آج دراصل مجھے اچانک خیال آیا کہ اپنے لڑکپن کے ملبوسات کے بارے میں کچھ آپ حضرات کے گوش گزار کروں…… اور چند خوش لباس و خوش جمال شخصیات کی یادیں بھی تازہ کرتا چلوں۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
اُس دور میں اعلا طبقے کے لوگ عموماً ’’جاپان‘‘ سے آئے ہوئے کپڑے پسند کرتے تھے…… جن میں سب سے مشہور برانڈ ’’دو گھوڑا بوسکی‘‘ اور ’’سولہ ہزار لٹھا‘‘ تھے۔ دو گھوڑا بوسکی سیریز میں سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا رنگ ’’کریم کلر‘‘ تھا۔
ہمارے شگئ سکول اور ودودیہ میں جامہ زیب لڑکے دو تھے۔ ایک وزیرِ مال صاحب کے صاحب زادے شیرافگن خان اور دوسرے عبدالرازق خان کمان افسر کے بیٹے حیدر علی خان تھے۔
اُن دِنوں مغربی لباس کا استعمال صرف بڑے ریاستی افسروں تک محدود تھا۔ پھر اُن کے دیکھا دیکھی اور حکم ران کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے مینگورہ کے صاحبِ ثروت اور تجارت سے وابستہ افراد نے بھی مغربی لباس پہننا شروع کیا۔ اُن میں کامران سیٹھ سب سے نمایاں تھے۔
ریاستی افسروں میں سب سے بڑھ کر خوش لباس شخصیت وزیرِ مال شیر محمد خان کی تھی۔ وزیرِ مال صاحب سردیوں میں اکثر ’’ڈبل بریسٹ کوٹ‘‘ استعمال کرتے۔ نیز چترالی چغہ بھی پسند کرتے تھے۔
مینگورہ ہی کے امان اللہ خان (مرحوم) بھی خوش لباس انسان تھے۔
حکم رانِ سوات کی شدید خواہش تھی کہ سواتی لوگ مہذب اور روشن فکر صورت میں دنیا کے سامنے پیش ہوں۔ عام خوانین اور صاحبِ استطاعت لوگ بھی صاف ستھرے نظر آتے تھے۔ اُن حضرات میں منگلور کے ’’شام خان‘‘ پہناوے کے لحاظ سے منفرد ذوق کے حامل تھے۔ اُن کا مخصوص لباس وہی کریم کلر کا بوسکی اور سفید لٹھا ہی ہوتا تھا۔ پاؤں میں ہمیشہ زری کی پنج دار چپل (پنجہ دارہ سپلئی) ہوتی تھی۔ رقص و سرود کی محافل کے رسیا تھے۔
روایتی کلاہ لنگی کا استعمال مَیں نے بہت کم عمری میں دیکھا ہے۔ سرکاری ملازمین ابتدا میں مشہدی کلاہ لنگی سر پر باندھ کر دفتر جاتے۔ بعد میں جب قراقلی ٹوپی کا رواج چل پڑا اور والی صاحب کا بھی پسندیدہ ٹھہرا، تو عام لوگ بھی اسے استعمال کرنے لگے۔
والی صاحب نے ہمارے وقت کے سٹیٹ پی ڈبلیو ڈی کے عملہ کو ’’بیری کیپ‘‘ پہننے کی اجازت دی تھی۔ ریاست کے آخری سالوں میں کھلے سر دفتر آنے اور والی سوات سے ملنے کی اجازت عام ہوئی۔
اِس وقت مجھے ایک اور شخصیت یاد آرہی ہے، جس نے ہمیشہ روایتی پختون لباس اور جوتے پہن کر زندگی گزاری۔
مَیں نے جب بھی اُنھیں دیکھا کلاہ لنگی، شلوار قمیص اور روایتی ’’پنڑے‘‘ یعنی تِلّہ دار جوتے پہنے دیکھا اور مرتے دم تک انھوں نے یہی طریقہ برقرار رکھا۔ یہ تھے کوٹہ موسی خیل کے ایک بڑے خان ’’بہروز خان‘‘۔
خدا بخشے بہروز خان بڑے وضع دار انسان اور قبائلی روایات کے رکھوالے تھے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔