پاکستان میں 9 مئی کو جو کچھ بھی ہوا، بلاشُبہ وہ ملکی تاریخ میں سیاہ ترین باب ہے، لیکن اُن دنوں پی ڈی ایم نے جس طرح سپریم کورٹ پر چڑھائی کی، تو اُس نے بھی ہر ذی شعور انسان کو ہلا کر رکھا دیا۔ پی ڈی ایم میں شامل تمام سیاسی پارٹیاں مع لاو لشکر ججوں کو سبق سکھانے اسلام پہنچ گئے۔ ویسے تو ریڈ زون میں عام حالات میں داخلہ ممنوع ہے، لیکن اُن کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ اپنی ہی حکومت کے نفاذ کردہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی اور آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت بلائی گئی فوج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ڈنڈوں سمیت سپریم کورٹ کی دیواریں پھلانگ گئے اور حکومت نے خود ہی سپریم کورٹ کے ساتھ جنگ شروع کی۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
9 مئی کے بارے میں تحریکِ انصاف کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ پی ڈی ایم کی سوچی سمجھی سازش سے ہوا، مگر حکم ران اپنی غفلت کو چھپانے کے لیے سارا ملبہ تحریکِ انصاف اور اُس کے چیئرمین عمران خان کے سر ڈال رہی ہے۔ ایک اور بدقسمتی یہ ہے کہ ریاستی ادارے بھی حکم رانوں کے شرکت دار بن گئے ہیں۔ بغیر کسی تحقیق اور تفتیش کے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کیا۔ گرفتاریوں کے ڈر، غداری کے الزامات اور ممکنہ سزا سے بچنے کے لیے تحریکِ انصاف کے بعض مفاد پرست رہنما پریس کانفرنسیں کرنے لگے، جس کی وجہ سے مفاداتی سیاست بامِ عروج پر پہنچ گئی۔ اس طرزِ سیاست میں پارٹی چھوڑنے، سیاست کو خیرباد کہنے کے جھوٹے کردار بے نقاب ہوگئے۔ پُرفریب وفاؤں کا بھانڈا پھوٹ گیا ہے۔ دھوکے اور دغا کی وضاحت ہوگئی۔ کھوٹے کھرے کی پہچان ہوگئی۔ سازشی عناصر طشت از بام ہوگئے۔ کیوں کہ ظالم اور جابر حکم ران کے سامنے وہ لوگ کھڑے ہوسکتے ہیں، جو مخلص اور بہادر ہوں۔
حکومت کا مخالفین کو غداری کے تمغوں سے نوازنا اور سزائیں دینا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے فاطمہ جناح کو غدار قراد دیا۔
عبدالغفار خان کو غدار قرار دے کر انھیں کئی سالوں تک جیل میں پابندِ سلاسل رکھا گیا۔
خان عبدالولی خان پر ذوالفقار علی بھٹو نے حیدر آباد ٹریبونل میں غداری کا مقدمہ چلایا۔
اس طرح جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی چڑھایا۔
مذکورہ بالا تو پھر بھی قد کاٹھ والے لیڈر تھے، لیکن جنرل ضیاء الحق نے عام لوگوں کو بھی نہیں بخشا۔ جنرل ضیا کے دورِ حکومت میں کشور ناہید نے لاہور میں انقلابی شاعر فیض احمد فیضؔ کی سال گرہ کا اہتمام کیا، جس میں اُس وقت کے معروف شاعر، ادیب، فلمی اور ٹی وی اداکار شریک ہوئے۔ تقریب میں باغیانہ نظمیں پڑھی گئیں۔ آزادیِ اظہارِ رائے پر قدغن کے خلاف تقریریں کی گئیں۔ اگلے دن تقریب میں شرکت کرنے والے زیرِ عتاب آگئے اور حکومت نے تقریب میں شرکت کرنے والے حمید اختر، ملک معراج محمد خان، شعیب ہاشمی، اعتزاز احسن اور اداکار محمد علی کو گرفتار کیا، جب کہ معروف انقلابی شاعر حبیب جالبؔ کی جگہ غلطی سے اداکار حبیب کو گرفتار کیا گیا۔ حکومتِ وقت نے دعوا کیا کہ غدارانِ وطن کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ اداکار چوں کہ نازک مزاج ہوتے ہیں اور سختیاں برداشت نہیں کرسکتے، تو جب محمد علی کو لاہور سے میاں والی جیل منتقل کیا گیا، تو وہاں اُن کے جسم پر گرمی دانے نکل آئے۔ وہ گرمی دانوں کے سامنے بے بس ہوگئے اور معافی نامہ لکھ دیا۔ معافی کے بعد دوسرے دن ضیاء الحق کی بیٹی زین کے ساتھ اخبارات میں اُن کے فوٹو شائع ہونے پر حکومت کی طرف سے مخالفیں کو غدار قرار دینے کے دعوے مذاق بن گئے۔
پاکستان میں سیاست گرچہ مفادات کا کھیل بن چکی ہے۔ پھر بھی تحریکِ انصاف میں ایسے عظیم لوگ موجود ہیں، جنھیں مفادات عزیز نہیں، اُنھیں سزائیں خوف زدہ نہ کرسکیں اور مظالم اُن کے حوصلے پست نہ کرسکے۔
ایک طرف کچھ لوگ پریس کانفرنسیں کرکے تحریکِ انصاف چھوڑ رہے ہیں جب کہ بعض رہنما اور سیکڑوں ورکر ایسے ہیں جو جیل سے رہائی پانے کے بعد پہلی فرصت میں زمان پارک پہنچے۔ وہ بھی ایسے جن کے بڑے بڑے نام نہیں مگر کردار بڑے ہیں۔ اُن رہنماؤں اور ورکروں میں محمد علی، شہریار آفریدی، جنید اکبر، شکیل احمد ایڈوکیٹ، عمر سرفراز چیمہ، محمد اعجاز چوہدری، عالیہ حمزہ، حسین جہانیاں گردیزی، سلیم سرور جوڑا، علی امین گنڈاپور، مراد سعید، عظم سواتی، مخدوم شاہ محمود قریشی، حماد اظہر، پیر نور الحق قادری، عثمان ڈار، میاں اسلم اقبال، عمر ایوب، قاسم سوری، ڈاکٹر افتخار درانی، صداقت عباسی، احتشام خان، فرخ حبیب، علی نواز اعوان اور اُن جیسے دیگر ورکر شامل ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 9 مئی کو جو کچھ ہو اغلط ہوا، لیکن پاکستان میں سیاسی اور معاشی عدمِ استحکام کے خاتمے کی خاطر پی ڈی ایم، تحریکِ انصاف کے ساتھ بیٹھ کرمذاکرات کا یہ تلخ گھونٹ پی لے، تو بہت اچھی بات ہوگی۔ پی ڈی ایم حکومت، بلوچ عسکریت اور شدت پسند بلوچ گلزار امام شنبے جو کہ ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک ریاستی مفادات کے خلاف لڑتے اور غیر ملکی ایجنٹ کا کردار ادار کرتے رہے، کو معافی دے سکتی ہے، توڑ پھوڑ کرنے والے تو پھر بھی ہمارے اپنے ہیں۔ جذبات میں آکر اگر اُنھوں نے کوئی غلط قدم اُٹھایا، تو حکومت کو اُنھیں معاف کردینا چاہیے۔ معاف کرنا حکومت کی شکست نہیں بلکہ بڑا فن اور کامیابی ہوگی۔ میرے خیال میں پی ڈی ایم حکومت معافی کے موڈ میں نظر نہیں آرہی۔ کیوں کہ حکومت نے صاف پیغام دے رکھا ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں، اُنھیں سزائیں دی جاتی ہیں۔
جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ’’خواہشیں بادشاہوں کو غلام بنا دیتی ہے اور صبر غلاموں کو بادشاہ بنا دیتا ہے۔‘‘
اب
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔