4 اپریل 2003ء کو جب میں 60 سال کی عمر میں ملازمت سے سبک دوش ہوا، تو الوداعی پارٹی کے بعد ہیڈکلرک نے مجھے اپنے دفتر میں بلایا اور ایک ضخیم فائل مجھے دکھاتے ہوئے کہاکہ گھر جاتے وقت یہ ساتھ لے کے جانا۔ فائل کے اُوپر موٹے لفظوں میں لکھا ہوا تھا: ’’اینول کانفڈنشل رپورٹس‘‘ اور آگے میرا نام درج تھا۔ مَیں نے کہا: ’’یار! اس دفتر بے معنی کو میں لے کر کیا کروں گا؟‘‘
ہیڈکلرک نے کہا: ’’بھئ، ان کاغذ کے پلندوں کی اب کوئی ضرورت نہیں۔ چاہو تو کسی گٹر میں پھینک دینا یا تندور میں جلا دینا۔‘‘
فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
دراصل یہ فائل ان 33 سالوں کی داستان تھی جو مَیں نے ادغامِ ریاست کے بعد صوبائی حکومت کی خدمت میں گزارے تھے۔ یہ فائل اُن 33 سالانہ کارکردگی کی خفیہ روداد تھی،جو صرف نام کی حد تک خفیہ تھی۔ کیوں کہ یہ سب رپورٹیں مَیں نے خود لکھی تھیں۔ سوائے ایک رپورٹ کے…… جس کی تفصیل مَیں بعد میں بتاؤں گا۔ دراصل ہم جیسے تھرڈ کلاس ملازمین کی ’’اے سی آر‘‘ اتنی طویل ہوتی تھی کہ متعلقہ افسران اُس میں درج کوائف کے جوابات دینا گناہِ کبیرہ سمجھتے تھے۔ لہٰذا وہ اسی ماتحت سے فل سکیپ کے آٹھ صفحوں کی خانہ پری کرواتے۔ بس اپنے اور ایکسی این اور چیف وغیرہ کے لیے مخصوص کالم چھوڑ جاتے۔
بعض مہربان افسر تو اِس حد تک دریا دلی کا مظاہرہ کرتے کہ ’’یار! جتنی تعریف اپنی کرسکتے ہو، لکھو…… مَیں دستخط کروں گا۔‘‘ اس طرح یہ نام نہاد سالانہ خفیہ رپورٹ مرتب ہوتی تھی۔
افسروں کی سالانہ کارکردگی رپورٹ کے لیے مختص فارم بہت مختصر ہوتے ہیں،لیکن ہم گناہ گاروں کے لیے جو سوالات مطلوب تھے، اُن میں بعض کے مطالب خود افسروں کو بھی معلوم نہیں تھے۔ خدا اُن افسروں کی روحوں کو سکون دے دے جنھوں نے میرے حق میں اچھے کلمات لکھے۔ کئی ایک نے تو مجھے محکمہ کے لیے اثاثہ قرار دیا…… لیکن نہ اُن کے اچھے ریمارکس نے مجھے کوئی فائدہ پہنچایا، نہ اس واحد منفی رپورٹ (Negative Report) نے کوئی نقصان پہنچایا۔ بہ ہر کیف مَیں اس بھاری بھر کم فائل کو اُٹھا کر گھر لے آیا۔ چند دن آرام کے بعد میں گھر کے قریب قبرستان میں ایک خالی جگہ بیٹھ گیا اور ایک ایک کرکے وہ سارے کاغذات نذرِ آتش کردیے اور اُس خراب رپورٹ کو بھی جلا ڈالا، جو ایک برخود غلط ایس ڈی اُو نے لکھی تھی۔
اب تفصیل اس اجمال کی عرض ہے۔ موصوف جب ٹرانسفر ہوکر آئے، تو اُن کی کوئی رہایش کی جگہ نہیں تھی۔ ہمیں کالج کالونی سواڑئی میں ایک بڑا بنگلہ ملا تھا، جس میں ہم تین سب انجینئر رہتے تھے۔ نئے صاحب ظاہری شکل و صورت سے بہت مسکین سے لگ رہے تھے۔ساڑھے چھے فٹ سے نکلتا قد اور اتنی ہی چوڑائی پر مشتمل گوشت کا ایک پہاڑ تھے، جو بہت موٹی ٹانگوں پر یہ بوجھ اُٹھائے ہوئے تھے۔ ڈھیلے ڈھالے مٹیالے رنگ کے سوٹ پہنتے تھے۔ ٹائی ایک بار باندھتے، تو اسی پر گزارا کرتے۔ ذرا ڈھیلا کرکے دیوار میں لگے میخ سے لٹکا دیتے اور صبح اُتار کر گلے میں ڈالتے تھے۔ چین سموکر تھے۔’’مارون‘‘ ان کا واحد پسندیدہ برانڈ تھا۔ دانت اوپر نیچے سب مصنوعی تھے۔ آبنوسی رنگ کا بہت موٹا اور بڑا چہرہ…… ایک دن میرے ہاتھ میں ہیرالڈ روبنز کی کتاب ’’دی ایڈونچررز‘‘ دیکھی۔ لے کر اِک آدھ جگہ سے سونگھی اور پھر اپنے تکیے کے نیچے رکھتے ہوئے بولے: ’’مَیں اسے پڑھ کر واپس کردوں گا۔‘‘ مَیں نے سوچا کہ چلیں، یہ میرے ہم ذوق ہیں، ان کے ساتھ خوب گزرے گی۔ اُن دنوں سواڑئی میں بجلی نہیں آئی تھی، تو صاحب کے ذوق کی تسکین کے لیے ہم نے ان کی چارپائی کے دونوں طرف میز لگا کر دو لالٹین رکھ لیں، تاکہ دوسری طرف کروٹ لیں، تو لالٹین شفٹ کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔
مَیں نے اپنا بستر بھی ان کے ساتھ ہی لگوایا۔ وہ اتنے موٹے تھے کہ پہلو لے کے لیٹتے، توآدھا کمرہ گھیر لیتے۔ کمر کے بل لیٹتے، تو اُن کے پیٹ اور چھت کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رہ جاتا۔ مَیں اُن کے لیے قیمتی انگریزی کتابیں اپنی جیب سے خریدتا۔ اس طرح میرا بھی شوق پورا ہوتا۔ غرض ہم دونوں کی خوب گاڑھی چھنتی تھی۔ پھر اچانک ہم میں ایک بات پر اختلاف بڑھنے لگا۔ انھوں نے کرایہ پر کوارٹر لے لیا اور اُدھرشفٹ ہوگئے۔
جب سالانہ رپورٹ لکھنے کا وقت آیا، تو مَیں نے حسبِ سابق آٹھ صفحوں کا طویل سوال نامہ فِل کرکے اُن کی خدمت میں دستخط کے لیے پیش کیا۔ اُن پر ہنسی کا دورہ پڑا اور کھانسی کا بھی۔ جب مشکل سے سانس بحال ہوئی، تو فرمانے لگے: ’’یہ کیا طریقہ ہے جب تم اپنی سالانہ خفیہ رپورٹ خود لکھتے ہو، تو یہ ’’کانفیڈنشل‘‘ کیسے ہوگئی۔ مَیں خود تمھاری رپورٹ لکھوں گا…… اور خود ہی ایکسین کو دوں گا۔‘‘
مَیں نے وہ لکھے ہوئے فارمز پھاڑ دیے اور اُن کو دوسرا سٹ دے کر اپنے کوارٹر آگیا۔ کچھ دن بعد ایکسین کا فون آیا۔ کَہ رہے تھے کہ ’’تمھارے ایس ڈی اُو نے تمھارے بارے میں کیسی رپورٹ لکھی ہے! اس قدر منفی رپورٹ مَیں نے آج تک نہیں دیکھی۔ تم اُس کو قانونی طور پر چیلنج کرسکتے ہو۔ بد نیتی کی انتہا ہے کہ جہاں پر یہ سوال ہے کہ کیا وہ شراب پیتا ہے؟ وہاں اس نے لکھا ہے، ’مَیں وثوق سے کچھ نہیں کَہ سکتا۔‘ حالاں کہ سارے افسر اِس کا جواب نفی میں صاف طور پر "No” لکھ کر دیتے ہیں۔‘‘
مَیں نے عرض کیا کہ اس رپورٹ کو اسی شکل میں کاونٹرسائن کرکے بھیج دیں۔ آپ بھی مجھے جانتے ہیں اور چیف صاحب بھی۔ مَیں اس رپورٹ کو خود چیلنج کروں گا نہ آپ کو درخواست ہی کروں گا۔
آخری رپورٹ کو جلاتے ہوئے مَیں نے اُس صاحب کو بھی معاف کیا، جس نے اپنی دانست میں میرا کیریئر تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔