پی ٹی آئی پر پابندی کا عندیہ، مکافاتِ عمل

9 مئی کے جلاو گھیراو اور بلوے کے واقعات پر وفاقی وزیرِ داخلہ خواجہ آصف نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا عندیہ دیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے اس بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگا بھی دے، تو سپریم کورٹ اس پابندی کو 24 گھنٹے کے اندر ختم کر دے گی۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
قارئین! آپ کو یاد ہو گا کہ عمران خان کے دورِ حکومت میں تحریکِ لبیک پاکستان نے سعد حسین رضوی کی قیادت میں احتجاج شروع کیا تھا، تو حکومت نے بدترین ریاستی جبر اور تشدد کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے کچلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا تھا۔ مظاہرین پر سیدھی فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں تین درجن کے قریب ٹی ایل پی کے کارکن جان سے گئے تھے۔ سعد حسین رضوی کو کئی ماہ کے لیے جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔ عمران حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی بھی لگا دی تھی۔
دیکھا جائے تو ٹی ایل پی کا وہ احتجاج 9 مئی کے واقعات کا عشرِ عشیر بھی نہیں تھا۔ اگر اس وقت کے ’’کرائی ٹیریا‘‘ کو فالو کیا جائے، تو پی ٹی آئی ہر لحاظ سے پابندی کی مستحق ہے۔ عمران خان نے جو بویا تھا، وہی کاٹ رہے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ 9 مئی کے واقعات پہلے سے طے شدہ پلان کا حصہ تھے۔ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان بتا رہے ہیں کہ خود عمران خان نے 9 مئی کے لیے اپنے ارکان کی تربیت کی تھی۔ فیاض الحسن چوہان نے پریس کانفرنس کے دوران میں بتایا کہ سانحۂ 9 مئی کے بعد عمران خان نے 14 مئی کو اپنی لیڈر شپ کو سختی سے منع کیا تھا کہ کسی نے ان واقعات کی مذمت نہیں کرنی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ خان کو ملک کو برباد کرنے اور یادگارِ شہدا کی پامالی اور بے حرمتی کا کوئی دکھ نہیں تھا۔
پی ٹی آئی کے کچھ سقراط اور بقراط یہ نکتہ اٹھا رہے ہیں کہ جب جناح ہاؤس لاہور پر حملہ ہوا یا جی ایچ کیو پر چڑھائی ہوئی، تو فوج نے اسے روکا کیوں نہیں؟ ریڈیو سٹیشن پشاور کو تباہ کرنے کی کھلی چھوٹ کیوں دی گئی؟ ان کا موقف ہے کہ پی ٹی آئی ورکرز کے بھیس میں یہ کارروائیاں خود حکومت یا فوج نے کروائی ہیں۔ دراصل یہ وہی لوگ ہیں جو اس جلاو گھیراو کے منصوبے میں عمران خان کے ساتھی تھے۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ جب پی ٹی آئی کے کارکن ان حساس مقامات پر حملہ کرکے توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراو کریں گے، تو فوج آگے سے اپنے دفاع میں ان مظاہرین پر گولی چلائے گی اور یوں انھیں اپنے ورکرز کی کچھ لاشیں مل جائیں گی، جن کو کیش کرواتے ہوئے وہ ملک بھر میں سوشل میڈیا کے ذریعے ایسی آگ بھڑکا دیں گے کہ وطنِ عزیز میں خانہ جنگی کی صورتِ حال بن جائے گی۔ فوج اور عوام آمنے سامنے ہوں گے۔ پورا ملک آگ اور تشدد کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ فوج میں تقسیم ہو جائے گی۔ بالآخر فوجی سربراہ سرنڈر کر دیں گے۔ تب تک شاید سپریم کورٹ ملک کے وزیرِ اعظم کو کابینہ سمیت نااہل کر چکی ہوگی۔ لہٰذا عمران خان شہنشاہِ معظم بن کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو جائیں گے۔
وہ بھول گئے کہ یہ پلاننگ اس فوج کے خلاف کر رہے ہیں، جو گذشتہ تین دہائیوں سے عملاً حالتِ جنگ میں ہے…… جس نے روس اور امریکہ جیسی سوپرپاؤرز کو شکستِ فاش سے دوچار کیا ہوا ہے۔ پاک فوج ایک منظم ادارہ ہے۔ اگر اس کے جنرلوں یا کور کمانڈروں کے درمیان کسی معاملے میں اختلافِ رائے ہو بھی جائے، تو وہ اختلافِ رائے ہوتا ہے۔ اسے ’’مخالفت‘‘ سمجھ لینا بہت بڑی حماقت ہے۔ جو فیصلہ ہو جائے پھر اس پر تمام فوج نے ہر صورت میں عمل کرنا ہوتا ہے۔
پاک فوج اپنے کمانڈر کے خلاف کبھی نہیں جاتی۔ اس کا عملی مظاہرہ 1998ء میں بھی وہ دکھا چکی ہے، جب پرویز مشرف کو فوج کی سربراہی سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی۔ یہ بھلا کیسے ممکن تھا کہ ایک منظم فورس 9 مئی کو ایک بکھرے ہوئے ہجوم کے منصوبہ سازوں کی سازش کا شکار ہو جاتی۔ چناں چہ فوج نے اربوں روپے کا مالی نقصان اور اہم تنصیبات کی تباہی کو برداشت کرنے کا فیصلہ کر لیا، مگر اپنے ہی ملک کے عوام کے مقابلے میں آنا مناسب نہ سمجھا۔ فوج کو علم تھا کہ یہ گم راہ لوگ ہیں، جو عقیدت کے جوش میں سازشیوں کے بہکاوے میں آ گئے ہیں۔
پاک فوج 9 مئی کو سرخرو ہو گئی اور ساتھ ہی ملک دشمن ایجنڈے پر کام کرنے والے سازشی بے نقاب ہو گئے۔
9 مئی کو پاک فوج پر نہیں بلکہ ملک کی سالمیت پر حملہ کیا گیا تھا۔ عمران خان کو کرپشن کے الزام میں نیب نے گرفتار کیا تھا۔ اگر اس گرفتاری کے پیچھے حکومت تھی، تو پی ٹی آئی کی لیڈرشپ احتجاج کے لیے اپنے ورکرز کو پارلیمنٹ ہاؤس، صوبائی اسمبلیوں کے باہر یا حکومتی وزرا کے گھروں کے باہر احتجاج کے لیے لے کر جاتی۔ کورکمانڈر ہاؤس یا جی ایچ کیو کی طرف ورکرز کو کیوں لے جایا گیا؟ صاف ظاہر ہے کہ اس کی پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی…… اور سب کچھ پلان کے مطابق ہو رہا تھا۔ یہ جرم ایسا نہیں کہ قوم یا فوج اسے معاف کر دے گی۔
امریکہ میں نائن الیون ہوا، تو اس نے جواب میں پورا افغانستان تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ 9 مئی تو نائن الیون سے بھی بڑھ کر ہے۔ امریکہ میں فوجی تنصیبات پر حملے نہیں ہوئے تھے۔ 9 مئی کے تمام ذمے داران عبرت ناک سزا کے مستحق ہیں۔ پی ٹی آئی نے ایک تشدد پسند اور دہشت گرد جماعت کے روپ میں پوری دنیا میں اپنا تعارف کروا دیا ہے۔ اس پر پابندی لگانا ناانصافی نہیں ہو گی، مگر میرے خیال میں جماعت پر پابندی لگانا مسئلے کا حل نہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی پر پابندی لگی، تو اس نے نیشنل عوامی پارٹی کے روپ میں دوسرا جنم لے لیا۔ پارٹی کے رہنماؤں کا تیزی کے ساتھ خود کو عمران خان اور 9 مئی کے واقعات سے دوری اختیار کرنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ عمران خان کے ملک اور فوج دشمن ایجنڈے پر ان کے ساتھ نہیں تھے۔ پی ٹی آئی ملک کی ایک بڑی جماعت ہے۔ صرف چند ہزار ورکرز اپنے لیڈر کے بہکاوے میں آ کر جلاو گھیراو اور بلوے کی کارروائیوں کا حصہ بنے تھے۔ دیگر لاکھوں ورکر اور سپورٹر محبِ وطن ہیں۔ عمران خان کی تاحیات نااہلی تو لازمی ہے۔ ورکرز کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنی نئی لیڈرشپ کا انتخاب کر کے عملی اور صاف ستھری سیاست میں پارٹی کو واپس لے کر آئیں۔ البتہ سیاست میں عمران اور 9 مئی کے دیگر منصوبہ سازوں کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے