1996ء میں لکھا گیا یہ وہ ناولٹ ہے جو زاہدہ حنا کے افسانوی مجموعے ’’راہ میں اجل ہے‘‘ میں شامل ہے…… مگر اسے افسانوں سے علاحدہ ’’ناولٹ‘‘ ہی کی حیثیت دے کر باعزت مقام عطا کیا گیا ہے۔
زاہدہ حنا کے بارے میں ادیب سہیل صاحب لکھتے ہیں: ’’زاہدہ حنا کی تحریروں کا خمیر بغاوت، حسن او رصداقت سے اُٹھا ہے۔ مَیں نے جب اُس کے افسانوں سے اُسے جانا، تو بے اختیار یہ جی چاہا کہ انکار و انحراف کے راستے سے گزرتی ہوئی اور سلوک و تصوف کی روایت سے جُڑی ہوئی زاہدہ کے ماضیِ بعید اور قریب کو جانوں، اس لیے کہ ’’قیدی سانس لیتا ہے‘‘، ’’راہ میں اجل ہے‘‘ اور ’’نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘‘ ایسی تحریریں محض تاریخ اور اساطیر کے، ادب اور فنون لطیفہ کے مطالعے سے تو جنمی نہیں جاسکتی تھیں۔ درمیان میں معاملہ یقینا کہیں وراثت کا بھی تھا۔
ڈاکٹر عرفان احمد خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irfan-khan/
مَیں جب کہانیاں لکھنے والی زاہدہ حنا کی کہانی کو تلاشنے نکلا، تو معلوم ہوا کہ وہ اگر رئیسان ہمسرام دائم علی خاں کی سگڑ نواسی اور ریاست علی خاں کی پرنواسی ہے، تو دوسری طرف اُس کے پُرکھ مرزا دلدار بیگ (خاکی شاہ) ہیں، جنھوں نے گورا فوج کے افسر ہوتے ہوئے بھی 1857ء میں علمِ بغاوت بلند کیا۔ دریائے جہلم کے کنارے پھانسی پائی اور آج بھی جہلم کی خاک میں سوتے ہیں۔ اسی شہید کے بیٹے مرزا عبدالستار بیگ سہسرامی ہیں، جنھوں نے روح کا سکون مسالکوں کے مشرب میں تلاش کیا اور تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ’’مسالک السالکین فی تذکرہ الواصلین‘‘ ایسی گراں قدر تصنیف کے مصنف کہلائے۔ زاہدہ کے دادا یوسف علی جب ڈپٹی کلکٹر تھے، عین اُسی زمانے میں اُن کا بیٹا محمد ابوالخیر فرنگیوں کے خلاف شورش اور بغاوت کے جرم میں قیدِ بامشقت کا سزاوار ٹھہرا اور اُس نے آرہ ڈسٹرکٹ جیل میں چکی پیسی۔
ڈپٹی کلکٹر باپ کا یہی بیٹا زاہدہ جیسی بیٹی کا باپ ہوا۔ جاگیردارانہ سماج کی پروردہ اور وہی مزاج رکھنے والی شمس النساء بنت احسن علی ان زاہدہ کی ماں ٹھہری۔ وہ اپنے جہیز میں ریشمی پارچوں، سونے کے زیوروں اور چاندی کے برتنوں کے ساتھ کتابوں کے صندوق بھی لائی تھی جن میں طلسم ہوش ربا کے دفتر، فسانۂ آزاد کی جلدیں، الف لیلیٰ باتصویر اور منشی نول کشور کے یہاں سے چھپنے والی داستانوں او رناولوں کی جلدیں تھیں۔ ’’عصمت‘‘، ’’نگار‘‘ اور ’’ساقی‘‘ کے مجلد شمارے تھے۔ زاہدہ کی پھوپھیاں زاہد النساء اور شمس النساء 30ء کی دہائی میں ’’سہروردیہ اسکول‘‘ کلکتہ میں پڑھاتی تھیں اور 19ویں صدی میں سانس لینے والی اس کی سہسرامی نانیاں اور دادیاں فارسی اور اُردو میں طاق تھیں جس کا ذکر وحی احمد بلگرامی نے 1934ء کی ایک تحریر میں کیا ہے۔ اس کی دادی آمنہ خاتون 30ء کی دہائی میں حجاز، یمن اور یروشلم ہو آئی تھیں او ربعد میں افغانستان اور ایران کی سیر کو گئیں اور اس کی پردادی وزیر النساء نے ۱۸۵۷ء کے پُرآشوب زمانے میں اپنے شوہر کی پھانسی کے بعد جہلم سے سہسرام کا سیکڑوں میل پر پھیلا ہوا عذاب ناک سفر جس طرح کیا، وہ ایک الگ کہانی ہے۔ ’’نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘‘ ایسی دل دوز تحریریں لکھنے والی کا خمیر ایسے ہی پُرکھوں کی خاک سے اُٹھ سکتا تھا! ‘‘
یہ ناولٹ ایک لڑکی برجیس کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے جناح ٹرمینل (کراچی) تک کے سفر سے شروع ہوتا ہے۔ ’’ایئرپورٹ سے ہوٹل تک شہر اتنی تیزی سے پھیلا تھا جیسے بدن میں کینسر پھیلتا ہے۔ دیواروں پر کوڑھ پھوٹا ہوا تھا۔ شہر بابری مسجد کی پکار، ریپ انڈیا، نعرۂ سندھ جئے سندھ، شیعہ کافر، جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے، قادیانی واجب القتل ہیں، ماریں گے مر جائیں گے مہاجر صوبہ بنائیں گے، کرش انڈیا۔‘‘
یہ کراچی (پاکستان) کی وہ جھلک ہے جو کبھی پاکستان کا دارالحکومت بھی رہ چکا ہے۔ دارالحکومت والی عزت انھیں راس نہ آئی اور وہ اسلام آباد منتقل ہوگیا۔ اس شہر کا اصل مسئلہ یہاں بسنے والی اکثریت کی سوچ میں پنہاں تھا، جو اسے پاکستان جیسا نہیں ہندوستان جیسا دیکھنا چاہتے تھے۔ جو بغل میں بُت چھپا کر پنج وقتہ نماز پڑھنا چاہتے تھے۔
برجیس اپنے ماضی کی تلاش میں پاکستان آئی ہے۔ اِسی تلاش میں وہ ایک پارسی گھرانے سے اتفاقیہ طور پر متعارف ہوتی ہے۔ وہ تعارفی کارڈ ایک گرا ہوا بروچ ہے جو اُس کے پاس سے گزرتی ہوئی خاتون کی ساڑھی سے پھسل کر گرا ہے جس کا پتا ذرا دیر سے چلا ہے۔
’’برجیس سوچتی رہی اور اپنے آپ سے اُلجھتی رہی۔ زیادہ پرانی بات تو نہ تھی جب قلعہ والیوں پر قیامت گزر گئی تھی۔ گل بانو، مہر بانو، خورشید جمال، مہ جمال کیسی کیسی شہزادیوں نے میواتیوں اور جاٹوں کے برتن مانجھے تھے، بھیک مانگی تھی، تکیوں اور قبرستانوں میں جا رہی تھیں، بالا خانوں کی زینت بن گئی تھیں۔‘‘
برجیس ایک وکیل نسروان پرویز کاؤس جی کی مہمان بن جاتی ہے، جن کا ایک بیٹا منوچہر بھی ہے اور اُن کی اہلیہ کا نام بانو شاکری ہے۔ وہ پڑھے لکھے وضع دار لوگ ہیں۔ وہاں برجیس ڈنر کرتی ہے۔ واش روم میں فریش ہوتی ہے۔ پھر اُسے صوفے پر رات گزارنے کی سہولت دے دی جاتی ہے، مگر وکیل ہونے کے باعث کاؤس جی، برجیس کی طرف سے مشکوک بھی ہے۔
’’انھوں نے سامنے رکھی ہوئی مُلا محسن خان کی کتاب اُٹھائی۔ اُس نے ابتدا زرتشتیوں سے کی تھی۔ اُنھی کا عقیدہ تھا کہ زحل کی ایک گردش ایک دن کے برابر ہے، ایسے تیس دن ایک مہینا بناتے ہیں، بارہ مہینوں سے ایک سال وجود میں آتا ہے اور ایسے دس لاکھ برسوں کا مجموعہ ’’فرد‘‘ کہلاتا ہے اور ایک ’’ورد‘‘ دس لاکھ ’’فرد‘‘ پر مشتمل ہوتا ہے۔ دس لاکھ ’’ورد‘‘ کا مجموعہ ایک ’’مرد‘‘ اور دس لاکھ ’’مرد‘‘ سے ایک ’’جد‘‘ بنتا ہے۔ تین ہزار ’’جد‘‘ ایک ’’ود‘‘ قرار پاتے ہیں اور دو ہزار ’’ود‘‘ سے مل کر ایک ’’زد‘‘ بنتا ہے۔‘‘
اس ناولٹ میں جس طرح علم کا دریا کوزے میں بند کیا گیا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے اور ادیبہ کے عالی دماغ ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے، جس سے اوسط ذہنیت رکھنے والے ادیب اور قاری یکساں خائف رہتے ہیں کہ کہیں غلطی سے عقل کی کوئی بات دماغ سے چپک نہ جائے۔ پاکستان میں اوسط درجے کے ادیبوں نے اوسط درجے ہی کے قارئین پیدا کیے اور اُن کا اعلا ادبی مزاج نہ بننے دیا۔
دوسری طرف یہ بات بھی ہے کہ اعلا ترین ادبی تخلیق تو دنیا بھر میں ہر زبان کے ادب میں نایاب اور کم یاب ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح تو اچھی چیز کی پہچان او رقدر پیدا ہوتی ہے قاری کے دل و دماغ میں۔ پارسی زبان یعنی اینگلو انڈین زبان کیا خوب مزا دیتی ہے۔ اس ناولٹ میں انسان ہمیشہ سے تنوع پسند رہا ہے او راُس کی یہی تلاش اُسے جگہ جگہ جانے اور نیا سے نیا پڑھنے پر مجبور کرتی ہے۔ مشرقی ماحول میں پروان چڑھنے والی لڑکی کے سامنے شادی سے پہلے مرد کو خوف ناک ترین مخلوق بنا کر پیش کیا جاتا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ اُس سے یہ بھی توقع رکھی جاتی ہے کہ پہلی رات ہی وہ اپنے خاوند کا دل جیت لے گی! اس دو عملی اور منافقت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ لڑکی سے عورت بن جانے والی اپنی سابقہ تربیت کے باعث، خاوند پر ہاتھ تو نہیں اُٹھا سکتی، مگر زبان ساری زندگی چلاتی ہے۔ وہاں اُسے تمام اسابق بھول جاتے ہیں، اور وہ صرف اور صرف ایک بیوی ہوتی ہے جو دو چار بچوں کی ماں بن کر مزید طاقت ور ہوجاتی ہے او رمرد یعنی اپنے خاوند کے خلاف کسی نہ کسی بہانے سے عدمِ اعتماد کی قرارداد پیش کرتی رہتی ہے، یا اُسے ڈراوے اور اپنے کلاوے میں رکھتی ہے۔
’’ڈھلی ہوئی چاندنی میں اُس کی نظر فٹ پاتھ پر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ایک بلی پر پڑی۔ اُسے وہ بلی یاد آئی جس سے امی کو شدید نفرت تھی اور جسے وہ مہینے دو مہینے بعد تھیلے میں بند کروا کے کہیں دور پھنکوا دیتیں، لیکن چند دنوں میں وہ پھر آ موجود ہوتی۔ تب پرویز نے کہا تھا: ’’آپ فکر نہ کریں چچی اب یہ گھر کا راستہ کبھی نہیں ڈھونڈ پائے گی۔‘‘ پھر وہ اُس کے گلے میں مقناطیس کا چھوٹا سا ٹکڑا باندھ کر اُسے کہیں چھوڑ آیا تھا۔ اُس کا کہنا تھا کہ بلی کے گلے میں مقناطیس کا ٹکڑا بندھا ہو، تو وہ ان زیرِ زمین مقناطیس روؤں کو پہچا ن نہیں پاتی جن کی اُنگلی تھام کر وہ اپنے گھر پہنچ جاتی ہے۔ برجیس نے اُس بلی کا ہفتوں انتظار کیا تھا لیکن وہ واقعی پھر نہیں آئی تھی۔‘‘
اس ناولٹ میں ہمیں قرۃ العین حیدر کا دوسرا جنم زاہدہ حنا کی صورت میں نظر آتا ہے۔ ہر لحاظ سے روایت شکن روایات کے بھرپور تذکرے کے ساتھ، بہت کم خواتین نے مردوں کی طرح دھڑلے سے اُردو ادب لکھا اور قاری کو صنفی امتیاز کے بومرنگ سے بچایا۔ اس ناولٹ میں اعلا نثری ٹکڑے تو ہیں ہی، ساتھ ہی ساتھ ایسے جملے بھی ہمیں آگے بڑھنے نہیں دیتے۔
’’وقت، تاریخ کا نیپکن زانو پر بچھائے بیٹھا تھا۔ قوموں اور گروہوں کا سوپ پی رہا تھا۔ جغرافیہ کو اپنے تیز دانتوں سے بھنبھوڑ رہا تھا۔‘‘
مسٹر اینڈ مسز کاؤس جی، برجیس کے ساتھ اُس کے چچا کے چھوڑے ہوئے گھر میں جاتے ہیں۔ اُس کے دو اٹیچی کیس لینے جو وہ بھاری وزن کے باعث امانتاً وہاں رکھوا آئی تھی۔ اُس کے چچا اور اُن کی فیملی وہاں سے کہاں چلی گئی، کچھ پتا نہیں چلتا۔ گھر واپسی پر آخری حل کے طور پر کاؤس جی برجیس کے رشتہ داروں کی تلاش میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ اور ’’ڈان‘‘ میں اشتہار دے دیتے ہیں۔ اشتہار کا مضمون ہے ’’پٹنہ کے مرحوم جج داور علی خان کی بیٹی برجیس کراچی پہنچ چکی ہیں۔ اُن کے رشتہ دار درجِ ذیل فون یا پتے پر رابطہ کریں۔‘‘
برجیس جو بہ امرِ مجبوری کاؤس جی کے گھر میں رہ رہی ہے، اُس کا بدن تو کراچی میں ہے مگر روح ہندوستان ہی میں ہے۔ اُسے تنہائی میں اپنی پرانی یادیں آ آ کر تڑپاتی ہیں۔ ایسے عالم میں اُسے یاد آتا ہے۔
’’چچا نجم الہدیٰ جو گھر میں نجو کہلاتے اور جن کی بھاوجیں انھیں نجو نچیلا، نجو بھنڈیلا کہتیں۔ بڑے بھائیوں نے انھیں اُس گھر میں قدم ہی نہیں رکھنے دیا۔ باپ اُن کے غم میں خون تھوکتے ہوئے مرگئے اور ماں دوانی ہوگئیں۔ نجو چچا گھر سے نکالے گئے، تو ابا میاں کے پاس فریاد لے کر آئے۔ ابا میاں کے لیے اُنھیں اُن کے آبائی گھر میں آباد کرانا ممکن نہ تھا۔ انھوں نے گھر کے پچھواڑے باڑی کے ساتھ ایک کمرا بنوا دیا۔ نجو چچا برسوں سے اُس میں رہتے تھے۔ اُن کی ماں جو دوانی دادی کہلاتیں، کبھی اُن کی ذہنی رو درست ہوتی، تو ملیدہ بنا کر رکابی آنچل سے چھپا کر لے آتیں۔ انھیں نوالے بنا بنا کر کھلاتی جاتیں اور گنگناتی جاتیں ’میا پیاری آئی ہے، ملیدہ لے کے آئی ہے، آئی ہے بھئی آئی ہے‘ نجو چچا کُرتے کے دامن سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے اور ملیدہ کھاتے جاتے۔‘‘
یہ کہنے کو ناولٹ کا ایک ٹکڑا ہے مگر دل کو مُٹھی میں لے کر کھینچ دینے والا ظالم پیرا ہے۔ ماں کے لیے بچہ، بچہ ہی رہتا ہے…… چاہے اُس کی عمر کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو۔ جس کی بھاوجیں اُس کے آوارہ مزاج اور فلمی دنیا سے تعلق رکھنے کے باعث اُس کے نام بگاڑ بگاڑ کر رکھتی ہیں۔ وہیں اُس کی پاگل ماں ہوش میں آتے ہی اُس کے لیے ’’ملیدہ‘‘ بنا کر لاتی ہے۔
یہ ناولٹ انتہائی خوب صورتی او رمہارت کے ساتھ ہندوستان، پاکستان کے درمیان اور ہزاروں سالہ تاریخ اور مذہبی روایات کے درمیان متحرک رہتا ہے۔ پارسی خاندان اور پارسی پس منظر اس ناولٹ کو منفرد ترین مقام عطا کر دیتا ہے۔ اس ناولٹ میں رُلا دینے والے مقامات ایک سے زیادہ ہیں، جہاں سے گزرنا اور جہاں رُکنا قاری کے لیے ایک جیسا مشکل ہوجاتا ہے، جس طرح ناولٹ ’’یا خدا‘‘ دونوں اطراف کی ہجرت کا نوحہ تھا، اُسی طرح یہ ناولٹ بھی انسان کی انسان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کا ایک ادبی اظہار ہے۔ رشتہ وہی ہے جسے آپ کا دل یا کسی کا دل تسلیم کرے۔ یہ دو طرفہ معاملہ ہے، یک طرفہ ہرگز نہیں۔ بین السطور اس ناولٹ میں بھی ماں کا لازوال کردار کارفرما ہے، جو محبت ہی محبت ہے۔ جوخود بھی روتی ہے اور دوسروں کو بھی رُلا دیتی ہے کہ اُس کا خمیر محبت ہی سے اُٹھا ہے۔
’’دخمہ اب سامنے تھا۔ ممی پتھر کے چبوترے پر رکھی گئیں۔ آخری سگ دید ہوئی پھر اُن کا چہرہ ڈھک دیا گیا۔ منوچہر کے سینے میں درد نے کروٹ لی۔ یہ صورت اب کبھی نظر نہیں آئے گی۔ لسنی سالار اُنھیں پھر سے لے چلے، دخمے کا دروازہ کھلا۔ اب وہ لوہے کی سلاخوں پر آرام کریں گی۔ عمر انھوں نے انتظار کے کانٹوں پر بسر کی۔ منوچہر نے سر اُٹھا کر شفاف نیلے آسمان کو دیکھا۔ بلندی پر گدھ منڈلا رہے تھے۔ کچھ پیڑوں پر بیٹھے تھے اور کچھ دخمے کی منڈیر پر، گدھ سے زیادہ تیز نظامِ ہضم دنیا کی کسی مخلوق کا نہیں …… سفاک آنکھیں اپنے شکار کو تکتی ہوئی…… نگاہوں میں تولتی ہوئی۔ سُنا ہے یہ سب سے پہلے آنکھوں پر گرتے ہیں…… لمحے بھر میں انھیں نوچ لیتے ہیں۔ منوچہر کو جھرجھری آئی۔ ممی کی آنکھوں کے سب خواب وقت اپنے پنجوں میں نوچ کر لے گیا تھا اور ویران آنکھیں اب مردار خور پرندے کے حوالے تھیں۔‘‘
ایسی تحریر لکھنے کے لیے پتھر کا دل چاہیے تھا جو زاہدہ حنا کہاں سے لائی ہے…… مجھے اس بات نے اپنی جگہ حیرت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کوئی ریکارڈ، کوئی تحریرحرفِ آخر نہیں ہوتی، مگر ’’نہ جنوں رہا نہ پری رہی‘‘ کے بارے میں وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ اُردو ادب کے قابلِ قدر سرمایے کی حیثیت رکھتا ہے۔اس ناولٹ کا اُسلوب تاریخی بھی ہے اور تحقیقی بھی۔ زبان و بیاں کی لذت بھی ہے اور حقیقت نگاری بھی۔ یہ قاری کی توقعات پوری بھی کرتا ہے اور اُسے حیرت زدہ بھی۔ زاہدہ حنا نے اپنا تمام علمی تجربہ اس پر صرف کر دیا ہے، جس نے اس ناولٹ کو ایک بیش بہا موتی کی شان عطا کر دی ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔