ہمارے لیے بیرونِ ملک سفر خود ایک عجوبہ ہوتا ہے۔ اب تک جتنے بھی ایسے سفر کیے ہیں، اُن میں کسی کا بھی دورانیہ 40 دن سے زیادہ نہیں رہا ہے۔ زیادہ تر سفر ایک یا دو ہفتے کے ہوئے ہیں۔ جس ملک کا سفر کرتے ہیں، ہر بار کچھ نیا دیکھنے کو ملتا ہے۔ اب تک یورپ اور ایشیا کے سفر زیادہ کیے ہیں اور افریقہ کے صرف ایک ملک کا سفر ہوا ہے۔ شمالی امریکہ اب تک نہیں جاسکا کہ 2009ء سے گذشتہ مارچ تک 7 مرتبہ ویزہ درخواست مسترد ہوچکی ہے۔ باوجود اس کے کہ وہاں کے جامعات اور بڑے بڑے آرگنائزیشنوں کی جانب سے مدعو تھا۔ تاہم کہیں پہ لٹ بھی چکا ہوں اور اس میں اپنی غلطی یا نادانی زیادہ تھی کہ کسی نے آکر سلام کیا اور ایک دو اچھے بول اپنے ملک کے بارے میں کہے اور ہم اُس کے آگے ڈھیر ہوگئے اور اُس نے اپنا ہاتھ ہم پہ صاف کیا۔ محبت ویسے بھی خسارا ہی دیتی ہے، لہٰذا اسی محبت کا فائدہ اُٹھا کر ہماری جیب کاٹی گئی۔ ایسا تھائی لینڈ میں دو بار ہوا اور ایک بار جرمنی کے شہر برلن میں ہوا۔ ایسے چند ایک واقعات کے علاوہ عموماً یہ سفر خوش گوار ہی رہا۔ جہاں برطانیہ میں بڑے جامعات کی سیر کی، وہی پہ کینیا میں سفاری بھی کی۔ ایک مرتبہ انڈیا میں دھر لیا گیا اور پورے 30 گھنٹے خواری میں گزر گئے۔ کیوں کہ مَیں نے وہاں پولیس تھانے میں روزانہ کی بنیاد پر انٹری نہیں کی تھی اور صرف ایک بار کرکے مطمئن ہوچکا تھا۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/

دوسری بار جب انڈئین ہائی کمیشنر نے جواہر لال یونیورسٹی میں ایک کانفرنس کے لئے پاکستان سے ایک بڑے عالم کے ساتھ چن لیا اور صرف دو دنوں میں انڈیا کا مشکل اور بغیر پولیس انٹری والا ویزہ جاری کیا، تو یہاں کی اپنی ’’خفیہ قوتوں‘‘ کی وجہ سے جانا منسوخ کرنا پڑا کہ ہائی کمیشن کے گیٹ سے پاسپورٹ لیا، تو عام کپڑوں میں ملبوس کئی لوگ جھپٹ پڑے اور ایسے سوالات کیے کہ خود پر بس جاسوس ہونے کا گمان ہونے لگا۔ لہٰذا اُس سفر کو منسوخ ہی کرنا بہتر سمجھا۔ حالاں کہ اُس بار بھوپال میں اپنے چاچا کے ہاں جانے کا بھی چانس بنا تھا۔ اس طرح آسٹریلیا کا ویزا لگا، پر گھریلو مجبوری کی وجہ سے نہیں جاسکا۔
کویڈ 19 کے بعد جہاں بین الاقوامی سفر مشکل ہوا، وہاں پہ اس میں زیادہ تیزی بھی آگئی اور ساتھ سفر کی شرائط بھی بڑھ گئیں۔ ایک ایسا سفر کویڈ کے آخری دنوں میں سپین کا کیا اور شنجن ویزا ہونے کی وجہ سے آفتاب کے ساتھ مل کر یورپ گھومنے کا منصوبہ بنایا۔ پر کویڈ 19 کے دوسرے حملے نے صرف سپین کے ایک خوب صورت شہر تک محدود کیے رکھا۔
لوگ اکثر سمجھتے ہیں کہ ہم تو دنیا گھومے، پر اُن کو کیا معلوم کہ اپنی غربت کی وجہ سے جس شہر گئے، اُس سے آگے بیشتر صورتوں میں کبھی نہیں جاسکے۔ دل چاہتا تو بہت ہے کہ جہاں بھی جایا جائے، وہاں کا چپہ چپہ تلاشیں، پر جیب اس کی اجازت نہیں دیتی۔
ہمارے لیے وسطی ایشیا ہمیشہ سے ایک دل رُبا طلسم ہی رہا ہے۔ اس کی وجہ وہ کہانیاں ہیں جو اس خطے سے جڑی ہیں اور ہمارے ہندوکش اور قراقرم کے اس خطے کو ثقافتی طور پر بہت متاثر بھی کیا ہے۔ اگرچہ ہندوکش اور قراقرم کا خطہ زیادہ تر اپنے اندر ہندی اثرات رکھتا ہے، تاہم اس کے مغرب اور مشرق دونوں جانب ہائی ایشیا کی وجہ سے اور تاریخی روابط کی بدولت بہت سا اثر وسطی ایشیا کا اب بھی موجود ہے۔ پامیری ستار و رباب ہو کہ گلگت و ہنزہ میں معروف ممتو، سب پر وسطی ایشیائی اثرات گہرے ہیں۔
بھائی آفتاب احمد کی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ یورپ تا چین براستہ وسطی ایشیا سلک روڈ پر سفر کیا جائے۔ بھلا کسی مضافاتی پاکستانی کی ایسی خواہش بھی کبھی پوری ہوسکتی ہے؟ ممکن ہی نہیں۔ البتہ اِس بار اِسی راستے پر پڑے ایک چھوٹے سے ملک آذربائیجان کے مرکزی شہر اور دارالحکومت ’’باکو‘‘ کی سیر کا موقع ملا۔ یہ بھی اس لیے ممکن ہوا کہ آذربائیجان کا ویزہ پاکستانیوں کے لیے آسان ہوتا ہے۔
آذربائیجان، ایشیا اور یورپ دونوں کا ہے ۔ یہ مغرب بھی ہے اور مشرق بھی…… نہ صرف جغرافیائی لحاظ سے بلکہ ثقافتی و تہذیبی لحاظ سے بھی۔ جس دن باکو پہنچے، تو شام کا کھانا سمندر کنارے ایک ترکی ریستوران میں کھایا۔ یہ بہت شان دار کھانا تھا۔ اگلے چند دن باکو میں دست یاب آذربائیجانی، ترکی، پاکستانی، کیریبین اور چائنیز کھانوں کا مزا لیتے رہے۔ آذربائیجانی چائے تو ایسی بھا گئی کہ بہانے بنا بنا کر بس اسے ہی پیتے رہے۔ شام کوگلیوں میں نکلتے اور مٹر گشت کرتے رہے۔ نظامی سٹریٹ، اولڈ سٹی، خیابان شہدا پارک، فلیم ٹاؤر وغیرہ یہاں کے خاص مقامات ہیں۔
ایک شام گلیوں میں چلتے چلتے ایک بورڈ پر انگریزی میں "Museum of Literature” یعنی ’’ادب کا عجائب گھر‘‘ لکھا دیکھا، تو تجسس اور بڑھ گیا۔ ذہن میں بارام گور، بہرام شہزادہ، لیلیٰ مجنون اور کوہِ قاف سے جڑی کہانیاں انگڑائیاں لینے لگیں۔ ایک شام کو اولڈ سٹی سے نکل کر یہاں کا رُخ کیا، تو بند تھا۔ کھڑکیوں سے دیکھ کر نظامی سٹریٹ کی طرف چل دیے۔ جب اولڈ سٹی میں گھوم رہے تھے، تو ایک جگہ ملتانی کاروان سرائے لکھا دیکھا۔ سرائے تو مرمت کی وجہ سے بند تھی، لیکن یہاں جو لکھا تھا، اُس کے مطابق چودھویں صدی میں ملتان سے تاجربراستہ سلک روڈ آتے اور ان کے لیے یہاں ایک الگ سرائے بنائی گئی تھی، جس کا نام ’’ملتانی کاروان سرائے‘‘ رکھا گیا تھا۔
اگلے دن دوستوں سے بار بار اصرار کرکے اُسی ادب والے خزانے کی طرف چل نکلے، تاکہ اُس کو اندر سے دیکھا جائے۔ خزانہ اس لیے کہ یہ آذربائیجان کے بہت بڑے شاعر نظامی گنجوی، اصل نام جمال ادلدین ابو محمد الیاس ابن یوسف ابن زکی، کے نام سے موسوم ہے۔ گنج کا مطلب خزانہ ہے۔ یہاں ’’گانجا‘‘ نامی ایک تاریخی شہر بھی واقع ہے اور نظامی گنجوی اسی کے باشندے تھے ۔ وہ بارھویں صدی کے ایک جید شاعر، فلسفی اور ادیب تھے، جنھوں نے فارسی اور عربی زبانوں میں گِراں قدر ادب تخلیق کیا۔ اُن کو اب بھی فارسی ادب میں رومانوی مثنوی کا سب سے اعلا شاعر مانا جاتا ہے۔
جب ہم سات ساتھی اس عجائب خانے پہنچ گئے، تو دروازہ بند پایا۔ آگے بڑھ کر اُس کا کواڑ ہلایا، تو اندر سے کھل گیا۔ ہم داخل ہوئے، تو سب سے پہلے شہریت کا سوال پوچھا گیا۔ جب ہم نے پاکستان بتایا، تو کہا گیا کہ پاکستانیوں کے لیے اس عجائب گھر میں جانے کی کوئی فیس نہیں، جب کہ ترکیوں کے لیے یہ فیس 7 منات (آذربائیجانی کرنسی) ہے اور دیگر سارے ملکوں کے لیے 10 منات (تقریباً 6 امریکی ڈالر) ہے۔ ہمارے لیے یہ خوشی اور فخر کا مقام تھا کہ دوسرے ساتھیوں سے 7 یا 10 منات لیے گئے۔ پھر ہمارے جوتوں کے اوپر کپڑا پہنایا گیا، تاکہ موزیم کے اندر کوئی دھول نہ جائے۔ پہلے فلور پر پہنچ گئے، تو ایک خوب رُو خاتون نے انگریزی میں استقبال کیا۔ وہ ہماری گائیڈ تھیں۔ انھوں نے پہلا سوال یہی پوچھا کہ پاکستانیوں سے فیس کیوں وصول نہیں کی جاتی۔ مَیں نے جواب دیا کہ پاکستان آرمینیا کے خلاف جنگ میں آذربائیجان کی مدد کرتا ہے اس لیے……! وہ خاموش ہوئیں، مگر میری بات کو آگے بڑھا کر کہا کہ اس کی بنیادی وجہ جب سابق سوویت یونین سے ایک خون ریز جنگ کے بعد 18 اکتوبر کو آذربائیجان نے آزادی کا اعلان کیا، تو پاکستان نے سب سے پہلے اس کو ایک الگ ملک تسلیم کیا۔ ہمارے ساتھ موجود بعض ترکی دوست کہتے ہیں کہ ترکی نے سب سے پہلے تسلیم کیا، تاہم ہمیں گائیڈ نے یہی بتایا۔ پھر انھوں نے میوزیم کے مرکزی ہالوں کی سیرکرائی اور ساتھ ساتھ تبصرہ بھی کرتی رہیں۔ ہمیں لگا کہ ہم قرونِ وسطیٰ میں سفر کر رہے ہیں۔ کہیں کہیں پہ سوالات کیے، تو ہمارے ساتھ اُن دوسرے ممالک سے آئے ہوئے ساتھی حیران ہورہے تھے کہ ہم، اُن کی نظر میں، اتنا کیسے جانتے ہیں؟ وہ خاتون بھی خوش تھیں کہ اُن سے ایسے سوالات کیے جارہے ہیں۔ وہ ہمیں ایک قالین ’’فور سیزن کارپٹ‘‘ کے بارے میں بتاتی رہیں، جس میں چاروں موسموں کو دِکھایا گیا ہے اور ساتھ مذہبی و زرعی علامات سے بھی مزین ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس جیسا دوسرا کارپٹ تہران کے میزیم میں ہے۔ اس پر بڑے بڑے شعرا، علما اور فلسفیوں کی تصاویر بھی بُنی گئی ہیں ۔
بڑا ہال نظامی گنجوی کے نام ہے۔ آپ نے اگر لیلیٰ مجنوں، بہرام گور وغیرہ کی کہانیاں سنی ہیں، تو یہ نظامی وہی ہیں، جنھوں نے اُن کونئے انداز سے پیش کیا ہے، جو اُن سے پہلے کے شعرا سے بہتر اور آسان ہیں۔ اُن کی کتاب کو ’’خمسہ‘‘ کہا جاتا ہے، جس میں پانچ بڑی رومانوی نظمی کہانیاں شامل ہیں جن میں لیلیٰ مجنوں، بہرام گور، اسکندر نامہ، خسرو و شیریں اور ہفت پیکر شامل ہیں۔
اس میوزیم میں کئی واقعات کے ادبی و تاریخی حوالے بڑے اہم تھے۔ ہماری توجہ ایک اور ادبی شخصیت نے اپنی طرف حیرت کے ساتھ مبذول کیے رکھی۔ یہ ایک خاتون شاعر مہستی گنجوی تھیں جو گیارھویں اور بارھویں صدی کے اوائل میں رہتی تھیں۔ اُن کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ یہ گانجا شہر میں پیدا ہوئی تھیں اور رباعیات لکھتی تھیں۔ اُن کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ محمودِ غزنوی کے دربار میں بھی رہی تھیں۔ اگر ایسا ہے، تو لگتا ہے کہ یہ خاتون رباعیات کے معروف فلسفی شاعر اور ریاضی دان ’’عمر خیام‘‘ سے پہلے تھیں۔ اُن کے رباعیات رومانوی ہوتے تھے جب کہ عمر خیام کے فلسفیانہ۔ یہ بات ہمارے لیے اس لیے حیران کن تھی کہ گیارھویں صدی میں بھی کسی مسلم ملک میں خاتون شاعر ہوسکتی تھی۔
آذربائیجان میں لوگوں کی دوسری زبان روسی ہے۔ یہ لوگ ترکی زبان کو بھی سمجھتے ہیں کہ دونوں کے کئی الفاظ مشترک ہیں۔ فارسی اور عربی سے بھی کئی الفاظ اس زبان میں شامل ہیں۔ ہم کئی الفاظ بول کر اُن کو سمجھا سکتے تھے، تاہم جہاں اُردو میں جو لفظ فارسی یا ترکی سے جس مفہوم میں مستعار لیا گیا اور مستعمل ہے، وہ اُسی طرح آذربائیجانی زبان میں نہیں۔ آذربائیجانی زبان کو پہلے عربی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔ سوویت یونین کے بعد اس کو سیریلیکس رسم الخط میں تبدیل کیا گیا اور سوویت یونین سے آزادی کے بعد اب اس کو لاطینی رسم الخط میں لکھا جاتا ہے، جہاں ’’ج‘‘ کو "C” جب کہ ’’چ‘‘ کو C_ لکھا جاتا ہے۔ ترکی زبان میں جہاں ’’ک‘‘ بولا جاتا ہے، وہی پہ آذربائیجانی میں یہ ’’ق‘‘ بن جاتا ہے۔ بیشتر لوگ شکل و صورت سے ترکیوں کی طرح ہیں۔ ہمارے ہاں وخیوں میں ایسے کچھ نقش و نگار پائے جاتے ہیں۔
ارادہ ہے کہ دوسرا دورہ، ازبکستان اور گرغستان و تاجکستان کا کروں۔ کیوں کہ بخارا اور سمر قند کی حیثیت کئی عرب شہروں سے بڑھ کر رہی ہے۔ اسی طرح استنبول کی اپنی بڑی اہمیت ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔