ودودیہ سکول کے پرائمری بلاک میں ہمیں ادنا جماعت میں پڑھتے ایک مہینا بھی نہیں گزرا تھا کہ ہمیں سیدو شریف سے جنوب کی طرف مرغ زار جانے والی سڑک کے کنارے شگئ کے مقام پر نئے تعمیر شدہ ’’اینگلو ورنیکولر مڈل سکول‘‘ میں منتقل کردیا گیا۔
فضل رازق شہابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/
ماسٹر سید عمر اُس بلاک کے ہیڈماسٹر تھے۔ ہمارے کلاس ٹیچر کا نام فہم گل تھا۔ بڑی بڑی اور باہر کو نکلی ہوئی آنکھیں اور موٹی ناک کے ساتھ دبلے چہرے والے فہم گل بہ ظاہر بہت سخت گیر نظر آتے تھے…… لیکن دراصل وہ خاموش طبع اور بے ضرر قسم کے استاد تھے۔ اُن کی زندگی کا واحد مشن اور جنون بچوں کو پڑھانا اور سمجھا کر پڑھانا تھا۔ اتنے ’’ڈی ووٹڈ‘‘ (Devoted) اور ’’کمیٹیڈ‘‘ (Committed) استاد مجھے کہیں نظر نہ آئے…… سوائے پروفیسر اشرف الطاف اور اخلاق احمد خان کے۔
قارئین! مَیں یہ بات آج تک نہ سمجھ سکا کہ انھوں نے مجھے اور دو تین اور بچوں کو کیوں خصوصی توجہ کے لائق سمجھ کر گھر پر مفت پڑھائی کی پیشکش کی؟ ہم نے ہامی بھرلی اور دوپہر کھانے کے بعد ان کے ہاں پڑھنے کی غرض سے جانے لگے۔ اُن کا گھر اُس وقت غلہ گودام کے عقب میں ایک پتلی سی تاریک گلی میں واقع تھا۔ جس لگن اور تن دہی سے وہ ہمیں پڑھاتے…… اُسی جذبے سے ہم سیکھتے بھی جاتے۔ تین مہینے بعد اُن کی سفارش پر ہمارا امتحان لیا گیا…… اور ہم اول جماعت پروموٹ کر دیے گئے۔ اسی طریقے سے پڑھتے اور امتحان دیتے ہم دو سال میں چوتھی جماعت تک پہنچ گئے۔ اِس کے بعد اُنھوں نے کوشش کی کہ ہم تین ماہ بعد امتحان دے کر پانچویں میں چلے جائیں…… لیکن ہیڈ ماسٹر نے اجازت نہ دی…… اور ہم حسبِ معمول دوسروں کے ساتھ آگے بڑھتے گئے۔
قارئین! شگئ سکول کے ایامِ طالب علمی کی دھندلی یادیں اب بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں۔ ایک خوف ناک واقعہ جس میں ہم زخمی ہونے سے بچ گئے تھے…… کچھ یوں ہے کہ سکول کے عقب میں پہاڑ سے بعض لوگ پتھر نکال کر بیچتے تھے۔ ایک دن بلاسٹنگ کے بعد ایک بہت بڑا پتھر لڑھکتا ہواتیزی سے سکول کی طرف آنے لگا۔ہم دھوپ میں پھوڑ بچھائے سبق پڑھ رہے تھے۔ گڑگڑاہٹ کی آواز پر چونکے، تو پتھر تقریباً سر پر آچکا تھا۔ تب لڑکوں نے دوڑ کر جان بچائی۔
دوسرا واقعہ جو مجھے یاد ہے…… اسلام پور کے دو بڑے لڑکوں کو سکول اسمبلی میں سخت سزا دینے کا منظر ہے۔ اُن کو سو سو بید مارے گئے۔ اس کے لیے ودودیہ سکول کے ہیڈماسٹر عنایت اللہ خان خود آئے تھے۔ انھوں نے خود یہ بید گن کر مارے تھے۔
اس طرح مجھے یہ بھی یاد ہے کہ موصوف کی ایک ٹانگ میں نَقص تھا اور وہ لنگڑا کر چلتے تھے۔ وہ ہمیشہ سوٹ پہنتے تھے اور سولا ہیٹ سر پر اُوڑھتے تھے۔ ان کا سکول کے اساتذہ اور طلبہ پر بڑا رعب تھا۔ کسی کو اُن کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔