اس سے پہلے کہ 9 مئی کو ہونے والی ہنگامہ آرائی کا ذکر کیا جائے، ہم یہ مناسب سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے خلاف حکومت کے کہنے پر یا نیب نے خود ’’القادر ٹرسٹ‘‘ کا جو کیس بنایا، دراصل وہ ہے کیا؟
’’القادر ٹرسٹ‘‘ کے بارے میں مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے 26 دسمبر 2019ء کو رئیل سٹیٹ ڈیولپر کے حوالے سے کابینہ کے فیصلے کے چند ہفتوں کے بعد القادر یونیورسٹی کے لیے ’’القادر ٹرسٹ‘‘ رجسٹر کیا تھا، جو بعد میں یونیورسٹی کا ڈونر بن گیا۔ 2 دسمبر 2019ء کو ٹرسٹ کی رجسٹریشن سے تین ہفتے قبل سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی کابینہ نے بزنس ٹائیکون اور فیملی کیس میں نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) نے اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات جاری کیے اور فنڈز پاکستان واپسی سے متعلق معاملہ اُٹھایا۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
این سی اے انگلینڈ نے رئیل سٹیٹ ڈیولپر کے سی اِی اُو کے خلاف تحقیقات بند کر دیں اور بیرونِ ملک بزنس ٹائیکون کے اکاؤنٹ سے تقریباً 140 ملین پاؤنڈ پاکستان واپس بھیجے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھیجی گئی تقریباً 140 ملین پاؤنڈ کی رقم سپریم کورٹ کے نیشنل بینک آف پاکستان میں بھجوائی گئی۔ سوال اُٹھایا گیا کہ یہ رقم سرکاری اکاؤنٹ میں منتقل کی جانی چاہیے تھی، جو کہ سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں بھجوائی گئی۔ یہ معاملہ ایسا تھا کہ جیسے بزنس ٹائیکون رئیل سٹیٹ ڈیولپر کراچی نے کیس میں جرمانے کے طور پر سپریم کورٹ میں 460 ارب روپے ادا کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی اور رقم سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دی۔ اسلام آباد کے ’’سب رجسٹرار آفس‘‘ میں ٹرسٹ ڈیڈ کی رجسٹریشن کے اگلے ہی مہینے رئیل سٹیٹ ڈیولپر نے جہلم میں 460 کنال اراضی خریدی اور زلفی بخاری کے نام منتقل کردی۔ اسٹامپ ڈیوٹی کی مد میں اس زمین کی قیمت 243 ملین مقرر تھی۔ ٹرسٹ کی تشکیل کے بعد 22 جنوری 2021ء کو زلفی بخاری نے یہ زمین ٹرسٹ کے نام منتقل کر دی۔ یہ 460 یا 458 کنال اراضی تحصیل سوہاوہ، ضلع جہلم میں ذوالفقار عباس بخاری القادر ٹرسٹ کے متولی کے نام پر واقع ہے۔
24 مارچ 2021ء کو زمین کے اس عطیے کے ساتھ دیگر عطیات جیسے انفراسٹرکچر اور رئیل سٹیٹ ڈیولپر کی دیگر دفعات جو بشرا بی بی اور رئیل سٹیٹ ڈیولپر پرائیویٹ لمیٹڈ کے درمیان سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی رہایش گاہ پر ہونے والے معاہدے میں تسلیم کیا گیا، جب عمران خان وزیرِ اعظم کے دفتر میں تھے۔
رئیل سٹیٹ ڈیولپر نے معاہدے میں اس بات کی بھی تصدیق کی کہ وہ مجوزہ القادر یونیورٹی کے قیام اور اسے چلانے کے تمام اخراجات برداشت کرے گا اور یہ کہ وہ القادر پراجیکٹ کے قیام اور چلانے کے لیے فنڈز (رقم) بھی فراہم کرے گا۔ جنوری 2021ء سے دسمبر 2021ء تک القادر ٹرسٹ کو 180 ملین روپے کے عطیات ملے۔ جولائی 2020ء سے جون 2021ء تک ٹرسٹ کی کل آمدن بھی لاکھوں روپے میں تھی، جب کہ عملے اور کارکنوں کی تنخواہوں کی مد میں اخراجات صرف 8.58 ملین روپے کے لگ بھگ تھے۔
نیب نے تحریکِ انصاف حکومت کی جانب سے 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچانے کے بدلے رئیل سٹیٹ ڈیولپر سے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر حال ہی میں عمران خان اور بشرا بی بی کے خلاف سیکڑوں کنال اراضی حاصل کرنے کی اپنی انکوائری کو انوسٹی گیشن میں تبدیل کردیا ہے۔
یہ بھی الزم ہے کہ شہزاد اکبر نے اس گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوئے دو ارب روپے وصول کیے جب کہ بابر اعوان پر بھی الزامات ہیں۔
9 مئی کو نیب نے رینجرز کی مدد سے جب القادر ٹرسٹ کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا، تو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔ عمران خان کی گرفتاری کے ردِ عمل میں پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکن اور حمایتی سڑکوں پر آکر احتجاج کرنے لگے۔ مانا کہ احتجاج کسی بھی سیاسی پارٹی کا بنیادی جمہوری حق ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ احتجاج کی آڑ میں کسی بھی سیاسی پارٹی کے ورکرز اور حمایتی سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا جائے۔
افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ اُسی دن تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور حمایتیوں نے ملک بھر میں سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔ سرکاری اور نجی گاڑیوں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ لاہور میں جناح ہاؤس (موجودہ آرمی کور کمانڈر ہاؤس) کو جلایا گیا، جب کہ ہمارے ہاں ملاکنڈ میں سوات موٹر وے کا ٹول پلازہ اور تاجِ برطانیہ کے تعمیر کردہ چکدرہ قلعے میں توڑ پھوڑ کی گئی اور آگ لگا دی گئی، جس کے ردِ عمل میں پی ٹی آئی کا ایک نوجوان کارکن جان سے گیا اور درجن بھر سے زیادہ زخمی بھی ہوئے۔
تحریکِ انصاف کے کارکنوں اور حمایتیوں نے جو سرکاری و نجی اِملاک اور گاڑیاں نذرِ آتش کیں، وہ برسرِ اقتدار حکم رانوں کی نہیں بلکہ اس ملک و قوم کا سرمایہ تھیں…… اور یہ نقصان حکم رانوں کا نہیں عوام اور ریاست کا ہوا ہے۔
تحریکِ انصاف کے بڑوں کے لیے سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ کیا اُن کے اس احتجاج سے عمران اور تحریکِ انصاف کو کچھ فائدہ ہوا…… اور کیا عمران خان کو رہائی مل گئی……؟ عمران خان کو اگر کوئی ریلیف ملا بھی، تو عدالت ہی سے ملا…… اور اب بھی عدالتیں ہی عمران خان کو ریلیف دے سکتی ہیں۔
نیب کا بنایا گیا ’’القادر ٹرسٹ کیس‘‘ اگر جھوٹ پر مبنی ہے، تو عمران خان کو قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے کارکنوں کو ہدایت دینی چاہیے کہ جلاو گھیراو سیاسی مسئلوں کا حل نہیں۔ اگر احتجاج ناگزیر ہو، تو قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔