آج کل سوشل میڈیا پر بالخصوص اور الیکٹرانک میڈیا پر بالعموم ایسی ’’ایپس‘‘ متعارف کروائی جا رہی ہیں جن کے ذریعے آپ چند منٹوں میں ایک لاکھ روپے تک کا قرضہ حاصل کرسکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کو اس کے لیے کوئی ڈاکومنٹیشن کرنا پڑتی ہے، نہ ضمانتی دینے پڑتے ہیں۔ آپ خود ہی اپنے ضامن ہوتے ہیں۔ آپ ویب سائٹ پر جا کر ممبر شپ حاصل کیجیے۔ اپنے متعلق آسان سی معلومات مہیا کیجیے۔ رقم جھٹ پٹ آپ کے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی جاتی ہے…… اور بقول قرض خواہ کے آپ کو اس رقم پر روزانہ کے حساب سے ’’معمولی سا منافع‘‘ یعنی سود ادا کرنا پڑے گا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
آئیے، پہلے اس معمولی سے منافع کا جائزہ لیتے ہوئے ان لوگوں کے طریقۂ کار کو محترم حاشر ابنِ ارشاد کے شکریے کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
’’سوشل میڈیا پر ان دنوں کثرت سے متعدد آن لائن ایپ کے اشتہارات دکھائی دیتے ہیں…… جو لوگوں کو ’’آسان‘‘ قرضے فراہم کرتی ہیں۔ اگر آپ فائن پرنٹ میں دیکھیں، تو معلوم ہوگا کہ اوسط شرحِ سود 0.8 فی صد روزانہ ہے۔ اب اس کا مطلب کیا ہے؟
ایک سادہ لوح آدمی کو یہ شرحِ سود بہت کم لگے گی…… لیکن یہ ایک ٹریپ ہے۔ یاد رکھیے کہ مالیات کی دنیا میں شرحِ سود ہمیشہ سالانہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی ماہانہ یا روزانہ کی بنیاد پر شرحِ سود بتا رہا ہے، تو اصل شرحِ سود دکھائی دینے والی شرح سود سے بہت زیادہ ہوگی۔
زیادہ پیچیدگی میں جائے بغیر اس وقت عام بینک سالانہ کنزیومر لون پر کوئی 25 فی صد کے قریب شرحِ سود رکھے ہوئے ہیں۔ چوں کہ کمپاؤنڈنگ روزانہ کی بنیاد پر ہے، اس لیے اصل میں آپ کو سال میں کوئی 28 فی صد سود دینا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ نے ایک لاکھ قرضہ لیا، تو سال بعد آپ 128,000 روپے بینک کو دینے کے پابند ہوں گے۔
اب اس کے مقابلے میں اس ’’آسان‘‘ قرضہ سکیم پر نظر ڈالیے۔ اگر روزانہ کا سود الگ لگایا جائے، تو ایک لاکھ روپے کے بدلے 0.8 فی صد کا مطلب ہے روز کے 800 روپے اور سال بھر میں صرف سود کی مد میں رقم 292,000 بن جائے گی، یعنی اصل زر ایک لاکھ ملا کر ایک سال بعد ادا کی جانے والی رقم 392,000 ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سود کی حقیقی شرح 292 فی صد ہے۔
اگر واقعی کسی ’’خوش قسمت‘‘ کو 0.3 فی صد پر بھی قرضہ ملے، تو بھی افیکٹو شرحِ سود 109 فی صد ہوگی…… یعنی سال بعد ایک لاکھ کے بدلے 2 لاکھ 9 ہزار کی واپسی کرنا ہو گی۔
اور کہیں 0.8 فی صد روزانہ پر سودِ مرکب لگے، تو پھر آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ سود کہاں جائے گا؟
سودِ مرکب کا فارمولا یہ کہتا ہے کہ یہ شرح 1732 فی صد ہو جائے گی۔ اس لیے ہم اِسے ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ گرچہ کم مدتی قرضوں پر بعید نہیں کہ یہ شرح لگا کر سود وصول کیا جائے…… یعنی ایک روپے پر سالانہ 1732 روپے……! اور ایک لاکھ قرض لے کر آپ کے ذمے سال کے آخر میں جو رقم واجب الادا ہو گی وہ 17 کروڑ 32 لاکھ روپے بن جائے گی۔
سو مختصر موازنہ یہ رہا:
٭ بینک کی سالانہ شرحِ سود 25 فی صد۔
٭ بینک کی افیکٹو شرحِ سود 28 فی صد۔
٭ ایپ کی روزانہ شرحِ سود 0.8 فی صد۔
٭ ایپ کی افیکٹو شرحِ سود سالانہ 292 فی صد۔
ان ’’ایپس‘‘ کی ترغیبات سے بظاہر تو لگتا ہے کہ ہم انھیں لوٹ رہے ہیں، لیکن ان کا شکار ہونے والے بتاتے ہیں کہ جو ایک بار ان کے چنگل میں پھنس جائیں، وہ زندگی بھر اس سے نکل نہیں پاتے۔ گویا یہ جدید دور کے بنیے ہیں، جو اپنے شکار کو ڈھیل تو دیتے رہتے ہیں، مگر رسی کو اتنا دراز کبھی نہیں کرتے کہ شکار ان کی دست رس سے دور نکل جائے۔ ان کی ڈھیل شکار کی آسانی کے لیے نہیں بلکہ جال کی مزید مضبوطی کے لیے ہوتی ہے، جس میں انھوں نے شکار کو جکڑا ہوتا ہے۔ لوگوں نے اپنی کُل جائیدادیں بیچ کر تمام جمع پونجی ان لوگوں کے حوالے کر دی، مگر پھر بھی ان کے قرض کی پوری ادائی نہ کرسکے۔ کچھ تو تنگ آ کر خودکشی جیسا انتہائی قدم بھی اُٹھا بیٹھے۔ اسی لیے تو سُود کو حرام ہی قرار نہیں دیا گیا بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جنگ کہا گیا ہے۔
یاد رکھیے! قناعت پسندی زندگی گزارنے کا سنہرا اصول ہے۔ جتنی چادر ہو، اتنے ہی پاؤں پھیلائیں۔ اپنی آمدنی میں گزارا کرنا سیکھیں۔ خواہشات اور تعیشات کو ضروریات مت بنائیں۔ کوشش کریں کہ اپنی آمدنی کا 15 سے 20 فی صد ہر ماہ بچا کر رکھتے جائیں، تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ اپنے اندر قربانی دینے کا جذبہ پیدا کریں۔ ترجیحات کی فہرست بنایا کریں۔ فوری ضروریات کو فوقیت دیں۔ دیگر ضروریات فوری طور پر پوری نہ ہوں، تو صبر سے کام لیں۔ حتی الوسع کوشش کریں کہ کسی سے قرض مانگنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ تاہم قرض لینا ناگزیر ہو جائے، تو کسی رشتہ دار یا جاننے والے سے قرض لینے کی کوشش کریں اور مقررہ مدت میں ادائی کا بندوبست کریں۔ کچھ بھی ہو جائے، سودخور ’’ایپس‘‘ کے قریب بھی مت جائیں۔ ورنہ یہ لوگ ایسی امربیل ثابت ہوں گے جو آپ کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیں گے۔
ہوشیار رہیے…… ان ’’آسان قرضوں‘‘ کے جال میں مت پھنسیے……!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔