تحریر: میثم عباس علیزی
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کی شخصیت کیسے بنتی ہے، آپ کے جذبات و احساسات کا دارومدار کس چیز پر ہے، یا آپ جو سوچتے ہیں وہ کیوں سوچتے ہیں، آپ کے رجحانات، تمایلات اور عقائد کیسے تشکیل پاتے ہیں، آپ کا ذہنی ڈھانچا کیسے تیار ہوتا ہے……؟ یعنی اِس چیز کا فیصلہ کون کرتا ہے کہ آپ نے کیا اور کیسے سوچنا ہے…… یا آپ جو سوچتے ہیں یا علم حاصل کرتے ہیں، وہ بالآخر کس چیز کا نتیجہ ہے؟
ٹیبولا راسا (Tabula Rasa) کے مطابق آپ جو بھی کچھ ہیں، جیسے بھی آپ سوچتے ہیں، یہ آپ کے اپنے اِردگرد ماحول کے مشاہدات اور تجربات کا نتیجہ ہے…… یعنی مَیں اور آپ کے سوچنے اور چیزوں کو دیکھنے کا فیصلہ ہماری اپنی اِردگرد کے مشاہدے سے ہوتا ہے۔
ٹیبولا راسا اصل میں ایک لاطینی لفظ ہے جس کے معنی خالی سلیٹ (Blank slate) کے ہیں۔
خالی سلیٹ یا ’’ٹیبولا رسا‘‘ کے لفظ میں سلیٹ (Slate) ایک استعار کے طور پر استعمال ہوتا ہے، یعنی ایک خالی صفحہ یا خالی ذہن…… جو سارے تصورات، رجحانات، تعصبات یا اثرات سے پاک اور خالی ہو۔
اصطلاح میں’’ ٹیبولا راسا‘‘ ایک فلسفیانہ علمی نقطۂ نظر (Epistemological Approach) ہے جس کے مطابق ایسا نہیں کہ آپ جو سوچتے ہیں یا جو آپ کے افکار و نظریات ہیں، وہ پہلے سے ہی آپ کے ذہن میں موجود ہوتے ہیں…… بلکہ اِس علمی نقطۂ نظر (Epistemological Approach) یعنی ’’ٹیبولا راسا‘‘ کے مطابق ہر انسان ایک خالی ذہن کے ساتھ پیدا ہوتا ہے…… جو علم، تجربات، فطری خیالات، اور فطری رجحانات و تمایلات سے خالی ہوتا ہے اور دنیا کے بارے میں ہماری سمجھ، پہلے سے طے شدہ عوامل کی بجائے ہمارے تجربات اور اردگرد ماحول اور لوگوں کے ساتھ تعاملات (Interactions) کے ذریعے تشکیل پاتی ہے۔
چاہے وہ شعوری طور پر ہو یا لاشعوری طور پر…… لیکن بالآخر ہمارا اردگرد کا ماحول ہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ہماری شخصیت کیسے بنے، ہم کیسے سوچیں، ہم کیسے فیصلہ کریں، ہم کون سے اخلاقیات و رسومات اپنائیں…… وغیرہ۔
دوسرے الفاظ میں ہم سب کی کوئی پیدایشی فطرت یا پیدایشی ذہنی ڈھانچا نہیں ہوتا…… جو آپ دیکھتے ہیں، سونگھتے ہیں، سنتے ہیں، جو بھی آپ اپنے اِردگرد ماحول اور لوگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں، وہی بنیادی طور پر آپ کی شخصیت کو بناتا ہے۔ مطلب ہم پہلے سے بن کر نہیں آتے…… بلکہ ہم اپنے آپ کو بناتے ہیں…… جو بھی ہم روزمرہ زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں، یہ دراصل ہم اپنی شخصیت بنا رہے ہیں۔
چوں کہ ہر کوئی خالی ذہنی سلیٹ سے شروع ہوتا ہے، اس لیے ’’ٹیبولا راسا‘‘ کے مطابق ہر شخص میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ الگ الگ شخصیت، نقطۂ نظر اور ہنر پیدا کرسکے۔ یہ اصل میں کسی کی شناخت کی تشکیل میں ماحول، تعلیم اور ذاتی تجربات کی اہمیت کو تسلیم کرتا ہے۔
اِس سے یہ ظاہر ہوتا کہ انسانوں میں تبدیلی اور ترقی کی فطری صلاحیت موجود ہے…… اور افراد مقررہ خصوصیات یا پہلے سے طے شدہ تقدیر کے پابند نہیں ہوتے…… بلکہ ان میں پوری زندگی سیکھنے، اپنانے اور بدلنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔
یہی علمی تصور یا علمی نقطۂ نظر ایمپریسزم (Empiricism) میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جس کے مطابق علم کا واحد ذریعہ حسی مشاہدہ ہے۔
’’ٹیبولا راسا‘‘ کا خیال دراصل سب سے پہلے 17ویں صدی میں ایک مشہور فلسفی ’’جان لاک‘‘ نے پیش کیا تھا۔ لاک کے مطابق پیدایش کے وقت انسانی ذہن ایک خالی سلیٹ یا کاغذ کے خالی صفحے کی طرح ہوتا ہے…… اور تجربے کے ذریعے ہی علم حاصل ہوتا ہے۔اُس علم کو پھر خیالات، تصورات اور عقائد بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ارسطو کا بھی یہی خیال تھا کہ انسان ایک خالی ذہن کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ پھر اُس کے اِردگرد کا ماحول ہی اس کے ذہنی خیالات و افکار کو تشکیل دیتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔