تھیلی سمیا (Thalassemia) خون کی ایک ایسی بیماری ہے، جس کے شکار افراد کی ساری زندگی اس مرض کا مقابلہ کرتے اور زندگی بھر زندگی کے لیے ترستے گزرتی جاتی ہے۔
اِس مرض میں مبتلا بچوں کی تکلیف اور اُن کے والدین کی اذیت کو ہم سمجھ ہی نہیں سکتے۔ یہ بچے حسبِ معمول زندگی نہیں گزار سکتے، نہ تو اچھی طرح پڑھ پاتے ہیں اور نہ دوستوں کے ساتھ کھیل ہی سکتے ہیں۔ کیوں کہ خون کی کمی سے اُن کا دماغ وقتاً فوقتاً تھوڑا سا سست ہوجاتا ہے اور ہر تین تا چار ہفتوں میں انھیں خون لگوانے کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے۔ اس دوران میں سکول سے ناغہ کرنا پڑتا ہے…… اور انھیں کئی دوسرے عارضوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ اس طرح زندگی نہ صرف ان کے لیے بلکہ ان کے اپنوں کے لیے بھی بوجھ بن جاتی ہے۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
ماہرینِ صحت کے مطابق تھیلی سمیا کی دو اقسام ہیں: تھیلی سیمیا مائنر اور تھیلی سیمیا میجر۔
تھیلی سیمیا مائنر میں خون کے سرخ سیل کچھ کم ہوتے ہیں، لیکن تھیلی سیمیا میجرمیں یہ انتہائی کم ہوتے ہیں اور اور مستقل کم ہوتے جاتے ہیں، جس پر تھیلی سیمیا میجر کے مریضوں کو تقریباً ہر ماہ خون لگوانا پڑتا ہے…… اور خون لگنے پر ہی ان کی زندگی کا انحصار ہوتاہے۔
خون کے سرخ خلیات میں ہیموگلوبن نامی پروٹین ہوتا ہے جس میں آئرن (Iron) پگمنٹ ہوتا ہے، جو آکسیجن جذب کرتے ہوئے آکسی ہیمو گلوبن بن جاتا ہے اور جسم کے ہر حصے تک، ہر ٹشو تک آکسیجن اور توانائی پہنچاتا ہے۔ کسی مخصوص وجہ سے اگر جسمانی نظام ہیمو گلوبن بنانے سے قاصر ہو،تو یہ عارضہ لاحق ہوتا ہے۔
ماہرینِ صحت کے مطابق اگر ماں اور باپ دونوں تھیلی سیمیا مائنر ہیں، تو بچوں میں تھیلی سیمیا میجرکے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ تھیلی سیمیا کا مرض ایک مخصوص جین (Gene) کے ذریعے بچے میں منتقل ہوتا ہے۔ جین جوڑے میں ہوتے ہیں، جو ایک ماں سے ایک آتا ہے اور ایک باپ سے۔ اگر دونوں میں ناقص جین ہوں، تو بذاتِ خود تو وہ عام اور نارمل زندگی گزارتے ہیں، لیکن حد درجہ ممکن ہے کہ بچہ اس عارضے سے متاثر ہوجائے۔ اس طرح تھیلی سیمیا کی بیماری والدین سے بچوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔ متاثرہ بچہ پیدایش کے وقت بظاہر نارمل ہوتا ہے، لیکن چھے ماہ تا دو برس کی عمر میں ڈاکٹر مرض کی شناخت کرسکتے ہیں۔
اس موذی مرض کے شکار ایک بچے کے علاج کا ماہانہ خرچ تقریباً دس ہزارروپے سے زائد ہوتا ہے، جو غریب والدین کے علاوہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے بھی انتہائی مشکل اور ناقابلِ برداشت ہوتا ہے، جب کہ اس بیماری کا مفت علاج کرنے والے سماجی ادارے بھی فنڈز کی کمی کا شکار رہتے ہیں جس کے باعث اکثرغریب بچوں کو مکمل علاج کی سہولت میسر نہیں ہوپاتی اور ان بچوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں…… لیکن تھیلی سیمیا میں مبتلا بچے ہر لمحہ زندگی کے لیے ترستے ہیں اور ہماری توجہ کے طالب رہتے ہیں۔ ہمیں ان ننھے پھولوں کو مایوس نہیں کرنا چاہیے۔ ان کے نازک سے بازوؤں میں سوئیاں پیوست ہوتی ہیں اور ان کے نادار والدین در در دھکے کھانے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کسی طرح ان کی اولاد کی زندگی بچ جائے۔ اس طرح یہ دردمند افراد ہماری مدد کے منتظر رہتے ہیں۔
انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو ان کی تکلیف محسوس کرنی چاہیے۔ ہمیں خون کے عطیات دے کر ان کی زندگی بچانی چاہیے۔
طبی ماہرین کا کہناہے کہ ہر تن درست انسان کو سال میں کم از کم دو بار خون کا عطیہ د ینا چاہیے۔ اس سے صحت پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے، بلکہ خون کا عطیہ دینے والے افراد صحت مند رہتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک میں خون کا عطیہ دینے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں صرف تقریباً 4 تا 5 فی صد ایسے افراد ہیں جوکہ رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ دیتے ہیں اور دیگر افراد حادثات یا دیگر سنگین صورتوں میں خون عطیہ کرتے ہیں۔ ہر وہ شخص جس کی عمر 18 تا 50 سال اور وزن تقریباً 50 کلو سے زائد ہو، وہ خون کا عطیہ دے سکتا ہے۔
خون کے عطیے کے علاوہ مالی تعاون سے ان بچوں کو ادویہ اورخون کی فراہمی ممکن ہوسکتی ہے۔ ہمیں مشکلات اور مالی مسائل کا شکاران افراد کی خصوصی مدد اور معاونت کرنی چاہیے۔ کیوں کہ تھیلی سیمیا کے مرض میں مہنگے علاج سے جسم میں آئرن کی مقدار کو نارمل سطح پر لانا ہوتا ہے۔ ہرماہ نیا خون لگوانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ باقاعدگی سے میڈیکل ٹیسٹ کروانا ہوتے ہیں۔ اس طرح متاثرہ بچے اور اس کے گھر والے عام طرزِ زندگی گزارنے سے محروم رہتے ہیں۔ ہمیں ان کا دکھ بانٹنا چاہیے، انھیں خون کے عطیات دینے چاہئیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔