سردار تنویر الیاس کی ناکامی کی وجہ

آزاد کشمیر کے سابق وزیرِ اعظم سردار تنویر الیاس کو توہینِ عدالت کی پاداش میں ہائی کورٹ نے گذشتہ ہفتے نااہل کردیا۔ خطے کی تاریخ میں یہ ایک غیرمعمولی عدالتی فیصلہ ہے۔
تنویر الیاس نے حالیہ دنوں میں متعدد مرتبہ عدلیہ بارے تضحیک آمیزتبصرے کیے تھے۔ الزام لگایا تھا کہ عدلیہ حکومت کے روزمرہ کے معاملات میں روڑے اٹکاتی ہے۔ نیز اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ چند ہفتوں میں عدالتوں کو ’’ٹھیک‘‘ کریں گے، بلکہ وہ ججوں کا ’’دھواں‘‘ نکالیں گے۔
ارشاد محمود کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/irshad-mehmood/
بے جا خود اعتمادی کے شکار تنویر الیاس بھول گئے تھے کہ معزز جج حضرات پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنی کے ملازم نہیں کہ جب چاہا محفل سے اُٹھا دیا۔ دل سے اُتار دیا۔ چناں چہ عدالت نے انھیں سیاست کے کھیل سے مکھن کے بال کی طرح نکال باہر کیا۔ ایسا سلوک ان کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا۔ اگرچہ عدالت کے اس طرزِ عمل کی ان کے مخالف سیاسی حلقوں نے بھی ستایش نہیں کی، لیکن جو نقصان ہونا تھا، ہوگیا۔
سیاست میں تنویر الیاس کے سبک رفتار عروج کا سبب ان کے خاندان کی بے پناہ دولت، پاکستانی اشرافیہ بالخصوص سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ساتھ دوستانہ اور کاروباری مراسم بتایاجاتا ہے۔ اُن کے خاندان کی معاشی خوش حالی کا آغاز 90ء کی دہائی میں ہوتاہے۔
تنویر الیاس کے والد سردار الیاس خان نے ایک غریب گھرانے میں جنم لیا۔ محنت اور کاروباری دانش کی بدولت سعودی عرب میں ان کے لیے کامیابی کے در چوپٹ کھلتے گئے۔ دولت ہن کی طرح چاروں طرف سے برسی۔ نوجوان تنویر الیاس نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں بنگوئیں میں حاصل کی۔ چند برس تک ارجہ کے ایک مدرسے میں بھی زیرِ تعلیم رہے، لیکن جلد مدرسہ چھوڑ کر اسلام آباد چلے آئے۔
تنویر الیاس کے چچا سردار صغیر خان زمانۂ طالب علمی میں پیپلزاسٹوڈنٹس فیڈریشن سے وابستہ تھے۔ بعدازاں سردار خالد ابراہیم خان کی جموں و کشمیر پیپلزپارٹی سے منسلک ہوگئے۔ 90ء کی دہائی میں بے نظیر بھٹو سے علاحدہ ہوکر سردار خالد ابراہیم نے اس نام سے ایک الگ جماعت بنائی تھی۔ مدتوں وہ اس جماعت کے ہم رکاب رہے۔ خاندان آسودہ حال اور وسائل کی فراوانی تھی۔ قبیلے کے بڑوں نے باہمی مشاورت سے سردار صغیر خان کو مسلم کانفرنس کے پرچم تلے الیکشن میں اُتارا۔ پونچھ کے حلقہ نمبر پانچ میں الیکشن مہم کے دوران میں انھوں نے کروڑوں روپے خرچ کیے۔ شنید ہے کہ ووٹروں میں نقد رقم بھی تقسیم کی گئی۔ اسمبلی کی نشست وہ جیت گئے۔ میرپور اور کوٹلی کے برعکس جہاں الیکشن مہم میں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، پونچھ میں الیکشن چند لاکھوں روپے میں لڑا جاتا تھا، لیکن سردار صغیر نے ووٹروں کو روپیا پیسا میں تولنے کا سلسلہ اس علاقے میں پہلی بار متعارف کرایا، جسے سردار تنویر نے عروج تک پہنچایا۔
سردار صغیر جولائی 2021ء کے الیکشن سے قبل ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے، لیکن وہ ایک شریف اور ہم درد شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ سماجی اور فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ سردار صغیر خان کا اپنا کوئی خاص کاروبار نہ تھا۔ اس کے برعکس نوجوان تنویر الیاس اسلام آباد کی آئی کونک بلڈنگ ’’سینٹورس‘‘ کے صدر بلکہ عالی نال تھے۔ دولت کی دیوی مہربان ہوئی، تو عزت اور شہرت کے حصول کے لیے ایسے سرگرداں ہوئے کہ سب کچھ داو پر لگادیا۔
سردار صغیر خان کی سیاسی کامیابی سے اُن کا یہ خیال پختہ ہواکہ سیاست پیسے کا کھیل ہے اور پیسا ان کے ہاتھوں کی میل ہے۔ انھوں نے یہ ٹھان لی کہ دولت کے بل بوتے پر وہ سیاست میں نام ہی نہیں منصب بھی حاصل کریں گے۔
اسلام آباد میں ’’سینٹورس مال‘‘ حقیقت کا روپ دھار چکا تھا۔ پرویز مشرف کے دور میں تنویر الیاس نے خیبر پختون خوا سے سینٹ کا رُکن منتخب ہونے کی کوشش کی۔ قاف لیگ سے بات پکی ہوگئی تھی، لیکن مقامی ڈومیسائل نہ ہونے کی بنا پر کاغذاتِ نام زدگی مسترد کردیے گئے، لیکن ہمت نہ ہاری۔ پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی، تو موصوف نے پی پی کی لیڈرشپ کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کیے اور ایک بار پھر کوشش کی کہ سینٹ کا ٹکٹ حاصل کیا جائے…… لیکن آصف علی زرداری آڑے آئے اور یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
جلد ہی تنویر الیاس کو احساس ہوا کہ سیاست میں نمودار ہونے کے لیے انھیں ملک کے ’’مقتدر حلقوں‘‘ کی پشت پناہی درکار ہے۔ وہی سیاسی جماعتوں میں ان کے داخلے کی راہ ہم وار کرسکتے ہیں۔
2018ء کے جنرل الیکشن کے لیے بننے والے نگران سیٹ اَپ میں انھیں پنجاب میں صوبائی وزیرِ زراعت بنایا گیا۔ انھوں نے یہ خبر ٹی وی پر سنی، تو آزردہ لہجے میں کہا کہ وفاقی وزیر کا وعدہ تھا۔ نگران وزیرکے طور پر انھوں نے لاہور میں میڈیا اور طاقت ور حلقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے سرکاری اور ذاتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ بعد ازاں وزیرِ اعلا پنجاب کے مشیر برائے سرمایہ کاری بورڈ بن گئے۔ پنجاب سے کشمیر کا سفر تنویر الیاس کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔
2020ء میں مقتدر حلقے اور پی ٹی آئی دونوں ایک صفحے پر تھے۔ وقت کے تیور بتا رہے تھے کہ اگلے دس برس تک عمران خان بلا شرکتِ غیرے پاکستان پر راج کریں گے۔ حکومت مخالف سیاست دان اور جماعتیں شکست خوردہ اور منتشر تھیں۔ ان کے سرکردہ لیڈر کرپشن کے مقدمات میں پیشیاں بھگت رہے تھے۔ آزاد کشمیر کے الیکشن جولائی 2021ء میں ہونے تھے۔ تنویرالیاس نے میڈیا کے ذریعے آزادکشمیر کی سیاست پر تبصرے کرنا شروع کردیے۔ ان کے حامی صحافیوں اور سیاسی کارکنان نے سوشل میڈیا پر مطالبہ شروع کردیا کہ وہ کشمیر کی سیاست میں حصہ لیں، تاکہ ’’نیا کشمیر‘‘ بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر کیا جاسکے۔ ان کی انتظامی صلاحیتوں کی خیرہ کن تصویر پیش کی گئی۔ ان کا امیج ایک مخلص اور اَن تھک شخص کے طور پر ابھارا گیا۔
بیرسٹر سلطان محمود2021ء سے خطے میں پی ٹی آئی کے صدر تھے۔ وہ ایک معمر روایتی سیاست دان ہیں۔ بے نظیر بھٹو نے انھیں وزارتِ عظمیٰ پر فائز کیا، لیکن وہ زیادہ دیر پی پی پی کے ساتھ وفا نہ کرسکے۔ مقتدر حلقوں کی شہ پر پی پی پی سے راہیں جدا کیں۔ پیپلز مسلم لیگ کے عنوان سے ایک جماعت کی داغ بیل ڈالی۔ آزاد کشمیر میں سیاست میں کامیابی کے لیے وفاقی جماعتوں کی بیساکھیاں درکار ہوتی ہیں۔ اس پس منظر میں بیرسٹر سلطان نے مسلم لیگ نون کی لیڈر شپ کے ساتھ پینگیں بڑھائیں، لیکن مسلم کانفرنس کی موجودگی میں وہ کسی اور کی حمایت پر تیار نہ تھے۔ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں چودھری شجاعت حسین نے پشت پناہی کا وعدہ کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے بھی پیٹھ ٹھونکی۔ طے پایا کہ 2006ء کے الیکشن میں وہ قاف لیگ اور اسٹیبلشمنٹ کے اشتراک سے آزادکشمیر کے وزیرِ اعظم بن جائیں گے، لیکن سردار عبدالقیوم خان (مرحوم) نے چند مشترکہ دوستوں کی مدد سے جنرل پرویز مشرف کو شیشے میں اُتار لیا۔
مشرف کو کشمیر پر چارنِکاتی فارمولہ کی حمایت کے لیے موثر سیاسی قوتوں کی تائید درکار تھی۔ سردار عبد القیوم خان جیسے جہاں دیدہ سیاست دان کا تعاون انھیں دست یاب ہوگیا۔ سردار عبد القیوم خان کو مشرف کا تعاون چاہیے تھا، تاکہ مظفر آباد کی کرسی پر اپنے صاحب زادے سردار عتیق احمد خان کو متمکن کرسکیں۔ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے لگے۔ الیکشن سے قبل ہی سردار عتیق خان کو وزیرِ اعظم کا پروٹوکول دیا جانے لگا۔ مسلم کانفرنس کی فتح نوشتۂ دیوار تھی۔
برسٹرسلطان کہتے ہیں کہ حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ کوئی اُن کا فون سننے کا روادار نہ تھا۔ مشکل سے چودھری شجاعت سے ایک دوست نے فون پر رابطہ کرایا۔ معذرت خواہانہ انداز میں انھوں نے کہا: ’’بیرسڑ صاحب ہم نے مسلم کانفرنس کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ مشرف صاحب کا حکم ہے۔‘‘ الیکشن میں بیرسٹر سلطان کی پیپلزمسلم لیگ بری طرح پٹ گئی۔ بعدازاں وہ پی پی پی میں دوبارہ اس امید پر شامل ہوئے کہ انھیں وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر فائز کیا جائے گا، لیکن پی پی نے انھیں وزارتِ عظمی کا ’لولی پاپ‘ دے کر پرانا بدلہ چکایا۔
چناں چہ ناراض اور ناخوش بیرسٹر سلطان محمود کے پاس پاکستان تحریکِ انصاف میں شامل ہونے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اگرچہ پنجاب، خیبر پختون خوا اور کراچی میں مقبول پارٹی تھی، لیکن آزاد کشمیر کے سیاسی منظرنامے میں جگہ نہیں بنا پا رہی تھی۔ عمران خان نے سردار خالد ابراہیم خان (مرحوم) کو پی ٹی آئی کی کشمیر میں قیادت کرنے کی درخواست کی۔ دوچار ملاقاتیں بھی ہوئیں، لیکن دونوں کی کیمسٹری نہ ملی۔
پانچ فروری 2021ء کو آزادکشمیر کے الیکشن سے محض پانچ روز قبل بیرسٹر سلطان اسلام آباد میں عمران خان کی موجودگی میں تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے۔ عمران خان اسٹیج پر نشست سنبھال چکے تھے، تو بیرسٹر سلطان نعروں کی گونج میں ہال میں ایک فاتح کی طرح داخل ہوئے۔ سارا وقت ہال بیرسٹر کے نعروں سے گونجتا رہا۔ عمران خان نے حیرت سے اپنے ایک ساتھی کے کان میں سرگوشی کی: ’’آج سے پی ٹی آئی میں میرے علاوہ ایک اور لیڈر آگیا ہے۔‘‘
آزادکشمیر کی الیکشن مہم میں بیرسٹر نے جہانگیر ترین کی مدد سے اپنی مرضی کے امیدوار کھڑے کیے۔ بھرپور الیکشن مہم چلی، لیکن بیرسٹر سلطان نہ صرف خود الیکشن ہار گئے، بلکہ آزاد کشمیر سے پی ٹی آئی کو ایک بھی نشست نہ ملی۔ عمران خان نے ایک محفل میں کہا کہ وفاق میں پی ٹی آئی کی جب حکومت ہوگی، تو کشمیر ہماری جھولی میں پکے ہوئے پھل کی مانند آگرے گا۔
آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی صدارت سنبھالنے کے بعد اگرچہ بیرسٹر سلطان عمران خان سے مسلسل ملاقاتیں کرتے رہے، لیکن دونوں کے درمیان کبھی دوستانہ تعلقات استوار نہ ہوسکے۔ بقولِ نصیر ترابی ،کیفیت کچھ یوں رہی کہ
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی
عمران خان جلسوں میں بیرسٹر سلطان کانام تک لینا گورا نہ کرتے۔ حالاں کہ بیرسٹر خون پسینا ایک کرکے کشمیر کے طول وعرض میں ان کے لیے عظیم الشان جلسے منعقد کراتے۔ خان نے کبھی دل سے بیرسٹر کو ایک لیڈر کے طور پر قبول نہ کیا۔
بیرسٹر دھڑے کی سیاست کرتے ہیں۔ وہ پارٹی کے اندر بھی دھڑا بناکر کھیلتے ہیں۔ پارٹی کے اندر جو نظریاتی یا پرانے لوگ تھے، وہ رفتہ رفتہ بیرسٹر کے خلاف متحرک ہوگئے۔ کیوں کہ وہ نظر انداز ہورہے تھے۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی، تو آزادکشمیر میں پارٹی کے نظریاتی لوگ متحرک ہوگئے۔ انھیں مرکزی پارٹی کی بھی پشت پناہی حاصل تھی۔ یوں بیرسٹر سلطان اور نظریاتی ورکروں اور لیڈروں کے درمیان زبردست خلیج پیدا ہوگئی۔ راجہ مصدق خان جو پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے، الگ دفتر لگاتے جب کہ بیرسٹر اپنی محفل ایک اور دفتر کے سبزہ زار پر سجاتے۔ اس کشمکش میں سردار تنویر الیاس ایک متبادل آپشن کے طور پر منظرِ عام پر اُبھرے۔ بیرسٹر نے خطرہ بھانپ کر انھیں قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ الیکشن نہ لڑیں، بلکہ الیکشن کے بعد صدر آزاد کشمیر بن جائیں، لیکن تنویر الیاس ہٹ کے پکے نکلے۔
بیرسٹر سلطان کے پارٹی کی مرکزی لیڈر شپ کے ساتھ بھی سازگار مراسم نہ تھے۔ اس کے برعکس وزیرِ امور کشمیر علی امین گنڈا پور کی تنویر الیاس سے گاڑھی چھنتی تھی۔ دونوں کے مشاغل اور دلچسپیاں بھی ایک جیسی تھیں۔ شب بھر مشغول رہتے اور دن بھر محوِ استراحت رہتے۔ علی امین نے بھی اپنا بوریا بستر سینٹورس میں منتقل کرلیا۔ کشمیر کے معاملات میں علی امین اسٹبلشمنٹ کے ساتھ فوکل پرسن تھے۔ تنویر الیاس نے سینٹورس میں پی ٹی آئی کی دوسری صف کی لیڈرشپ کو مدعو کرنا شروع کردیا۔ تحفے تحائف کا تبادلہ کیا جانے لگا۔ بیرسٹر سلطان محمود سے شاکی اور نئی لیڈرشپ کے متمنی لوگ ان کے گرد جمع ہونا شروع ہوگئے۔
تنویر الیاس کے پاس مالی وسائل بھی بے محابا تھے اور روپیا پیسا پانی کی طرح بہانے کا دم خم بھی۔ بتدریج بیرسٹر سلطان کے مرکزی دفتر میں لوگوں کی آمد رفت کم ہوتی گئی، جہاں وہ قہوے کی پیالی اور بسکٹوں سے مہمانوں کی تواضع کرتے۔اس کے برعکس سینٹورس میں دن رات لنگر چلتا۔ بیرسٹر سلطان محمود کے پاؤں کے نیچے سے چادر سرک رہی تھی۔ سیاست اُن کے ہاتھ سے ایسے پھسل رہی تھی جیسے ریت مٹھی سے۔ بچاو کے لیے انھوں نے کافی ہاتھ پاؤں مارے۔ کئی مرتبہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملے۔ جنرل باجوہ اپنے جاٹ بھائی بیرسٹر کی مدد بھی کرنا چاہتے تھے، لیکن کوئی پوزیشن نہیں لے پاتے تھے۔ بیرسٹر کی باجوہ کے ساتھ میٹنگوں کا جنرل فیض کے ساتھی بہت برا مناتے۔ انھوں نے کئی بار بیرسٹر کو منع کیا کہ وہ انھیں بائی پاس نہ کریں۔ کچھ نشستوں میں بات توتکار تک بھی پہنچی۔ بیرسٹر کو یقین تھا کہ جنرل فیض اور ان کے ساتھی تنویر الیاس کا ساتھ دینے پر کمر بستہ ہوچکے ہیں، لہٰذا ان کا سارا انحصار جنرل باجوہ کی حمایت پر تھا۔
الیکشن سے چند روز قبل بیرسٹر کو الیکشن مہم اور فیصلہ سازی کے سارے معاملات سے اچانک الگ تھلگ کردیا گیا۔ وزیرِ اعظم ہاؤس یا بنی گالہ میں ہونے والی نشستوں میں انھیں رسماً دعوت دی جاتی، لیکن ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ تنویر الیاس اور علی امین گنڈا پور نے پارٹی کی کمان مکمل طور پر سنبھال لی تھی۔ عمران خاں کے ساتھ ہونے والے کئی اہم اجلاسوں میں بیرسٹر سلطان کو مدعو ہی نہیں کیا گیا۔ ایک بار عذر پیش کیا گیا کہ میٹنگ صبح سویرے تھی اور بیرسٹر سے رابطہ نہ ہوسکا۔ وقت کے وزیرِ اعظم عمران خاں کے ساتھ تصویر تنویر الیاس کی سوشل میڈیا کی زینت بنتی، تو لوگوں کو مستقبل کی سَمت کا اشارہ ہوجاتا۔
گنڈا پور اور تنویرالیاس کئی الیکٹ ایبلز کو پی ٹی آئی میں شامل کرانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اُن دونوں کی بھرپور پشت پنائی کی اور اُنھیں الیکشن جیتنے کے لیے ہرممکن تعاون فراہم کیا۔ چناں چہ پی ٹی آئی کے زیادہ تر ٹکٹ ہولڈرز نے الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
تنویر الیاس نے پارٹی کی الیکشن مہم کے لیے وسائل فراہم کرنے کی ذمے داری اٹھائی۔ امیدواروں کو پارٹی نے جو فنڈز دیے ان کا بڑا حصہ تنویر الیاس نے فراہم کیا۔ میڈیا مہم کے لیے کروڑوں روپے علی امین گنڈا پور نے تنویر الیاس کی تجوری سے نکالے۔ وسطی باغ جہاں سے تنویر الیاس نے الیکشن جیتا، وہاں خزانے کا منھ کھول دیا گیا۔ بہتی گنگا میں ہر ایک نے خوب اشنان کیا۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ انھوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کے اہم عہدے داروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنے مالی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ چند ہفتے قبل جب کاروباری معاملات پر خاندان میں پھوٹ پڑی، تو ان کے والد سردار الیاس خان اور بھائیوں نے ایک پریس نوٹ میں الزام لگایا کہ ان کی رضامندی کے بغیرتنویر الیاس نے مشترکہ کاروبار سے سیاست پر 10 ارب روپے پھونک ڈالے ۔
الیکشن کے بعد خصوصی نشستوں کی تقسیم کا مرحلہ آیا، تو پی ٹی آئی کے پرانے نظریاتی لیڈروں بشمول اس کے بانی صدر راجہ مصدق خان کو پارٹی نے کوئی اہمیت نہ دی۔ حتیٰ کہ انھیں مخصوص اور کشمیر کونسل کی نشستوں پر بھی نظر انداز کردیا گیا۔ زیادہ تر مخصوص اور کشمیر کونسل کی نشستیں دولت مند افراد کو منتخب کرایا گیا یا جن کی سفارش کسی بڑی شخصیت نے کی۔ ایسے ایسے لوگ بھی کشمیر کونسل کے رکن بن گئے، جن کی شکلیں پی ٹی آئی کے کارکنان نے کبھی دیکھی بھی نہ تھیں۔
الیکشن کے بعد علی امین گنڈاپور اور جنرل فیض کی ٹیم کی کوشش تھی کہ تنویر الیاس کو وزیرِ اعظم کو منتخب کرایا جائے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو نے الیکشن مہم میں چلا چلا کر الزام لگایا تھا کہ عمران خاں نے کشمیر میں پارٹی ایک اے ٹی ایم مشین کو بیچ ڈالی ہے۔ عمران خاں نہیں چاہتے تھے کہ مخالفین تنویر الیاس سے رقم بٹورنے کا ان پر الزام لگائیں۔ انھوں نے بڑی مشکل سے انھی دنوں جہانگیر ترین سے جان چھڑائی تھی۔
جنرل باجوہ نے بیرسٹر سلطان کی سفارش ضرور کی، لیکن جنرل فیض کو وہ ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ بیرسٹر سلطان اور تنویر الیاس کے درمیان جاری کشمکش میں قرعہ سردار عبدالقیوم خان نیازی کے نام نکلا۔ پونچھ کے ایک سرحدی علاقے کے باسی اس سیاست دان کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ ایک دن وہ بھی وزیرِ اعظم منتخب ہوسکتے ہیں۔ نیازی 9 ماہ کے لگ بھگ وزیرِ اعظم کی کرسی پر فائز رہے۔ تنویر الیاس نے ان کی ایک نہ چلنے دی۔ حکومت میں سینئر وزیر کے طور پر نام زد ہونے کے باوجود تنویر الیاس دفتر آئے اور نہ کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت ہی کرتے۔ انھوں نے ایک گروپ بنا کر حکومت کا ناک میں دم کیے رکھا۔ علی امین گنڈا پوری اور عمران خاں نے بھی اصلاحِ احوال کے لیے کوئی کردار ادا نہ کیا۔ سردار نیازی کو میدان میں اُتار کر اکیلا تاک شکاریوں کے آگے ڈال دیا گیا۔
اپریل 2022ء میں عمران خاں کو قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کر دیا گیا۔ موقع غنیمت جان کر گنڈا پور اور تنویر الیاس نے پی ٹی آئی کے کچھ سینئر رہنماؤں کو قائل کیا کہ اگر قیوم نیازی کی جگہ تنویر الیاس کو وزیرِ اعظم نہ بنایا گیا، تو اپوزیشن جماعتیں تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کرکے پی ٹی آئی مخالف حکومت بنانے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ عمران خاں تازہ تازہ زخم خوردہ تھے۔ انھوں نے بغیر کسی تحقیق کے اپنی ہی پارٹی کے وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کرنے کا گرین سگنل دے دیا۔
سردار تنویر الیاس وزیرِ اعظم منتخب ہوگئے۔ توقع تھی کہ وہ آزاد کشمیر میں تیز رفتار ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرانے کے لیے غیر معمولی جوش اور جذبے سے کام کریں گے۔ چوں کہ ان کا تعلق ’’کارپوریٹ ورلڈ‘‘ سے تھا، لہٰذا وہ اس تجربے کو کام میں لاکر اس چھوٹے سے خطے میں معاشی انقلاب برپا کریں گے۔ مقتدر حلقوں کو اُمید تھی کہ سردار تنویر الیاس جنرل باجوہ کی کشمیر پالیسی کے تحت رفتہ رفتہ آزادکشمیر کا موجودہ اسٹیٹس ختم کرانے میں مدد گار ہوں گے۔ گلگت بلتستان اور کشمیر کے تاریخی تعلق کو رفت گذشت کرانے میں معاونت کریں گے۔ اسی پس منظر میں انھوں نے سینٹ اور قومی اسمبلی میں آزاد کشمیر کی نمایندگی کی بات بھی کی، لیکن سازگار عوامی رسپانس نہ ملا۔ بعدازاں انھیں ہدف دیا گیا کہ قوم پرست حلقوں کو انتظامی اور سیاسی طاقت کے ذریعے کچلیں۔ انھوں نے مظفر آباد میں ایک تقریب میں کہا کہ قوم پرست بھارت کے ایجنٹ ہیں اور مَیں مظفر آباد کو اُن کے لیے تہاڑ جیل بنا دوں گا۔
تہاڑ جیل دہلی میں بطل جیل مقبول بٹ اور افضل گورو کو پھانسی دی گئی تھی۔ اسی جیل میں جناب یاسین ملک اور سیکڑوں حریت پسند کشمیری اسیر ہیں۔ اُن کی اس گفت گو پر اِس قدر سخت عوامی ردِ عمل آیا کہ تنویر الیاس اور ان کے ہینڈلرز کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔
باجوہ کی باقیادت چاہتی تھیں کہ آزاد کشمیر کو حاصل آئینی، مالی اور انتظامی اختیارات چھین لیے جائیں۔ تنویر الیاس نے اس سمت ابتدائی دنوں میں پیش رفت کرنا چاہی، لیکن ابھی دو گام ہی چلے تھے کہ عوامی موڈ دیکھ کر یک دم پسپائی اختیار کرلی اور ’’بااختیار آزاد کشمیر‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کردیا۔
مقتدرہ سے وعدے پورے نہ کرسکے، تو رفتہ رفتہ ان کے اقتدار کی کشتی ہچکولے کھانے لگی۔ متلون مزاجی، بری حکم رانی اور کارِ حکومت کو وقت نہ دے سکنے کی بدولت مقتدر قوتوں کے لیے وہ ایک بوجھ بن چکے تھے۔ چناں چہ ساحر لدھیانوی کے بقول فیصلہ کیا گیا کہ
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
سردار تنویر الیاس کے اقتدار کا ایک سال وفاقی حکومت، اپنی کابینہ کے ساتھیوں، سرکاری ملازمین اور پی ٹی آئی کے مقامی عہدے داروں کے ساتھ لڑائیوں اور جھگڑوں کی نذر ہوگیا۔ عالم یہ تھا کہ وزیرِ اعظم نے چار بار اپنا پرنسپل سیکرٹری بدلا۔ اسٹاف میں دوماہ سے زیادہ کسی کو برداشت نہ کر پاتے۔ زیادہ دیر کسی بھی شخص سے خوش نہیں رہ سکتے تھے۔ حتیٰ کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے ساتھ میرپور میں ایک تقریب میں بری طرح الجھ پڑے۔ بعد ازاں ایک طویل پریس کانفرنس میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کو ’’کشمیر مخالف‘‘ قرار دیا۔
غیر متوازن طرزِ عمل کی وجہ سے وہ وفاقی حکومت کے ساتھ ادارہ جاتی روابطہ اور تعاون پر مبنی تعلقاتِ کار استوار کرنے میں بھی بری طرح ناکام رہے۔ ان کی نااہلی کے نتیجے میں کشمیریوں کو بہت بھاری معاشی نقصان اُٹھانا پڑا۔ وفاقی حکومت نے تنویر الیاس کی ضد میں ترقیاتی بجٹ کی فراہمی میں نمایاں کمی کی۔ خصوصی ترقیاتی منصوبوں کے لیے وفاق سے مالی امداد نہ مل سکی۔ نتیجتاً معاشی سرگرمیوں سست پڑگئیں۔ بہت سے منصوبے ناکافی فنڈز کے باعث کھٹائی میں پڑگئے۔ مزید برآں ان کے دور میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کا کوئی ایک بھی نیا منصوبہ شروع نہ کیا جاسکا۔ نتیجتاً خطے کی اقتصادی ترقی بری طرح جمود کا شکار ہوئی۔
بطورِ وزیرِ اعظم وہ کم ہی آزاد کشمیر تشریف لے جاتے۔ ایک بار عمران خان نے انھیں فون کرکے کہا کہ وہ مظفر آباد جائیں۔ زیادہ تر اسلام آباد میں قیام کرتے۔ اسلام آباد میں قائم کشمیر ہاؤس میں سرکاری افسران کے اجلاس طلب کرتے، لیکن خود شرکت نہ کر پاتے۔ کابینہ کے اجلاس ایک نہیں، درجنوں بار محض اس لیے لیٹ یا ملتوی ہوجاتے کہ موصوف دست یاب ہی نہ ہوتے۔ عالم یہ ہے کہ بارہ ماہ کے دوران میں اپنے آبائی ضلع پونچھ جانے کا وقت نہ نکال سکے۔
سائل فائلوں کے ساتھ دوڑتے۔ فائلوں کے انبار جمع ہوجاتے۔ سائلین کبھی اسلام آباد میں ان کا تعاقب کرتے اور کبھی مظفر آباد کے چکر کاٹتے۔ لوگ ان کے گھر اور دفتر میں صبح آکر بیٹھتے اور رات گئے تک انھیں وزیرِ اعظم کا دیدار نصیب نہ ہوتا۔ سینئر اہل کار انھیں سرکاری امور پر بریف کرنا چاہتے، لیکن وہ موقع ہی نہ دیتے۔ باتوں کے ایسے دھنی کہ جو ہاتھ لگ جائے، اُس کے ساتھ گھنٹوں بے تکان اور بے ربط گفت گو کرتے۔ وہ صرف اور صرف اپنی آواز سے محبت کرتے۔ دوسرے کی بات توجہ سے سننے اور سمجھنے کا انھیں ہنر ہی نہ تھا۔
انھوں نے کشمیر میں ایک شاہانہ طرزِ سیاست متعارف کرایا۔ اکثر ہیلی کاپٹر یا گاڑیوں کے ایک بڑے قافلے میں سفر کرتے۔ سرکاری خزانہ کو مالِ مفت دلِ بے رحم کی طرح برتا۔ ارکان اسمبلی، سابق صدور، وزیرِ اعظم اور کابینہ کے ارکان کو سرکاری خزانے سے تقریباً ایک ارب کی لاگت سے بالکل نئی گاڑیاں فراہم کیں۔ مالی بحران کے باوجود اپنے اور صدر کے لیے پُرتعیش مرسڈیز بینز کاروں کا آرڈر دیا۔ دوسری جانب ہزاروں بچے کھلے آسمان تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے پر مجبور تھے۔
پچاس کے لگ بھگ مشیروں، معاونینِ خصوصی اور رابطہ کاروں کی فوج ظفر موج بھرتی کی۔ جس میں سے اکثر کا کام نرگسیت کے شکار تنویر الیاس کی اَنا کو تسکین پہنچانے کے سوا کچھ نہ تھا۔ حتیٰ کہ عمران خان کے خلاف ٹی وی پروگراموں میں بے سر و پا گفت گو کرنے والے ایک ریٹائرڈ میجر روکھڑی کو اپنا خصوصی ایلچی برائے اسٹیبلشمنٹ بنائے رکھا۔ یہ شخص ٹی وی پر عمران خان پر لعن طعن کرتا اور رات کو تنویر الیاس کا حقہ بھرتا۔ روکھڑی کے ایک ادارے میں کسی ذمے دار عہدے پر فائر ایک افسر کے ساتھ اپنا تعلق جتاتا اور انعام و اکرام پاتا۔ تنویر الیاس کے کروفر آزاد کشمیر جیسے غریب اور پس ماندہ علاقے کے وزیرِ اعظم کے نہیں بلکہ برونائی کے سلطان جیسے تھے۔
عوامی اجتماعات میں ہجوم کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مذہبی کارڈ بھی بھرپور طریقہ سے کھیلتے۔ تقریبات میں دورد شریف کے ورد کی تلقین کرتے، لیکن جب حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے رہنماؤں کا ذکر آتا، تو وہ اکثر پٹری سے اُتر جاتے۔ اسمبلی کے اندر اور باہر اُن پر کیچڑ اُچھالتے۔ پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما چودھری لطیف اکبر کی سرِ عام تذلیل کی۔ بعد ازاں معافی مانگنے ان کے گھر چلے گئے۔ جو کوئی ان کے طرزِ عمل پر تنقید کرتا، اس کی قیمت لگاتے۔ بکنے پر تیار نہ ہوتا، تو کردار کشی پر اُتر آتے۔ دولت کا ایسا گھمنڈ کہ اللہ معاف کرے۔ اکثر کہتے کہ نون لیگ اور پی پی پی کی لیڈر شپ میری جیب میں ہے۔ کیوں کہ مَیں ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہوں۔
خوش فہمی کا اس قدر شکار کہ اکثر کہتے کہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی میرے وزیرِ اعظم بننے سے خوف زدہ ہے۔ ماہرینِ مدح سرائی سر ہلا ہلا ان کی مقبولیت کے راگ الاپتے۔ موصوف جلسوں میں غراتے کہ اگر مجھے نکالا گیا، تو اس قدر مزاحمت ہوگی کہ لوگ مقبوضہ کشمیر بھول جائیں گے۔ عدالت نے نااہل قرار دیا، تو آزاد کشمیر میں معمولی سا احتجاج بھی نہ ہوا۔ حتی کہ تحریکِ انصاف کی لیڈر شپ نے بھی ان کی نااہلی پر برا نہیں منایا۔ عمران خان نے ایک ٹویٹ تک کرنا گورا نہ کیا۔ آزاد کشمیر کی تحریک انصاف کے لیڈر اور کارکنوں کے لیے یہ خبر قطعاً اضطراب کا باعث نہ بنی۔
تنویر الیاس کے عروج و زوال کی کہانی نے اس حقیقت کو ایک بار پھر اُجاگر کیا ہے کہ اعلا عہدوں پر صرف اُن لوگوں کو فائز کیا جانا چاہیے، جن کی سیاسی تربیت اور عوامی خدمت کا تجربہ ہو۔ نہیں تو دو سال سے کم عرصے میں تیسرا وزیرِ اعظم بنانا پڑتا ہے۔
عمران خان اور تحریکِ انصاف کی لیڈر شپ کو اس تجربہ سے سبق سیکھ کر پارٹی کی سطح پر فیصلہ سازی کا کوئی سائنٹیفک میکانزم بنانا چاہیے جس کی بنیاد سفارش اور پیسے کے بجائے خدمت اور کردار ہو۔
بیرسٹر سلطان نے پارٹی کی چھے برس تک قیادت کی تھی۔ فقط ضد، سفارش اور لکشمی کے زیرِ اثر فیصلہ نہ کیا جاتا، تو وہ آج وزیرِ اعظم ہوتے، عمران خان اور پی ٹی آئی کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا۔ انھیں یہ حالات نہ دیکھنے پڑتے۔
کہتے ہیں غلطی بانجھ نہیں ہوتی۔ عمران خان نے آزاد کشمیر میں حکومت سازی میں جو غلطی کی…… اس کی انھوں نے ہی نہیں بلکہ کشمیری عوام نے بھی بھاری قیمت چکائی۔
افسوس! سردار تنویر الیاس کا شمار ان وزرائے اعظم میں ہوگا جو اس خطے کی سیاست پر اَن منٹ نقوش چھوڑنے میں بری طرح ناکام رہے۔ وہ کوئی ایسی لیگیسی نہ چھور سکے، جسے آیندہ نسلیں فخر سے یاد کرسکیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے