سورج غروب ہو رہا تھا۔ مَیں اپنی دانست میں مینگورہ سے اپنے گھر سیدو شریف جا رہا تھا۔
میری عمر اُس وقت بہ مشکل کوئی 9، 10 سال ہوتی ہوگی۔ بازار بالکل سنسان دکھائی دے رہا تھا۔ تانگوں کا اڈا بھی خالی تھا۔ اگر کئی تانگا ہوتا بھی، تو میرے پاس ایک پیسا بھی نہیں تھا۔ مَیں دل ہی دل میں کَہ رہا تھا کہ بازار سے نکلوں…… اور تھوڑا آگے جاؤں، تو کانچئ کندہ کا پل آئے گا۔ جس کے قریب ہی سنٹرل ہسپتال ہے۔ اس سے آگے 10، 15 منٹ چلوں، تو افسر آباد آئے گا…… جس میں سب سے پہلے ہمارا گھر ہے۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
مَیں انھی سوچوں میں گم لمبے لمبے ڈگ بھر رہا تھا۔ اُس روز کے سورج نے آخری بار دنیا پر نظر ڈالی اور ’’کاٹیلئ‘‘ (جسے اب امان کوٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے) کے پہاڑ کے پاس حسبِ معمول چھپ گیا۔
مَیں نے اپنے اِردگرد نظر ڈالی، تو ماحول اجنبی سا لگا۔ مَیں نے سڑک کے قریب گھنے درختوں کا جھنڈ دیکھا،جس میں بے شمار قبریں تھیں۔ ذرا آگے بڑھا، تو کوئی ویرانی سی ویرانی تھی…… جو مجھے خوف زدہ کر رہی تھی۔ اُس وقت مجھے کچھ شک سا پڑگیا کہ مَیں غلط سڑک پر آنکلا ہوں۔
اتنے میں سامنے سے خچر پر سوار ایک شخص آتا دکھائی دیا۔ مَیں خوف سے گھونسلے سے گرے ہوئے پرندے کے بچے کی طرح لرزنے لگا۔ وہ میرے قریب آکر رُکا اور بھانپ گیا کہ مَیں ڈر گیا ہوں۔ اس نے نرم لہجے میں پوچھا: ’’لڑکے! تم کون ہو اور کہاں جارہے ہو؟‘‘
مَیں نے ڈرتے ڈرتے اُس کو اپنا نام بتاتے ہوئے کہا کہ مَیں سیدو شریف جارہا ہوں،اپنے گھر……!
اُس نے پھر پوچھا: ’’سیدو شریف میں تمھارا گھر کدھر ہے؟‘‘
مَیں نے جواباً کہا: ’’جی…… افسر آباد میں……!‘‘
اُس نے کہا: ’’بیٹا! تم غلط سڑک پر جارہے ہو۔ یہ تو کوکارئی کی طرف جاتی ہے۔ چلو مَیں تمھیں سیدو جانے والی سڑک تک چھوڑ آؤں۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اُس نے خچر پر بیٹھے بیٹھے میری بغل میں ہاتھ ڈالا…… اور مجھے آرام سے اُٹھا کر خچر پر اپنے آگے بٹھالیا۔
وہ مہربان اجنبی مجھے مینگورہ پل کے پاس اُتار کر بولا: ’’یہ سڑک سیدھی سیدو کو جاتی ہے۔ اِدھر اُدھر مت جانا۔‘‘
مَیں جب گھر پہنچا، تو عشا کا وقت ہوچکا تھا۔ میرے والد مجھے ڈھونڈتے ڈھانڈتے تھک چکے تھے، اور والدہ نے رو رو کر اپنا برا حال کیا تھا۔ مَیں نے اُن کو سارا ماجرا سنایا، تو کہنے لگے کہ شکر کرو…… تم کو وہ خچر سوار ملا۔ ورنہ اُسی ویران سڑک پر چلتے چلتے ضرور کوئی درندہ تم کو شکار کر لیتا۔
قارئین! آج اگر آپ مینگورہ سے نکلنا چاہیں، تو نہیں نکل سکیں گے۔ کوکارئی تو کیا پرونہ تک آبادی پھیلی ہوئی ہے۔ درندے اور تمام صحرائی جانور انسان کے تجاوزات سے خوف زدہ ہوکر نقلِ مکانی کرچکے ہیں۔ اس طرح ایک اور نمایاں گراوٹ انسانی رویوں میں آچکی ہے۔ آج اگر 9، 10 سالہ بچہ اسی طرح سنسان مقام پر کسی انسان نما درندے کے ہتھے چڑھ جائے، تو اس کے انجام پر زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں…… یا تو وہ دریدہ جسم کی صورت میں پڑا ہوگا یا اُس کے والدین کو تاوان کا فون مل چکا ہوگا۔
اچھا، اب یہ بھی سن لیجیے کہ مَیں کیوں گھر سے نکلا تھا؟ دراصل میرے والد پہلی دفعہ میرے بغیر دوستوں سے ملنے قمبر چلے گئے تھے اور مَیں اُن کے پیچھے انھیں ڈھونڈنے نکلا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔