پاکستان اس وقت ایک عجیب و غریب کیفیت کا شکار ہے۔ سیاسی جماعتیں باہم دست و گریباں ہیں اور کسی کی معقول بات سننے کو تیار نہیں۔ ہر طرف آئینِ پاکستان کی دہائی دی جارہی ہے۔ حالاں کہ سب جماعتوں نے خود ہی آئینِ پاکستان کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ آئین اگر ذاتی اغراض کی برو مندی کی سیڑھی بنتا ہے، تو آئین سے مقدس کوئی دستاویز نہیں، لیکن اگر یہی آئین ذاتی اقتدار کی راہ میں رکاوٹ بنتاہے، تو پھر آئینِ پاکستان کو کوئی بھی پرِ کاہ سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اس وقت بھی ذاتی اغراض و مقاصد اور اقتدار کی خاطر آئینِ پاکستان نشانے پر ہے۔
طارق حسین بٹ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/butt/
آج کل ہر کوئی آئینِ پاکستان کا چمپئن بنا ہوا ہے اور اونچے سُروں میں اس کا ورد کر رہا ہے، لیکن جب اپنے مفادات پر زد پڑتی ہے، تو پھر آئین سے انحراف کی راہ اپنائی جاتی ہے۔ جس طرح ہر انسان کا اپنا سچ ہے، اُسی طرح ہر ایک کا اپنا آئین ہے اور وہ اُسی کا راگ الاپتا ہے۔ عمران خان نے دو اسمبلیوں کی تحلیل کا جو کارڈ کھیلا، اُس نے ملک کو ایک ایسی غیر یقینی صورتِ حال کے حو الے کر دیا ہے جس کا کوئی حل کسی کے پاس نہیں۔ غیر یقینی اور مخاصمت نے ملکی معاملات کو اپنی گرفت میں قید کر لیا ہے اور معاشی ترقی کا سفر بالکل منجمد ہو کر رہ گیا ہے۔ پی ٹی آئی 90 دنوں میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات چاہتی ہے جب کہ پی ڈی ایم قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ منعقد کرنے کی حامی ہے۔ حکومتی موقف ہے کہ معاشی ابتری کے اِس ماحول میں ملک علاحدہ علاحدہ انتخابات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ قومی انتخابات جب اِسی سال منعقد ہونے ہیں، تو ان کے ایک وقت میں انعقاد پذیر ہونے میں کیا چیز مانع ہے؟
پی ڈی ایم کے بقول ملکی خزانہ دو دفعہ کے انتخابی اخرات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اہم ملکی معاملات کی ابتری ا لتوا کی دوسری وجہ ہے۔ مردم شماری ایک اور بہانہ ہے۔ دہشت گردی کی لہر نے بھی معاملہ الجھایا ہوا ہے جب کہ آئین کے تحت نگران حکومتوں کا تصور بھی فیصلوں میں مانع بنا ہوا ہے۔ پی ٹی آئی 90 دنوں کی دہائی دے رہی ہے جب کہ پی ڈی ایم کم زور ملکی معیشت کا سہارا لے کرکر قومی اور صوبائی انتخابات ایک ساتھ کروانے کا ڈھول پیٹ رہی ہے۔دونوں کے موقف جان دار ہیں، لیکن دیکھنا ہوگا کہ ریاست کی بقا کس میں ہے؟
تناو کے اس ماحول میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوموٹو ایکشن لے کر 9 رُکنی بینچ تشکیل دے ڈالا جسے سپریم کورٹ کے سینئر ججوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ سوموٹو ایکشن والی پٹیشن سپریم کورٹ میں تقسیم اور انتشار کا سبب بن گئی۔ شروع میں جو 9 رکنی بنچ تشکیل دیا گیا تھا، وہ گھٹتے گھٹتے 3 رکنی رہ گیا۔ کیوں کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج سوموٹو پٹیشن کو سننے کے خلاف تھے۔ ان کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کو ایسے معامات میں دخل انداز نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سیاست دانوں کے مسائل ہیں۔ لہٰذا پارلیمنٹ کو اس سلسلے میں اپنا فرض ادا کرنا چاہیے۔ عدلیہ کی بے جا مداخلت سے معاملات سلجھنے کی بجائے مزید اُلجھ چکے ہیں۔ 4 ججوں کے انکاری فیصلے نے سوموٹو ایکشن کی ہوا نکال دی ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ کا سہ رکنی بینچ بھی سوموٹو ایکشن پر شنوائی کو روک دینے کا حکم صادر کرچکا ہے۔ پی ڈی ایم فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کر رہا ہے جب کہ پی ٹی آئی سہ رکنی بنچ کے فیصلے کو حرفِ آخر سمجھتی ہے۔ پی ڈی ایم کو اعجاز الاحسن کے کنڈکٹ پر شدید تحفظات ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے پانامہ کیس میں میاں محمد نواز شریف کے خلاف جس طرح کا کردار ادا کیا تھا، اُس سے مسلم لیگ (ن) کی صفو ں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ میاں محمد نواز شریف، اعجاز الاحسن کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا بغل بچہ تصور کرتے ہیں۔ سوموٹو پٹیشن کے فیصلہ نے ملکی سیاست میں بھو نچال پیدا کر رکھا ہے۔ حکومت اس فیصلہ کی جگہ تین چار کے فیصلے پر عمل داری پر یقین رکھتی ہے جب کہ پی ٹی آئی فوراً انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے ۔ایک جنگ ہے جو دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان جاری ہے جس سے ملکی معیشت کا بیڑا غرق ہو رہا ہے۔
حکومت قاضی فا ئز عیسیٰ کے سہ رکنی بینچ کے فیصلہ کو بنیاد بنا کر یہ سارا کھیل کھیل رہی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے بعد چیف جسٹس کا سہ رکنی بنچ سوموٹو پٹیشن سننے کا مجاز نہیں تھا۔ لہٰذا فیصلہ کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں۔ حکومت کا موقف ہے کہ ایک فل کورٹ ہی اس بات کا حتمی تعین کرسکتا ہے کہ کیا انتخابی معاملے پر سپریم کورٹ سوموٹو ایکشن لے سکتی ہے یا نہیں؟
پی ٹی آئی احتجاج کی دھمکی دے رہی ہے جب کہ حکومت ریفرنس دائر کرنے کا اعلان کر رہی ہے۔ اونٹ کسی بھی جانب بیٹھ نہیں پارہا اور عوام حیران و ششدر یہ سارا منظر دیکھ رہے ہیں۔ اُن کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ اقتدار کی خاطر ملکی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا جا رہا ہے؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاست دان مل بیٹھ کر کوئی معقول حل تلاش کریں، تاکہ عوام مہنگائی اور بدامنی کی جس اذیت کا ذہنی شکار ہیں، انھیں کچھ ریلیف مل جائے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آئینِ پاکستان 90 دنوں میں انتخابی انعقاد کو یقینی بنانے کا حکم صادر کرتا ہے، لیکن ابتر ملکی معاملات، آفت، زلزلے، سیلاب، غیر ملکی حملے، ایمرجنسی اور دہشت گردی کی صورت میں التوا کا حق بھی دیتا ہے۔ حکومت اسی حق کا استعمال کر رہی ہے اور ملکی معیشت کی ابتر حالت کے پیشِ نظر دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں چند مال کا التوا چاہتی ہے، تاکہ سارے انتخابات بیک وقت انعقاد پذیر ہوسکیں۔
موجودہ قومی اسمبلی کی مدت 17 اگست کو ختم ہوجائے گی۔ لہٰذا قومی انتخابات اسی سال منعقد ہونے اٹل ہیں۔ پی ٹی آئی اس موقف کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ دو اسمبلیوں کے انتخا بات 90 دنوں کے اندر چاہتی ہے اور قومی انتخا بات اپنے وقت پر۔
پی ٹی آئی کو یقین ہے کہ حکومت کی ناقص گورنس کے پیشِ نظر اس کی جیت کے امکانات واضح ہیں۔ عوام موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے تنگ ہیں۔ مہنگائی نے ان کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ لہٰذا وہ پی ٹی آئی کو اپنے مینڈیٹ سے نوازنے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان کسی بھی قسم کا رسک لینے اور حکومت کو کسی بھی قسم کا وقت دینے کے لیے تیار نہیں۔ کیوں کہ انھیں خدشہ ہے کہ حکومت انھیں کسی نہ کسی مقدمہ میں پھنسا کر نااہل قرار دے ڈالے گی۔ انھیں گرفتار کرلیا جائے گا اور ان کی جماعت پر پابندی لگانے سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔ وہ اپنے خلاف ہونے والے ممکنہ اقدامات سے قبل انتخابات میں قسمت آزمائی کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس بات کے واضح امکانات ہیں کہ ان کی خواہش حقیقت کا جامہ نہ پہن سکے۔
نئی مردم شماری کے تحت نئی حلقہ بندیاں اور وو ٹر لسٹوں کی تیاری ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، جس کی وجہ سے انتخابات کے التوا کا جواز تلاش کیا جا رہا ہے۔ آرمی نے دہشت گردی کی کارروائیوں کے تناظر میں عملہ دینے سے معذرت کرلی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ عدالت فوج کے خلاف کوئی حکم صادر کر دے؟ فوج کی معاونت کے بغیر انتخابات کا انعقاد ناممکن ہے۔ کیوں کہ امیدوار ھونس دھاندلی سے اپنے اپنے حلقوں میں شفاف انتخابات کو منعقد نہیں ہونے دیتے۔ وہ قتل و غارت گری اور لڑائی جھگڑوں سے بیلٹ باکس اور بیلٹ پیپرز اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور جعلی ووٹنگ سے اپنی جیت کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ ہمارا مشاہدہ تو یہی ہے کہ صرف فوج ایسے عاقبت نااندیش اور جھگڑالو امیدواروں کو نکیل ڈال سکتی ہے۔ جب تک فوج انتخابی مراکز کو اپنی تحویل میں نہیں لیتی، شفاف انتخا بات کا انعقاد نا ممکن ہے۔ فوج کی عدم مو جودگی میں ملک ایک ایسے انتشار اور انارکی کا شکار ہوجائے گا جسے سنبھالنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سب سیاست دان ہوش کے ناخن لیں اور ملک کو کسی ایسے بحران کی نذر نہ کریں جو اس کے وجود پرسوا لیہ نشان لگا دے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔