پرانے آثار اور ورثہ جات کسی قوم کے پاس قدرت کی طرف سے امانت ہوتے ہیں۔ مہذب اور باشعور اقوام اپنے قومی ورثے اور تاریخی آثار کی حتی المقدور حفاظت کرتی ہیں۔ کیوں کہ یہ ورثے آیندہ نسلوں کو شعور، تربیت اور ثقافتی ادراک بخشتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستانی قوم اپنے تاریخی اور قومی ورثے سے بے پروا چلی آرہی ہے۔جہاں بھی جس کا بس چلے…… قومی ورثہ جات کو مٹاتے ہیں۔ ہماری یہ تمہید باندھنے کامطلب اور مقصد پشاور کا تاریخی ریڈیو سٹیشن ہے، جو گذشتہ 9 مئی کو ایک بے قابو ہجوم کے ہاتھوں تباہی سے دوچار ہوا۔ لہٰذا ہم اپنے اس کالم میں پشاور کے ریڈیو سٹیشن کی تاریخی اہمیت اور انفرادیت سے متعلق کچھ بتانا چاہتے ہیں۔
ماسٹر عمر واحد کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/master-umar-wahid/
1930ء کی دہائی کے آغاز میں سابق صوبہ سرحد کے مشہور سیاسی رہنما خان عبدالقیوم خان گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے، تو انھوں نے پہلی بار وہاں ریڈیو دیکھا۔ وہ اس ایجاد کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ برطانیہ میں ریڈیو اس وقت تقریباً دس سال پہلے لوگوں کے استعمال میں تھا، جب کہ برصغیر میں ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔ خان عبدالقیوم خان نے ذاتی طور پر ریڈیو کے موجد مارکونی سے ملاقات کی اور اُن سے درخواست کی کہ وہ انھیں صوبہ سرحد کے لیے ریڈیو نشریات کی مشینری کا ایک ڈبا عنایت کریں۔
مارکونی نے وعدہ کیا کہ وہ ایک ریڈیو سٹیشن کی مشینری بہ طورِ تحفہ صوبہ خیبر پختونخوا کو بھجوائیں گے۔ انھوں نے نہ صرف اپنا وعدہ پورا کیا، بلکہ مشینری یا نشریاتی آلات کے پیچھے وہ صوبہ خیبر پختونخوا آگئے۔ اُن کی خواہش تھی کہ ریڈیو سٹیشن کے آلات اور مشینری وغیرہ اپنے ہاتھوں یا اپنی نگرانی میں نصب کرے۔ یوں یہ ریڈیو سٹیشن ایک طرح سے خود ریڈیو کے موجد نے اپنے ہاتھوں سے قائم کیا۔
اِس ریڈیو سٹیشن کا افتتاح اُس وقت کے صوبہ کے انگریز گورنر ’’ریلپ گریفتھ‘‘ نے کیا۔ صوبہ سرحد کے وزیرِ اعلا خان عبدالقیوم خان کی اُس وقت تک مارکونی کے ساتھ اچھی خاصی دوستی استوار ہوچکی تھی۔ مارکونی نے انھیں ریڈیو سٹیشن کے ٹرانس میٹر اور دیگر لوازمات کے علاوہ 30 ریڈیو سیٹ بھی بہ طورِ تحفہ دیے۔ یہ ریڈیو سیٹ اُس وقت کے پشتون سرداروں (خوانین) کے حجروں میں نصب کیے گئے۔ شام کے وقت علاقے کے معززین اور عوام اُن حجروں یا ڈیروں میں جمع ہوتے اور ریڈیو کی نشریات سے محظوظ ہوتے جن میں خبریں، گانے، موسیقی کے پروگرام اور دیگر چیزیں شامل تھیں۔
ریڈیو سٹیشن پشاور کے پہلے انچارج محمد اسلم خان خٹک تھے، جو ایک با اثر خاندان کے تعلیم یافتہ اور باذوق نوجوان تھے۔ ڈراما لکھنے اور ڈراموں میں کام کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔
پہلے ڈائریکٹر سجاد سرور نیازی تھے، جو بنیادی طور پر میوزک ڈائریکٹر تھے۔ بعد ازاں گلوکاری میں نام پیدا کرنے والی دو بہنیں ناہید نیازی اور نجمہ نیازی انھی کی صاحب زادیاں تھیں۔
اِس ریڈیو سٹیشن کی ابتدائی نشریات میں پہلا ڈراما انگریزی سے ترجمہ تھا جس کا اصل عنوان تھا ’’بلڈی کپ‘‘ اسے اسلم خٹک نے پشتو میں ترجمہ کیا تھا۔
16جولائی 1942ء کو اِس ریڈیو سٹیشن کو 10 کلو واٹ کے ٹرانس میٹر کے ساتھ نئی عمارت میں منتقل کیا گیا اور مارکونی کا نصب کردہ ٹرانس میٹر بھی اُسی عمارت میں منتقل کیا گیا۔ حالیہ بربادی کے دوران میں وہ ابھی تک کار آمد حالت میں موجود تھا، مگر افسوس کہ اب جلے ہوئے ملبے کی صورت میں پڑا ہے۔
بڑے بڑے نامی گرامی شاعر، ادیب، ڈراما نویس اور فنونِ لطیفہ کے دیگر اصناف سے تعلق رکھنے والے صاحبانِ فن ریڈیو پشاور سے وابستہ رہے۔ اُن میں سے چند کے نام یہ ہیں: کیفی دیو، احمد ندیم قاسمی، محسن احسان، خاطر غزنوی اور فارغ بخاری۔
اس کے علاوہ مجید مفتی نے 1940ء کی دہائی میں اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ بہ حیثیت پروڈیوسر ریڈیو پشاور سے وابستہ رہے۔ بعد میں سیکرٹری اطلاعات مقرر ہوئے۔ بعد کے ادوار میں بڑے بڑے شعرا، ادیب اور دانش ور اس ریڈیو سٹیشن سے منسلک رہے۔ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ اب وہ تاریخی، ثقافتی اور قومی ورثہ جل کر راکھ کا ڈھیر بن کر ہماری قومی بے حسی کا منھ چڑا رہا ہے۔
د خوشحال خٹک کہ نن سہ قدر نیشتہ
پس لہ مرگہ بہ ئے یاد کڑی ڈیر عالم
(نوٹ:۔ ’’بلڈی کپ‘‘ نامی انگریزی سے ترجمہ شدہ ڈراما پشتو میں ’’دَ وینو جام‘‘ کے عنوان سے پیش کیا گیا۔ ’’دَ وینو جام‘‘ ڈراما کسی زمانے میں ایم اے پشتو کے نصاب میں بھی شامل تھا، راقم)
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔