ابھی پشاور پولیس لائن میں شہید ہونے والے پولیس اہل کاروں کی قبروں کی مٹی سوکھی بھی نہیں تھی کہ سوات میں عید کے دوران ہی میں خون کی ہولی کھیلی گئی، جس میں پولیس کے ساتھ ساتھ معصوم بچے اور خواتین بھی جان کی بازی ہار گئے۔ ڈھیر سارے زخمی اب بھی زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایسے میں جب سوات کے عوام سوگ اور شدتِ غم سے نڈھال ہیں، حکومتی اور سیکورٹی بیانات نے ان کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کیا ہے۔ ان بیانات کے مطابق ’’کبل واقعے میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے شواہد نہیں ملے، بلکہ یہ دھماکے شارٹ سرکٹ کے باعث ذخیرہ شدہ پرانے بارود اور ہتھیاروں میں آگ لگنے کے سبب ہوئے۔‘‘
جاوید احمد کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/javed-ahmad-khan/
حالاں کہ عینی شاہدین اور عمارت کی حدود اربعہ جاننے والے بہت سے پولیس اہل کار اس دعوے کی نفی کرتے ہیں…… اور خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ واقعہ حادثہ نہیں، بلکہ اس کے تانے بانے دہشت گردوں اور ان کے ’’سہولت کاروں‘‘ سے جا ملتے ہیں۔
عوام کھلم کھلا اس سانحے کی ذمے داری سیکورٹی ایجنسیوں پر ڈال رہے ہیں۔ نجی محفلوں، سرکاری دفاتر، ٹھیلے والے، عام شہری اور سوشل میڈیا پر عوام اسے پشتون بلٹ میں ڈالر کی خاطر دہشت گردی کی نئی لہر دوڑانا قرار دے رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، جوانوں اور بزرگوں کو غیر قانونی طور پر تحویل میں لینا، اِغوا اور جبری گم شدگی جیسے واقعات سے عوام تنگ آچکے ہیں اور اب کھل کر اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ اس کا منھ بولتا ثبوت گذشتہ کئی دنوں سے لاکھوں عوام کا احتجاجی مظاہروں میں شمولیت ہے اور ان مظاہروں میں ہر طبقے کے لوگ شرکت کررہے ہیں۔ یہ احتجاج کسی ایک پارٹی یا گروپ تک محدود نہیں۔ ایسا پہلی دفعہ ہورہا ہے کہ ہر خاص و عام، امیر غریب ایک ہی نعرہ لگا رہا ہے کہ اُسے اپنی زمیں پر امن چاہیے۔ پشتونوں میں اتفاق کی ایسی مثال شاید تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو مل رہی ہے۔
عوامی غصے میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے اور احتجاجی مظاہرے بھی تسلسل سے جاری ہیں۔ سیکورٹی اداروں کے غیر مناسب رویے اور حالیہ دھماکوں کی تحقیقات میں دلچسپی نہ لینے اور عوامی غیظ و غضب کو نہ پرکھنے اور حالات کی نزاکت کو نہ سمجھنے سے حالات تیزی سے خرابی کی طرف گام زن ہیں۔
کانجو چوک میں ہزاروں لوگوں کے اجتماع نے سیکورٹی اداروں کو خیبر پختون خوا میں بالعموم اور سوات میں بالخصوص شدت پسندی کے واقعات کا ذمے دار ٹھہرایا۔ مظاہرین یہ بھی سوال اُٹھا رہے ہیں کہ کرم ایجنسی میں 8 اساتذہ کیسے شہید ہوئے؟ کیا وہاں بھی کسی ’’شارٹ سرکٹ‘‘ کا مسئلہ تھا……؟
کانجو چوک میں مظاہرین نے کبل سانحہ کو ’’شارٹ سرکٹ‘‘ کی بجائے ’’سرکٹ ہاؤس‘‘ سے جوڑتے ہوئے نعرے بازی کی۔
واضح رہے کہ کانجو چوک ’’فوجی چھاونی‘‘ اور ’’سرکٹ ہاؤس‘‘ سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔ اگر ہمارے سیکورٹی اداروں نے حالات کی نزاکت کو نہیں سمجھا، تو یہ بپھرے ہوئے عوام بہت جلد سیلاب کی شکل اختیار کرنے والے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ یہ ملک چلانے والی اصل طاقتیں حالات کی نزاکت کو سمجھیں۔ کیوں کہ عوام اب تنگ آچکے ہیں۔ آخر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ عوام فی الحال صرف امن چاہتے ہیں۔ انھیں امن دینے کے لیے ’’سٹریٹجی‘‘ کو بدلنا ہوگا…… کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے اور پھر کفِ افسوس ملنے کے سوا کچھ باقی نہ ہو!
قارئین! اس شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔