نیتا امبانی اور سبین محمود، فرق صاف واضح ہے

انڈیا میں نیتا امبانی نے ایک کلچرل سینٹر کا آغاز کیا ہے، جس کی اشتہار بازی انسٹاگرام پر بھرپور طریقے سے ہوئی۔ سینٹر اتنا جدید اور خوب صورت بنایا ہے کہ اپنی مثال آپ ہے۔
نیتا چھے سال کی عمر سے ’’بھرت ناٹیم‘‘ (Bharatnatyam) کرتی آرہی ہیں…… اور انڈیا کی ثقافت اور آرٹ کو محفوظ رکھنے کے لیے یہ سینٹر بنانا ان کا ایک خواب تھا۔ یقینا انڈیا کے وزیرِ اعظم کا بھی سپورٹ ہے اُن کے ساتھ۔
نیتا کا کلچرل سینٹر دیکھ کر مجھے سبین محمود کے کراچی میں موجود سینٹر ’’ٹی ٹو ایف‘‘ (T2f) کی یاد آگئی۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
سبین کا ٹی ٹو ایف، نیتا کے بنائے ہوئے عظیم الشان سینٹر کی مانند تو نہیں تھا، لیکن پاکستان جیسے گھٹن زدہ اور تھکے ہوئے ملک میں فن کاروں اور نوجوانوں کے لیے ایک اُمید کی کرن ضرور تھا۔ سائنس کا اڈا اور فرار گیلری جیسے تخلیق کاری سے بھرپور گوشے نوجوانوں کے لیے اپنے خیالات، ٹیلنٹ اور شخصیت کے اظہار کا بہترین ذریعہ تھے۔ ہمارے یہاں بچوں کے پاس کوئی جگہ (Space) نہیں، جہاں وہ اپنی سوچ اور تخلیق کاری کا اظہار کرسکیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے ٹین ایجر گم شدہ اور بھٹکے ہوئے ہیں۔
مجھے جب بھی موقع ملتا اکیلے وقت گزارنے کا یا پھر دوستوں سے کہیں باہر ملنے کا، تو میری اولین ترجیح یہی سینٹر ہوتا تھا۔ کیوں کہ شاید پاکستان کا وہ رُخ جو مَیں دیکھنا چاہتی تھی…… وہ صرف اسی سینٹر میں دیکھنے کو ملتا تھا۔
سبین محمود کو کسی نے 2015ء میں ٹارگٹ کلنگ میں مار دیا۔ مختلف تنظیموں اور حکومتی اداروں پر الزام آتا ہے کہ شاید اُنھوں نے اُسے ٹارگٹ کیا۔ کیوں کہ سبین نے بلوچستان میں موجودہ حالات کے متعلق کوئی سیمینار رکھا تھا۔
اصل وجہ کوئی نہیں جانتا، لیکن یہ بات تو طے ہے کہ پاکستان ٹیلنٹ کا قبرستان ہے۔ شاید سبین کو سیاست سے دور رہنا چاہیے تھا۔
حکومتی ادارے اور ملٹری پاکستان میں اِس وقت سب سے بڑے پینڈولم ہیں۔ ان کے خلاف جائیں گے، تو یہ آپ کو نگل جائیں گے۔
پینڈولم ہمیشہ بہت طاقت ور ہوتے ہیں، ان سے بچ کر رہنا ہوتا ہے نہ کہ ان کو للکار کر ان سے جنگ لڑنا۔
یہ پینڈولم اپنی موت خود مرتے ہیں۔ یہ امید چھوڑ دیں کہ آپ ان کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں۔ وقت سب سے بڑا اُستاد ہوتا ہے ۔
’’سن سو‘‘ (Sun Tzu) اپنی کتاب ’’جنگ کا فن‘‘ (The Art of War) میں کہتا ہے کہ جب طاقت ور ہو، تو کم زور نظر آؤ اور کم زور ہو تو طاقت ور نظر آؤ……!
مطلب یہ کہ سبین ایک بہت طاقت ور کام کررہی تھیں، انھیں کم زور نظر آنا چاہیے تھا۔ یوں ہم دشمن کی توجہ اپنی جانب متوجہ نہیں کرتے۔ ہم دشمن کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہوتے ہیں کم زور نظر آکر…… اور دشمن اس نشے میں دھت رہتا ہے کہ وہ طاقت ور ہے اور ہم اس کے آگے ہار مانے ہوئے ہیں (یہ میرا خیال ہے، ضروری نہیں کہ درست بھی ہو۔)
نیتا کا کلچرل سینٹر اور اُن کے دیکھا دیکھی باقی کے امرا بھی اس میدان میں سرگرم ہوں گے۔ یقینا یہ سب انڈیا کے فن کاروں کے لیے بہتر ہے۔
اگر آپ نے بھی سبین کی طرح اس قسم کی کوئی اسپیس بنانے کا سوچا ہے، جہاں آپ اور آپ کے دوست اپنے خیالات کا اظہار کریں گے، تو کوشش کریں کہ حکومتی اداروں اور ملٹری سے فاصلہ بنائے رکھیں۔ سیاہ اور سفید میں معاملات کو تقسیم کرنا چھوڑ دیں اور کوشش کریں کہ درمیانہ راستہ نکالیں یا پھر تیسرے دروازے (Third Door) کا استعمال کریں۔ تیسرے دروازے پر بھر کبھی بات ہوگی!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے