یہ ہے ہماری سیاست

پی ٹی آئی کا جو بندہ بھی پکڑا جاتا ہے، وہ رہائی کے فوری بعد پارٹی سے اپنی علاحدگی کا اعلان کردیتا ہے…… تاکہ وہ اور ان کی فیملی پھر کسی مشکل میں نہ پھنس جائیں۔
اِس وقت پی ٹی آئی کے تقریباً تمام قابلِ ذکر لیڈر پارٹی چھوڑ کر توبہ تائب ہو رہے ہیں۔ کچھ نے تو سیاست سے ہی توبہ کرلی ہے۔ اُن میں سے اکثر وہ افراد ہیں جو ہر اقتدار کا حصہ رہے ہیں اور ان کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں۔ جنھیں اقتدار میں لانا مقصود ہوتا ہے، یہی افراد اُس پارٹی کا حصہ بن جاتے ہیں اور یہ اُس وقت تک اُس پارٹی کا حصہ رہتے ہیں، جب تک وہ پارٹی بیساکھیوں پر ہوتی ہے۔ جیسے ہی پارٹی مضبوط ہونے لگتی ہے اور پارٹی سربراہ عوام میں مقبول ہوجاتا ہے، تو پھر اس کے خاتمے کے لیے وہ ’’قوتیں‘‘ متحرک ہوجاتی ہیں جنھوں نے اُسے بنایا ہوتا ہے۔
روحیل اکبر کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/akbar/
ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور اب عمران خان…… کیوں کہ یہ سب لیڈر عوام میں اتنے مقبول ہوچکے تھے کہ اگر وہ بھاری اکثریت سے اقتدار میں آجاتے، تو پھر بیرونی اور اندرونی آقاؤں کی نہیں چلنی تھی۔ اس لیے اُن افراد کو اقتدار سے نہ صرف الگ کردیا جاتا ہے، بلکہ اُنھیں نشانِ عبرت بھی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
قارئین! یہ بات بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ جب تک بیرونی اور اندرونی اسٹبلشمنٹ سے ڈیل نہ کی جائے، اُس وقت تک کوئی بھی سیاسی پارٹی اقتدار میں نہیں آسکتی۔ جو پارٹی اُس ڈیل کے ذریعے اقتدار میں آجاتی ہے، پھر وہ عوام کے مسائل سے بھی لاعلم ہوجاتی ہے۔
اِس وقت پی ڈی ایم کی مثال ہمارے سامنے ہے، یہی 11 پارٹیاں جو اِس وقت اقتدار میں ہیں…… جب اپوزیشن میں تھیں، تو اُنھیں دن کو چین تھا نہ رات کو آرام…… کیوں کہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی تھی۔ انھوں نے مہنگائی کی آڑ میں کبھی دھرنے دیے، تو کبھی احتجاج پر احتجاج کیا۔ دن رات عوام کی باتیں کرکر کے اور رو رو کر اُن کے آنسو خشک ہوچکے تھے۔ کوئی ٹی وی چینل ایسا نہیں تھا، جہاں مہنگائی پر سروے نہ دکھائے جاتے تھے۔ اور تو اور ہر ہفتے مہنگائی کا پچھلے ہفتے سے موازنہ کیا جاتا تھا اور حکومت کو ڈھیروں گالیاں پڑ رہی تھیں۔ خوش قسمتی سے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اپنے آقاؤں سے ڈیل ہوگئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شہباز شریف وزیرِ اعظم بن گئے۔
جب عمران خان کو اقتدار سے الگ کیا گیا، تو اُس وقت عوام بھی مہنگائی سے تنگ تھے اور کوئی خاص احتجاج بھی نہیں ہوا…… اور اُن سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ اُسی وقت عمران خان کو اندر بھی نہیں کیا۔ وقت گزرتا گیا…… مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگی…… عوام کا جینا مشکل ہوتا گیا…… وارداتیں بڑھتی گئیں اور بے روزگاری سے تنگ آکر افراد نے اپنے بچوں کے ساتھ اجتماعی خود کشیاں شروع کردیں۔ پھر عمران خان نے جلسے جلوس کی ابتدا کردی۔ حکومت کو شدید تنقید کا کا نشانہ بنانا شروع کردیا، تو پھر اقتداری پارٹیوں نے عوام کی توجہ اِدھر اُدھر کرنے کے لیے عمران خان پر سیاسی حملے شروع کردیے۔ مقدمات کا اندارج شروع ہوگیا۔ صحافی بھی رگڑے میں آگئے اور پھر اسی دوران میں عمران خان کے ساتھ موجود کچھ افراد نے ایک اور گیم شروع کردی۔ چوہدری پرویز الٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی تھے۔ انھوں نے وزارتِ اعلا حاصل کرنے کے لیے کچھ ن لیگی ساتھیوں کے ذریعے تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کروادی۔ اس بات کا ذکر خود بعد میں ن لیگی اراکینِ اسمبلی نے بھی کیا۔
اس تحریکِ عدمِ اعتماد کے بعد پنجاب میں ایک نئی گیم شروع ہوگئی۔ چوہدری پرویز الٰہی کی سیاست کامیاب ہوگئی۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے انھیں وزارتِ اعلا کی پیش کش کردی۔ ن لیگ، حمزہ شہباز پر اٹک گئی اور پھر آخرِکار چوہدری پرویز الٰہی نے جو چال چلی تھی۔ اُس میں وہ کامیاب ہوگئے…… وزیرِاعلا بن گئے جس کے بعد عمران خان نے اپنی دو اسمبلیاں خیبر پختون خوا اور پنجاب توڑ دیں۔
ایک طرح سے یہ عمران خان کی بڑی غلطی تھی کہ وہ پھر اشاروں پر ناچنے لگے۔ جب اسمبلیاں ٹوٹ گئیں، تو پھر حقیقی معنوں میں پی ڈی ایم نے عمران خان کو تگنی کا ناچ نچانا شروع کردیا۔ نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان اور رانا ثناء اللہ خان کھل کر میدان میں آگئے۔ رانا ثناء اللہ جن پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا، مگر اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ عمران خان اسی بیانیہ پر عوام میں ایک بار پھر مقبول ہوچکے تھے، جو پہلے پی ڈی کا ایم ہوتا تھا اور یہ ایک حقیقت بھی تھی کہ مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل کردیا تھا۔
پھر اُس کے بعد جب عمران خان کو گرفتار کیا گیا، تو عوام کا احتجاج سامنے آیا۔ کچھ شرپسندوں نے قومی اداروں کو نقصان پہنچایا، جو ایک خطرناک صورتِ حال اختیار کرگئی۔ اب جن لوگوں کو اس بات پر تکلیف ہورہی ہے کہ اس دہشت گردی میں ملوث افراد کو پکڑا جارہا ہے۔ اگر یہی افراد اُس دن سیکورٹی فورسز کی گولیاں کا نشانہ بن جاتے، تو پھر ملک کے حالات کیا ہوتے…… اور یہی وہ لوگ چاہتے تھے، جنھوں نے عوام کو اُس طرف روانہ کیا۔ احتجاج پُرامن بھی ہوسکتا تھا۔ پہلے بھی تو پی ٹی آئی نے کئی بار دھرنا دیا تھا، لیکن اس بار جو ہوا وہ نہ صرف قابلِ مذمت ہے…… بلکہ باعثِ شرم بھی ہے۔
اس واقعے سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی اور پھر پی ٹی آئی اراکین کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا، جو افراد پی ٹی آئی میں لائے گئے تھے، انھیں معافی نامہ کے بعد واپس بلالیا گیا، جس کے بعد کچھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز، شاہد خاقان عباسی، خواجہ آصف،احسن اقبال، کیپٹن صفدر، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، فریال تالپور، مفتاح اسماعیل، کامران مائیکل اورحنیف عباسی سمیت متعدد جیالوں اور ن لیگی ورکروں نے جیل کاٹی، لیکن کوئی رویا نہیں۔کسی ایک نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان نہیں کیا۔ان سب لوگوں نے پارٹیاں اس لیے نہیں چھوڑیں کہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی گئی۔ جیل میں بھی یہ لوگ پکنک مناتے تھے۔ آئے روز بار بی کیو پارٹیاں ہوتی تھیں اور جو حشر پی ٹی آئی والوں کے ساتھ ہوا۔ اس کی مثال شہباز گل کی صورت میں سامنے موجود ہے…… جس کے بعد پارٹی چھوڑنا تو معمولی بات ہے، انسان سیاست سے توبہ تائب ہوجاتا ہے۔
یہی ہماری پولیس کا کلچر ہے۔ ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔ ہمارے دیہاتوں میں بھی پولیس کے ذریعے ایسی ہی سیاست ہوتی ہے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف چوری کا مقدمہ درج کروا کر اُسے سبق سکھا دیا جاتا ہے اور پھر وہ ساری عمر تابع داری میں گزارتا ہے۔
یہی ہماری سیاست ہے، جس سے آج تک ہم باہر نہیں نکل سکے۔ آج بھی اگر ساری سیاسی پارٹیاں ’’چور‘‘اور ’’ڈاکو‘‘ کا بے ہودہ نعرہ ختم کرکے متحد و متفق ہو جائیں، تو پاکستان اور پاکستانیوں کی تقدیر بدل سکتی ہے، اور یہ بالکل ناممکن نہیں…… مگر بات ہے تحمل کی، صبر کی، برداشت کی…… اور اس مادے کی ہم میں کمی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ پاکستان کا حافظ و ناصر ہو، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے