سیاسی پنچھی نئی ڈالیوں پر

دو دن قبل تک اُڑان بھرنے والے سیاسی پنچھیوں کی سنچری مکمل ہوچکی تھی۔ یہ سلسلہ رُکتا نظر نہیں آ رہا۔ سکور ڈبل سنچری کی طرف گام زن ہے۔ چھوٹے بڑے پنچھی (ایم این ایز اور ایم پی ایز) ٹرپل سنچری بھی یقینا کرجائیں گے کہ ہمارے ہاں سیاست کا یہی دستور اور یہی چلن ہے۔ یہاں چڑھتے سورج کی پوجا کی جاتی ہے۔ زیادہ تر سیاسی پنچھی موسمی ہوتے ہیں۔ یہ "Seasoned” بھی ہوتے ہیں اور "Seasonal” بھی۔ سورج طلوع ہوتے ہی ’’دانہ دنکا‘‘ چُگنے کے لیے گھونسلوں سے نکل پڑتے ہیں۔ سارا دن نئی دنیاؤں کو مسخر اور نئے جہانوں کی سیر کرتے ہیں۔ جہاں بھی رزق مل جائے، اُس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ رزق بہت وافر مقدار میں ہو، تو مل بانٹ کر کھالیتے ہیں۔ کم مقدار میں ہو، تو چھینا جھپٹی کرکے حاصل کرلیتے ہیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
سیاست میں بھی زندہ رہنے کے لیے وافر مقدار میں رزق کی ضرورت ہوتی ہے کہ اگلی ٹرم میں اس میں سے کچھ حصہ کینچوے کی صورت میں کانٹے پر لگانا پڑتا ہے، تاکہ بڑی مچھلی کا شکار کیا جاسکے۔ یہ سیاسی پنچھی مغرب کا انتظار نہیں کرتے۔ عصر تک جو ’’چوگا‘‘ چُگ سکتے ہیں، وہ چُگتے ہیں اور پھر اپنے ’’آشیانے‘‘ کی طرف اُڑان بھرنے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ انھیں بہرصورت شام سے پہلے اپنے ’’آشیانے‘‘ میں پہنچنا ہوتا ہے۔ رات کا انتظار نہیں کیا جاتا کہ اندھیرا ہونے کی صورت میں راستے سے بھٹکنے کا اندیشہ ہوتا ہے جو کسی حادثے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
یہ پنچھی سیاسی موسم کو خوب پہچانتے ہیں۔ اکثر نے تو گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوتا ہے اور ڈال ڈال سے پھل کھایا ہوتا ہے۔ انھیں ہواؤں کے رُخ سے خوب آشنائی ہوتی ہے۔ یہ تب تک ہی ہرے بھرے درخت کی سجاوٹ رہتے ہیں، جب تک اس پر پھل رہتا ہے۔ یہ بہاروں کے ساتھی ہوتے ہیں۔ جوں ہی خزاں کا موسم آتا دیکھتے ہیں، تو یہ لمبی اُڑان بھرنے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ بے برگ و بار شجر سے وفا نبھانے کا مطلب بھوکوں مرنا، شدید آندھی، طوفانی بارش، اولوں اور چلچلاتی دھوپ میں بے یار و مددگار ہونا ہے۔ ایسی وفا نبھانا موسمی پرندوں کے بس میں کہاں!شجر سے پیوستہ رہ کر بہار کی امید رکھنا بے صبرے پنچھیوں کے نزدیک حماقت ہوتی ہے۔ بہار آئے گی، تو پھر اِدھر کا رُخ کرلیں گے۔
عمران خان کا مزاج ہمارے ہاں کی سیاست سے لگا نہیں کھاتا۔ سیاست بہت صبر طلب کام ہے۔ جلد بازی اس میں نقصان دہ ہوتی ہے۔ عمران خان کا مزاج اس کی ضد ہے۔ وہ مزاجاً جلد باز بھی ہیں اور بے صبرے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے بہت سے غیر روایتی فیصلے کر ڈالے۔ اُن کا مزاج جمہوریت پسند نہیں بلکہ شاہانہ ہے۔ وہ اپنے مزاج کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے۔ نتیجے کے طور پر اپنے قابل اور مخلص دوستوں سے محروم ہوکر جی حضوری کرنے اور کورنش بجا لانے والوں کے نرغے میں آ گئے، جن کا کام بہتر مشورے دینا نہیں بلکہ ہاں میں ہاں ملانا تھا۔ ان بے وفاؤں پر اعتماد اور ان کی وفاداری پر اعتبار کرکے عمران خان نے اپنی کشتی جسے وہ ٹائی ٹینک سمجھ بیٹھے تھے، سمندر میں اُتار دی۔ اُنھیں کیا معلوم تھا کہ اس کشتی میں تو سوراخ ہی سوراخ ہیں۔ اچھا کپتان اپنی کشتی کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ موسم آشنا بھی ہوتا ہے۔ وہ آنے والے طوفان کا اندازہ لگا کر سفر کو دوسرے کسی وقت کے لیے ملتوی کر دیتا ہے۔ عمران خان اچھے کپتان ثابت نہیں ہوئے۔ اُن کے ہم سفر تیزی سے چھلانگیں مار کر انھیں خیرباد کَہ رہے ہیں۔ وہ خود حسرت و یاس کی تصویر بنے اپنی کشتی کو ڈوبتا دیکھ کر یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ انھیں اس سفر پر روانہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اُڑنے والے سیاسی پرندے جہانگیر ترین، آصف علی زرداری اور چوہدری شجاعت حسین کی ڈالیوں کا رُخ کر رہے ہیں۔ ن لیگ نے فی الحال خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ جہانگیر ترین، علیم خان اور اُن کے دوستوں نے پی ٹی آئی کا الگ گروپ بنانے کی بجائے نئی سیاسی پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا اعلان آج کل میں ہو جائے گا۔
اِس میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی پنجاب میں جہانگیر ترین خان ایک قدآور سیاسی شخصیت ہیں، مگر سنٹرل پنجاب اور بالائی پنجاب میں اُن کا کوئی اثر نہیں۔ وہ یا علیم خان اس پوزیشن میں نہیں کہ اُن کے نام پر لوگ پارٹی امیدواروں کو ووٹ دیں گے۔ جہاں تک ق لیگ کا تعلق ہے، تو منڈی بہاؤالدین اور گجرات سے باہر وہ بھی الیکٹ ایبلز کی محتاج ہے۔ پیپلز پارٹی ایک بڑی اور ملک گیر جماعت ہے، مگر اُسے جنوبی پنجاب سے آگے شاید نہ بڑھنے دیا جائے۔ اگر سنٹرل پنجاب میں زرداری صاحب نے ایڈونچر کرنا چاہا، تو سندھ میں انھیں دشواری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ن لیگ کے پاس پہلے ہی بہت کم گنجایش ہے۔ سنٹرل پنجاب پر اس کا ہولڈ ہے۔ جنوبی پنجاب میں وہ چند لوگوں کو اکاموڈیٹ کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں پی ٹی آئی سے پرواز کرنے والے صرف مضبوط پروں والے پنچھی ہی اپنی پرواز جاری رکھ سکیں گے۔ کم زور پروں والے پنچھیوں کو کمپرومائز کرنا پڑے گا۔ کچھ کو لوکل گورنمنٹ میں کھپانے کے وعدے کیے جائیں گے، تو کچھ کو مختلف اداروں میں ایڈمنسٹریٹرشپ دے کر بہلایا جائے گا۔ البتہ الیکٹ ایبلز اپنا پارلیمانی سفر جاری رکھیں گے۔
گذشتہ روز عمران خان کو چھوڑ جانے والے اسد عمر نے بڑا دلچسپ بیان دیا کہ لوگوں کے پارٹی چھوڑنے سے کچھ فرق نہیں پڑے گا، کیوں کہ ووٹ عمران خان کا ہے اور ووٹر اُس کے ساتھ کھڑا ہے۔ اگر 2018ء کی صورتِ حال کو ذہن میں رکھ لیتے، تو اسد عمر شاید یہ بیان نہ دیتے۔ تب بہت سے الیکٹ ایبلز عمران خان کو دیے گئے تھے جن کا اپنا بہت بڑا ذاتی ووٹ بنک تھا۔ بہت سے آزاد حیثیت میں جیتنے والے منتخب نمائندے عمران خان کے ساتھ شامل کروائے گئے تھے، جو پی ٹی آئی مخالف ووٹ لے کر جیتے تھے۔ وہ لوگ جاتے جاتے اپنا ووٹ بنک بھی ساتھ لے گئے ہیں اور اُسی ووٹ بنک کے سہارے وہ اگلا الیکشن لڑیں گے۔
خیبر پختونخوا میں پرویز خٹک، اسد قیصر اور شاہ فرمان پی ٹی آئی کو اُٹھنے نہیں دیں گے۔ وہ پارٹی چھوڑنے والے پنچھیوں کو ’’اڈاپٹ‘‘ (Adopt) کر کے پارٹی پر قبضہ کرلیں گے، یا پھر نئے نام سے سامنے آ جائیں گے۔
سندھ میں پی ٹی آئی پہلے ہی بہت کم زور ہے جب کہ بلوچستان کی صورتِ حال ہمیشہ ہی الگ رہی ہے۔ وہاں مقامی گروپ زیادہ موثر رہتے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے