سزا، سزائے موت مقررکردی جائے اور ایسے غیر مذہبی اور غیر انسانی فعل پر محض چند افراد کو تختۂ دار پر لٹکادیا جائے، تو بگڑے معاشرے کی صورتِ حال ٹھیک ہوسکتی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔