سوات: ایک تنقیدی جائزہ

(اس مضمون کا قریباً دو تہائی حصہ کتابی سلسلہ ’’دنیازاد‘‘ کی کتاب نمبر 25 (2009ء) اور روزنامہ آزادی سوات کے 9 تا 14 دسمبر 2009ء کے شمارہ جات میں جب کہ پورا ’’ماہنامہ شعور سوات‘‘ کے جلد نمبر 1، شمارہ جات نمبر 2 تا 5، 2010ء میں شائع ہوا تھا۔ اب اسے لفظونہ ڈاٹ کام کے قارئین کے لیے مکمل شکل میں شائع کیا جا رہا ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)
٭ سوات کی مختصر تاریخ:۔
سوات کا تاریخی علاقہ، جس کی مثال قدرتی حسن اور دل کش مناظر کی وجہ سے سوئٹزر لینڈ سے دی جاتی ہے، دنیا کے ایک ایسے علاقے میں واقع ہے جو ارضی حکمتِ عملی کے لحاظ سے بہت اہم ہے اور جہاں دُنیا کے تین اہم خطے…… جنوبی ایشیا، چین اور وسطی ایشیا ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ سوات جو آج کل پاکستان کے شمال مغربی صوبہ سرحد کے صوبائی زیر انتظام قبائلی علاقے (PATA) کا حصہ ہے، اپنی معلوم تاریخ کے طویل دورانیے میں نمایاں رہا ہے۔ یہ ایک عظیم تہذیب یعنی گندھارا کا گہوارا رہا ہے اور وقتاً فوقتاً مسلح افواج اس پر حملہ آور ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج کی حالیہ موجودگی (لگ بھگ بیس ہزار سے زیادہ) اس کی ایک مثال ہے۔
ڈاکٹر سلطانِ روم کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/dr-sultan-e-rome/
اپنے مسحور کن مناظر، پُرامن ماحول، زرخیز زمین اور زراعتی پیداوار، ثقافتی ورثے اور آثارِ قدیمہ کی وجہ سے یہ علاقہ دنیا بھر کے سیاحوں کو اپنی جانب مبذول کرتا رہا ہے۔ سوات کا نام اُس وقت اور بھی سامنے آیا اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا جب 1990ء کے بعد ایک اور وجہ سے اس کی شہرت ہوئی۔ اسلامی قوانین کا مطالبہ اور ان کا نفاذ اور وہ مسلح جد و جہد جو اس مقصد کے تحت جاری ہوگئی۔ اُس مطالبے اور اُس کے بعد اُس جد و جہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ سرزمین عسکریت پسندی (Militancy) کا اڈا بن گئی۔ تاہم یہ بات سوات کی تاریخ کے لیے نئی نہیں تھی۔ 1990ء کی دہائی سے تنظیم نفاذِ شریعتِ محمدیؐ کی سرگرمیوں اور اس کے نتیجے میں حکومت کے خلاف بغاوت اور پھر پاکستان کی افواج کے ساتھ مسلح جھڑپوں نے (جن کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے) سوات کو عالمی سیاست اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا ایک مرکزی نقطہ بنا دیا۔ تجزیہ نگاروں اور مبصرین نے اس صورت کو اپنے اپنے نقطۂ نظر سے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ سیاست دانوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ ان مختلف تشریحات کو اپنے مقاصد کی تکمیل اور اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ سوات اِس وقت ایک ایسی پیچیدہ تصویر پیش کرتا ہے جس کو اُس وقت تک سلجھایا نہیں جاسکتا جب تک کہ اس کے تاریخی سیاق و سباق کو مختلف زاویوں سے دیکھا اور سمجھا نہ جائے۔ ذیل کی سطور اس ضمن میں ایک کوشش ہیں۔
اپنی تمام تر معلوم تاریخ کے زیادہ عرصے سے سوات خود مختار یا نیم خود مختار علاقہ رہا ہے۔ سولہویں صدی عیسوی میں یوسف زئی افغانوں نے اس پر قبضہ کرلیا اور وہ معاشرے کا برتر و حاوی طبقہ بن گئے۔ اس کے باوجود انھوں نے حکومت یا ریاست قائم نہیں کی، بلکہ قبائلی طرزِ زندگی گزارتے رہے، جو دو مخالف دھڑوں میں تقسیم تھے اور ان کو ڈلے (واحد ڈلا) کہا جاتا ہے۔ ملحقہ ریاستِ دیر کے خان نے 1879ء تا 1881ء کے دوران میں سوات کے مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا اور 1895ء میں انگریزوں نے مشرقی کنارے کے زیریں علاقے کو اپنی اطاعت میں لے کر ایک ڈھیلے ڈھالے انتظام کے تحت دیر اور سوات ایجنسی قائم کردی اور 1897ء میں چترال کو بھی اس میں شامل کردیا گیا۔
دیر کے حکم ران کی سخت گیر پالیسی اور اُس کے محصول جمع کرنے والے اہل کاروں کی چیرہ دستی پر بر افروختہ ہوکر شامیزی، سیبوجنی اور نیکپی خیل کے لوگو ں نے مشترکہ مفاد کے تحت ولی احمد المعروف سنڈاکئی بابا کی سرپرستی 1915ء کے آغاز میں حاصل کی۔ چھوٹی بڑی جھڑپوں کے بعد انھوں نے دیر کی افواج کا مقابلہ کرکے اُن کو اس علاقے کو چھوڑنے پر مجبور کردینے کے بعد پانچ افراد پر مشتمل ایک مجلس قائم کی جو علاقے کے معاملات چلائے اور آخرِکار 24 اپریل 1915ء کو سید عبدالجبار شاہ کو اپنے حکم راں کے طورپر مسند نشین کردیا لیکن ستمبر 1917ء میں عبدالجبار شاہ کو اقتدار سے معزول ہونے اور علاقہ چھوڑ دینے کے لیے کہا گیا۔ یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ عبدالجبار شاہ کی حکم رانی سوات کے تمام علاقے پر قائم نہیں تھی۔
عبدالجبار شاہ کی معزولی کے بعد میاں گل عبدالودود (جو اَخوند عبدالغفور المعروف بہ سیدو بابا کا پوتا تھا) سوات کے نئے بادشاہ کی گدی پر بیٹھا۔ عبدالودود المعروف بہ باچا صاحب متحرک اور مستعد حکم راں تھا، جس نے اپنے دورِ اقتدار میں ریاست کو وسیع تر اور مضبوط بنایا۔ اس نئے بادشاہ کی فعالیت، نئے منصوبوں اور حکمتِ عملی نے سوات کو پختون قبائلی علاقوں میں امن کا نمونہ بنا دیا اور امن کا ایک ناقابلِ یقین احساس اور ریاست کی بالادستی کا احترام ایسے معاشرے میں قائم ہوگیا، جو بڑی حد تک ناخواندہ تھا اور قبائلی روایات کا پابند۔ تعلیم سے محروم مگر روشن خیال حکم راں کے زیرِ انتظام سوات ایک انگریز مصنف کے بقول ’’ایک منفرد ریاست‘‘ بن گیا اور پختون قبائلی معاشرے میں امن، طمانیت اور ترقی کی مثال۔
دسمبر 1949ء میں عبدالودود نے اپنے بیٹے اور نام زد ولی عہد میاں گل عبدالحق جہاں زیب کے حق میں تخت سے دست بردار ہونے کا اعلان کردیا۔ میاں گل جہاں زیب المعروف والی صاحب کی کوششوں نے علاقے کے ترقیاتی کاموں کو فروغ دیا، جن میں تعلیم، ترسیل و رابطہ اور صحت کے شعبوں کو ترجیح حاصل تھی۔ مزید برآں انھوں نے ریاست اور اس کے معاشرے کو مغربی طرز پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ اندرونی اور بیرونی خطرات کے باوجود سوات کی ریاست قائم رہی، لیکن آخرِکار اس سلسلے کی انتہا 28 جولائی 1969ء کے اُس اعلان پر ہوئی جس میں اُس وقت کی چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر اور صدرِ پاکستان، جنرل یحییٰ خان نے ریاست کے پاکستان میں انضمام کا اعلان کردیا اور ریاست کے حکم راں کو 15 اگست 1969ء میں باضابطہ طور پر اپنے اختیارات سے محروم کردیا گیا۔
ریاست کے اختتام کے بعد سابق ریاست کے علاقے اور کالام (جس پر حکومتِ پاکستان کی طرف سے سابق والی کو منتظم مقرر کیا گیا) ملا کر ایک ضلع کا درجہ دیا گیا، جس کا حاکمِ اعلا ڈپٹی کمشنر تھا اور ملاکنڈ ڈویژن کا حصہ بنا دیا گیا جس کا حاکمِ اعلا کمشنر تھا۔
کسی زمانے میں سوات بدھ مت کا مذہبی مرکز تھا اور وہاں تقریباً 1400 بُدھ سنگھراما (خانقاہیں یا راہبوں کی قیام گاہیں) تھیں، جن میں تقریباً 18,000 راہب موجود تھے اور یہیں پر بدھ مت کا تیسرا فرقہ، جس کا نام وجرایانا یا تانترک بدھ مت تھا، پیدا ہوا اور اسے فروغ حاصل ہوا۔ اسی کی وجہ سے یہ علاقہ تبت کے لیے متبرک بن گیا۔ کیوں کہ وہ اسے پدما سمبھاوا کی جنم بھومی قرار دیتے تھے۔ سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں اس علاقے پر یوسف زئی اقتدار قائم ہونے کے بعد بعض مذہبی شخصیات کا بہت گہرا اثر مرتب ہوا۔ ان میں اخوند درویزہ، ان کے بیٹے میاں کریم داد اور پوتے میاں نور شامل ہیں۔ انیسویں صدی میں اخوند عبدالغفور المعروف بہ سیدو بابا اپنے صوفیانہ مقام کی وجہ سے پیش منظر پر حاوی ہوگئے۔ سید اکبر شاہ، سید علی ترمذی المعروف پیر بابا کی اولاد میں سے تھے اور ان کو ستھانہ سے بلوا کر سوات کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ وہ 1849ئ/ 1850ء سے لے کر 1857ء میں اپنے انتقال کے وقت تک حکومت کرتے رہے۔ سیدو بابا کے بیٹوں کا علاقے میں بہت اثر و رسوخ تھا اور انیسویں صدی میں ان میں سے سب سے بڑا، سوات کی حکم رانی کے لیے سرگرمِ عمل تھا۔
انیسویں صدی عیسوی کے اواخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں، سعدا للہ المعروف بہ سرتور فقیر کو علاقے میں قدم جمانے کا موقع ملا اور اُس نے وہاں اپنا حلقۂ اثر قائم کرلیا، جس کی وجہ محض اتنی تھی کہ وہ انگریز دشمن تھا اور مافوق الفطرت طاقت کا دعوے دار۔ بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں سنڈاکئی بابا ایک نمایاں شخصیت بن کر اُبھرے اور سوات کی سیاست میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے مرید، شیخان کہلاتے تھے اور انھوں نے مسلح دستے تشکیل دیے کہ وہ سواتی معاشرے کو برے کاموں اور رسومات و بدعات سے ’’پاکیزگی‘‘ کے معرکے میں شامل کرسکیں۔ ان شیخان میں سے ایک، خان بہادر کے دستے میں پچاس افراد شامل تھے اور اس کا انداز، طاقت و اقتدار سے بھرپور تھا۔ اس کی سینہ زوری اور طاقت کے خلاف پائی جانے والی مخاصمت اور بے زاری کا اندازہ مندرجہ ذیل پشتو ٹپّے سے لگایا جاسکتا ہے:
اسمان تہ لار د ختو نشتہ
د زمکے سر د خان بہادر ورسیدنہ
(ترجمہ: آسمان تک فرار کا کوئی راستہ نہیں اور زمین بھی خان بہادر کے حصے میں چلی آئی ہے۔)
اسی دوران میں عبدالجبار شاہ کو جو پیربابا کی اولاد میں سے تھا، ستھانہ سے بلوایا گیا اور 1915ء میں بادشاہ کے طور پر تخت نشین کردیا گیا۔ پیر بابا کی اولاد میں سے ہونے کی وجہ سے اس کی مذہبی جڑیں گہری تھیں۔ اسی طرح میاں گل عبدالودود اور ان کے بھائی میاں گل شیریں جان بھی سیاسی اقتدار کے لیے نبرد آزما ہوگئے اور سوات کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ان کا معتقد تھا کہ وہ سیدو بابا کی اولاد میں سے تھے۔ یہ مذہبی، صوفیانہ پس منظر ہی تھا جس نے عبدالودود کی مدد کی اور وہ 1917ء میں اقتدار پر حاوی ہوگیا۔
ملّا، فقری، حاجی صاحب، بابا اور اس نوع کی دوسری مذہبی شخصیات نے صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) کی تاریخ میں جو کردار ادا کیا، خصوصاً اَپر سوات اور دوسرے قبائلی علاقوں میں اور خاص طور پر اجنبی اور غیر طاقتوں کے خلاف، اس کی اہمیت کو کم نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے تعلقات ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ رہے اور ماضی میں ترکی سے بھی رہے۔ اور ان ممالک کی سربرآوردہ مذہبی شخصیات اور سرکاری افسران سے ان کا ربط و ضبط کوئی نئی بات نہیں۔ علاوہ ازیں بیرونی مذہبی شخصیات کو جو پناہ، پذیرائی اور امداد اس علاقے میں حاصل ہو رہی ہے (خاص طور پر ان کو جو غیرملکی طاقتوں کے خلاف جد و جہد میں شریک رہے) وہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔ اس کی مثال وہ پناہ اور امداد بھی ہے جو سید احمد شہید بریلوی اور ان کے پیروکاروں کو یا ہندوستانی مجاہدین کو فراہم کی گئی تھی اور ان کی خاطر جنگیں لڑی گئیں تھیں جن میں خاص طور پر1863ء میں امبیلہ کی جنگ شامل ہے کہ جس میں طاقت ور انگریزی افواج کو بونیر، دیر، سوات اور باجوڑ کے لوگوں کی طرف سے دو ماہ تک سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
صوبہ سرحد میں مذہبی شخصیات کے اثر و رسوخ کا اندازہ ان جوابات سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو آفریدیوں نے رابرٹ واربرٹن کے سوالوں پر اس معرکے کی جنگ کے دوران میں دیے تھے جو 1897ء میں انگریزوں کے خلاف ان کی شورش و بغاوت کی سزا کے طور پر ان پر مسلط کر دی گئی تھی۔ ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ’’تم لوگ نیچے اُتر کر کیوں آئے؟‘‘ تو انھوں نے جواب دیا، ’’مّلا ہمیں نیچے لے کر آئے ہیں۔‘‘ اور جب یہ سوال کیا گیا کہ ’’تم نے ملّاؤں کی بات کیوں مانی اور ان کو ملک سے نکال باہر کیوں نہ کیا؟‘‘ تو انھوں نے جواب دیا، ’’وہ ہم سے زیادہ طاقت ور تھے۔‘‘ اور جب یہ سوال کیا گیا کہ ’’تو پھر تم لوگوں نے (انگریزوں کی) چوکی پر حملہ کیوں کیا؟‘‘ تو ان کا جواب یہ تھا: ’’ملّاؤں نے ہمیں مجبور کیا۔‘‘
اس رواں منظر میں صوفی محمد، فضل اللہ اور ان جیسی دوسری مذہبی شخصیات جنھوں نے مذہبی بنیادوں پر مسلّح جد و جہد کی وکالت کی، یا پھر غیرملکیوں اور غیرمقامیوں کو پناہ اور امداد فراہم کی، اور ہندوستان، افغانستان اور دوسرے ممالک میں اپنے ہم خیال افراد سے تعلق رکھا اور تعاون کیا، یہ نہ تو کوئی انہونی یا انوکھی بات ہے نہ کوئی نیا مظہر۔
علاوہ ازیں، بیش تر مقامی باشندے اپنے معاملات میں اسلامی طریقوں پر پوری طرح عمل پیرا نہ ہونے کے باوجود اسلام کے لیے ہم دردی اور محبت رکھتے ہیں۔ اگر سب نہیں، تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد عام طور پر اسلام کے نام پر نعروں اور اپیلوں پر جذباتی ہوجاتی ہے اور ان کے رہ نما اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر اس بات کا استحصال کرتے چلے آئے ہیں۔
سوات کے باشندے فطری طور پر اپنی مضطرب طبیعت کی وجہ سے مشہور ہیں اور اسی لیے ریاستِ سوات کے قیام سے پہلے کے زمانے میں تلوار اٹھائے رہتے تھے۔ اس دور کو ’’د پختو زمانہ‘‘ اور ’’دپختو دور‘‘ کہا جاتا ہے…… یعنی وہ زمانہ جب لوگ پختو یا پختون ولی یا پختون ضابطۂ اخلاق و رسوم کے تحت زندگی گزارتے تھے۔ سوات کے لوگوں کے مزاج میں شامل اس اضطراب سے متعلق ایک طنزیہ کہاوت اس طرح ہے:
’’چہ د سوات وی، ڈک د فسات (فساد) وی۔‘‘ یعنی سوات کے جو لوگ ہوتے ہیں، وہ فساد سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔
یہ لوگ عید کے تہوار پر بھی لڑنے بھڑنے سے باز نہیں آتے۔ نوجوان مرد آس پاس کے گاؤں کے الگ الگ جتھوں میں اپنے آپ کو منظم کرکے لڑنا شروع کردیتے اور یوں جان کا ضیاع بھی ہوتا اور خوشی کا تہوار، سوگ اور غم کے موقعے میں بدل جاتا۔ ان کا یہ مزاج وقت کے ساتھ ساتھ اور ریاست کے حکم رانوں کی حکمت عملی کی وجہ سے دھیما پڑنے لگا اور اس طرح لوگوں کا سماجی نظم و ضبط اور زندگی کے بارے میں رویہ بدل گیا۔ تاہم ذیل میں دیے جانے والے عوامل و واقعات سوات کے لوگوں کے ایک خاص طبقے میں اس مضطرب مزاجی کے دوبارہ نمو اور فروغ کا سبب بن گئے۔
یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ محولہ بالا کہاوت طنزیہ ہے۔ یہ سوات کے لوگوں کے مزاج کے صرف ایک پہلو یعنی اس میں پائے جانے والے اضطراب کی طرف اشارہ کرتی ہے نہ کہ ان کے مزاج کے ہر پہلو کا احاطہ۔ سوات کے لوگ مذکورہ اضطراب کے ساتھ ساتھ یا اس کے ہوتے ہوئے بھی وہ ہمیشہ سے نرم مزاج، خوش خلق اور ہمسایہ علاقوں کے بہ نسبت متمدن رہے ہیں۔ ان کی اس نرم مزاجی، خوش خلقی اور متمدن ہونے کی طرف اشارہ ایک اور کہاوت میں اس طرح ہے: ’’چہ دسوات وی، خو گ لکہ شات (شہد) وی۔‘‘ یعنی سوات کے لوگ شہد کی طرح مٹھاس سے بھرے ہوئے ہیں۔
٭ سوات کے آئینی اور عدالتی مسائل: ایک جائزہ:۔
سوات میں پرانے قبائلی سماجی نظام اور ضابطے، ریاست کے حکم رانوں کے ہاتھوں پوری طرح تبدیل ہوگئے اور اسی لیے قبائلی معاشرے والا سوات پس منظر میں چلا گیا، لیکن اس کے باوجود قبائلی علاقے کے طور پر اس کی آئینی حیثیت بہت اہم ہے۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے یہ علاقہ ’’بندوبست‘‘ والے علاقوں (Settled) سے مختلف اور ایک الگ آئینی حیثیت کا حامل ہوگیا۔ چوں کہ سوات، صوبائی زیرِانتظام قبائلی علاقہ (PATA) ہے، اس لیے اس کی آئینی حیثیت کو سمجھنا لازمی ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس معاملے کو سمجھا جاسکے کہ اسلامی قوانین کے مطالبے کی حمایت کیوں کر بڑھتی گئی اور طالبان، سوات کے علاقے میں اپنی موجودگی کو کس طرح بڑھانے میں کامیاب ہوگئے؟
قبائلی علاقے کے طور پر سوات کی آئینی حیثیت نے بھی 1994ء، 2007ء اور 2008ء کی شورش، بدامنی اور دراندازی میں کردار ادا کیا۔ کیوں کہ اس کی وجہ سے اسلامی قوانین کے نفاذ اوران قوانین پر عمل درآمد کے مطالبے کو کُمک حاصل ہوئی۔ اس مطالبے کے حق میں دیے جانے والے دلائل میں سے ایک دلیل یہ بھی تھی کہ جب سوات میں باقی سارے ملک سے علیحدہ قوانین اور ضابطے (عدالتی مقدموں کی سماعت کے لیے) PATA کے ضوابط کی صورت میں موجود ہیں (ریگولیشن 1 مجریہ 1975ء اور ریگولیشن 2 مجریہ 1975ء)، تو پھر اسلامی عدالتی نظام اور اسلامی قوانین کیوں نہ موجود ہوں، جو باقی سارے ملک میں نافذ قوانین سے الگ ہوں۔
اس کے علاوہ، علاقے کی آئینی حیثیت نے ایک طرح کی دو عملی کی صورتِ حال بھی پیدا کردی ہے۔ سوات، صوبائی انتظام کے تحت قبائلی علاقہ ہے اور اسی لیے صوبائی حکومت کے زیرِ انتظام ہے جو اس علاقے میں امن و امان کی نگرانی کی ذمے دار ہے، لیکن صوبائی حکومت کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنے طور پر اس علاقے کے لیے قانون سازی کرے اور ان قوانین کو نافذ کرسکے۔ ایسا صرف صوبے کا گورنر، ملک کے صدر کی اجازت اور منشا سے کرسکتا ہے، لیکن ان دونوں میں سے کوئی بھی نہ تو صوبائی حکومت کا حصہ ہے اور نہ اس کے سامنے جواب دِہ۔ یہ دونوں عہدے دار عوام کے سامنے بھی جواب دہ نہیں۔
اس کی وجہ سے بعض اوقات ایسی بے قاعدگی پیدا ہوجاتی ہے جب صدر؍گورنر اور صوبائی حکومت کے درمیان قبائلی علاقوں کے لیے لائحہ عمل اور پالیسی کے معاملات پر اختلافِ رائے ہوجاتا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت (2002ء تا2007ء) اور اُس وقت کے صدرِ پاکستان، پرویز مشرف کا معاملہ اور عوامی نیشنل پارٹی کی سرکردگی میں قائم مخلوط حکومت اور اب سابق صدر مشرف کا معاملہ اس کی بین مثالیں ہیں۔ اے این پی (عوامی نیشنل پارٹی) کی سرکردگی میں قائم مخلوط حکومت نے سوات کے طالبان سے امن معاہدہ کیا اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا وعدہ کیا جو ان قوانین کی اصل روح کے مطابق ہو، مگر اس کے لیے ایک نیا ریگولیشن درکار تھا۔ مگر عملی طور پر صوبائی حکومت یہ کام کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتی تھی، اس لیے کہ اس سلسلے میں تمام اختیار صوبائی گورنر کے پاس ہوتا ہے اور جو صدرِ مملکت کی اجازت کے بعد ہی ایسا کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بالفرض اگر گورنر اور صدر پالیسی اور قونین کے نفاذ اور اس علاقے پر ان کے اطلاق کے بارے میں رضامند ہوبھی جائیں، تب بھی یہ معاملہ سرخ فیتے اور طول طویل دفتری طریقِ کار کا شکار ہوجاتا ہے۔ مرکز میں بھی اور صوبائی سطح پر بھی اور ان پر عمل درآمد ہونے میں بہت وقت لگ جاتا ہے۔
یہ معاملہ اُس وقت اور بھی الجھ جاتا ہے جب گورنر کی سیکرٹریٹ یا وفاقی سطح یا پھر دونوں جگہ سے اس مسودے پر اعتراضات اور تحفظات اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں جو صوبائی حکومت نے داخلِ دفتر کیا تھا۔ پھر رہ گیا اس مسودے میں نقائص دور کرنے کا معاملہ اور اتفاق رائے کا حصول، تو نئی اور زیادہ فائلیں مزید وقت لے لیتی ہیں، جس کی وجہ سے تاخیر ہوتی ہے اور یہ پریشانی کا سبب بنتی ہیں۔ حال ہی میں مجوزہ نظامِ عدل قانون 2008ء پر وفاقی حکومت کے تحفظات اور اعتراضات اس کی ایک مثال ہیں۔ اس مسودے کو صوبائی حکومت نے تیار کیا تھا اور اس کو 24 نومبر 2008ء کو بھیجا گیا۔ اس کے بعد گورنر اس ریگولیشن کو جاری کردیں گے اور یوں یکم دسمبر 2008ء تک حالات معمول پر آجائیں گے۔ اس کے برخلاف ہوا یہ کہ اس قانون پر وفاقی حکومت کے اعتراضات ایک طویل تعطل کا سبب بن گئے…… جس کو حل کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مزید مذاکرات کی ضرورت پڑی۔
٭ عدالتی مسائل:۔
یہ عام خیال کہ ریاستِ سوات کا عدالتی نظام اسلامی تھا اور اسی وجہ سے معاملے جلدی اور اسلامی قانون کے مطابق نبٹ جایا کرتے تھے، بے بنیاد ہے۔ اسلام میں ریاست کے قوانین بالکل واضح ہیں…… آنکھ کے بدلے آنکھ، چوری کے لیے ہاتھ کاٹنے کی سزا اور زنا کے لیے سنگ ساری کی سزا۔ سوات میں ان جرائم کے لیے جرمانہ عائد کیا جاتا تھا اور ’’جان کے بدلے جان‘‘ یا قصاص کا قانون شاذ و نادر ہی بروئے کار لایا جاتا تھا۔ مقامی جرگے اپنے ’’دستورالعمل‘‘ کے مطابق جرمانے کا تعین کرتے یا پھر بعض اوقات ریاست کا حکم راں ایسا کرتا تھا۔ مثال کے طور پر ریاست کے حکم راں نے اپنے ایک فرمان میں، جو بعد میں شائع ہوا، یہ طے کردیا تھا کہ اب سے مندرجہ ذیل جرمانے لاگو ہوں گے:
٭ زنا…… 500 روپے (اس جرمانے کا اطلاق صرف مردوں پر ہونا تھا۔)
٭ کسی پر گولی چلانا…… 200 روپے۔
چوری (کسی کے گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہونا) …… 200 روپے۔
٭ عورتوں سے بدتمیزی…… 100 روپے۔
ایک اور فرمان میں ریاست کے حکم راں نے اعلان کیا کہ جو شخص اپنی بیوی کی ناک کاٹ ڈالے گا، اُس پر 2000 روپے جرمانہ عائد کیا جائے گااور اُسے اپنی بیوی کو طلاق بھی دینی ہوگی۔
قتل کے مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت شریعت کے بجائے سیاسی باریکیاں اور فیصلے کے دیگر مضمرات پر نظر رکھی جاتی تھی۔
خلاصۂ کلام یہ کہ…… سوت کا عدالتی نظام اور قوانین، روائتی قاعدوں اور ان قاعدوں سے مطابقت رکھنے والے اسلامی قوانین اور ریاست کے حکم ران کے احکامات پر مشتمل تھے۔ حکم راں سب سے برتر تھا اور آخری و انتہائی سند کا حامل، جب کہ روائتی ضابطوں کی حیثیت ثانوی تھی۔ اسلامی قوانین ان دونوں کے ماتحت تھے۔ ہر طرح کے معاملات میں آخری اور انتہائی اختیار حکم راں کے ہاتھ میں تھا جو نہ تو مقامی جرگوں کے ضابطوں کا پابند تھا اور نہ شریعت کا۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سب کے باوجود لوگ اُس دور کو ’’نوستلجیا‘‘ کے ساتھ کیوں یاد کرتے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس دور میں عدالتی نظام موثر تھا۔ مقدمے کی کارروائی جلدی اور سستے انداز میں نمٹ جاتی تھی۔ فیصلوں پر باضابطہ عمل درآمد ہوتا تھا اور اکثر مقدمات کا فیصلہ پہلی یا دوسری پیشی پر ہوجاتا تھا۔ مزید برآں، مغرب کے عدالتی نظام کی بعض خامیاں…… ’’تکنیکی باریکیاں، التوا اور اخراجات‘‘ یہاں موجود نہیں تھے۔ اس لیے ریاست کے انضـمام سے پہلے، فیصلے غلط ہوں یا صحیح…… جلدی اور کم لاگت کے ساتھ ہوجاتے تھے۔ فریقین بھاری اخراجات اور طویل کارروائی کا بوجھ برداشت کرنے سے بچ جاتے تھے۔
یہ صورتِ حال ریاست کے انضمام کے بعد بدل گئی۔ دیر، چترال اور سوات (انتظامیہ) ریگولیشن 1969ء نے حکم راں کو اس کے تمام اختیارات سے محروم کردیا اور یہ تمام اختیارات کسی ایسے شخص، سرکاری افسر یا انتظامیہ کے حوالے کردیے گئے (صوبائی حکومت کی نگرانی اور سمت نمائی کے مطابق) جس کو صوبائی حکومت یا متعین کرے گی، یا اختیارات تفویض کرے گی۔ تمام پرانے قوانین، جس میں ضابطے، احکامات، فرمان، نوٹیفیکیشن اور رواج شامل ہیں، برقرار رکھے گئے۔ یہ صورتِ حال بہت انتشار اور بے یقینی کا سبب بنی۔ کیوں کہ اس سے پہلے ایسے قوانین، ضابطے اور احکامات مکمل مرتب شکل میں موجود نہیں تھے اور یہ معاملہ نئے انتظامی؍ عدالتی افسروں کی صواب دید پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ کون سی چیز ’’رواج‘‘ ہے اور کون سی نہیں۔ یہ صورت لوگوں کے لیے جلد ہی اس قدر پیچیدہ اور مشکل ہوگئی کہ ’’جسٹس لیگ‘‘ نام کی ایک انجمن بھی قائم کردی گئی۔
حکومت نے آہستہ آہستہ پاکستان کے قوانین کو اس علاقے میں بھی رائج کرنا شروع کردیا اور پورے ملاکنڈ ڈویژن کے لیے ایک سیشن کورٹ قائم کیا گیا، جس میں سوات کا علاقہ بھی شامل تھا۔ حکومت کی کوششوں سے لوگوں کی تکلیف حل نہیں ہوسکی۔ اس لیے کہ مرکزی دھارے میں ’’رواج‘‘ کا نفاذ جاری رہا۔ علاوہ ازیں، دیوانی اور فوج داری معاملات میں واضح تفریق نہیں تھی۔ اس لیے بعض لوگ اس کو اپنے مفاد کی خاطر استعمال کرسکتے تھے۔ اسی لیے لوگوں کی شکایات اور مخاصمت میں اضـافہ ہوتا چلا گیا۔
مندرجہ ذیل مثال یہ باور کرانے کے لیے کافی ہوگی کہ حقیقی صورتِ حال کس طرح تھی؟ 1953ء میں میرے (راقم الحروف) والد نے ایک ’’پیسہ‘‘ (سوات کے روائتی نظام میں زمین کی ایک یونٹ) ’’دفتر‘‘ خریدا۔ ’’دفتر‘‘ یا ’’دوتر‘‘، (سوات میں زمین کے روائتی ملکیتی نظام میں زمین کی ایک قسم۔) 1999ء میں اس شخص کے پھوپھی زاد بہن بھائیوں نے اس کے خلاف مقدمہ دائر کردیا، جس سے میرے والد نے دفتر خریدا تھا۔ اُس مقدمے میں اُنھوں نے اپنی مرحوم والداؤں کا حصہ اُن کے والد (مدعیان کے نانا) کے ترکے میں طلب کیا۔ اپنے مرحوم والد کے ورثا ہونے کی بنا پر ہمیں بھی اس مقدمے میں فریق بنا لیا گیا کہ ہمارے والد نے اُس زمین میں سے ایک حصہ خریدا تھا، جو اپنی فروخت کے 45 برس بعد متنازعہ بنا دی گئی۔ حالاں کہ حقیقت یہ تھی کہ میرے والد نے جس شخص سے زمین خریدی تھی، وہ بھی اپنے دادا کے ترکے میں اتنے ہی حصے کا حق دار تھا، جتنا کہ وہ فروخت کرچکا تھا۔ کیوں کہ اُس کا والد بھی اُس کے دادا (یعنی اپنے والد) کے ورثا میں سے تھا۔
مجھے اپنی اور اپنے بہن بھائیوں کی خاطر سے اپنا دفاع پیش کرنا پڑا۔ کیوں کہ ہم اُس زمین کے وارث تھے، جو میرے مرحوم والد نے خریدی تھی اور اب متنازعہ بنا دی گئی۔ مَیں چوں کہ عدالت کی کارروائی اور ممکنہ پیچیدگیوں سے واقف نہیں تھا، اس لیے یہ سمجھ رہا تھا کہ معاملہ صاف اور سیدھا ہے۔ اس لیے اس کا فیصلہ جلدی ہوجائے گا…… لیکن چند ماہ کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میرا یہ خیال غلط فہمی پر مبنی تھا اور مَیں نے عدالت کی وہ پرچیاں جمع کرنا شروع کردیں جن پر مقدمے کی اگلی کارروائی کی تاریخ درج ہوتی تھی۔ قصہ مختصر یہ کہ چھے سال اور آٹھ ماہ لگے کہ سول جج؍ علاقہ قاضی اس مقدمے کی کارروائی مکمل کرے اور فیصلہ سنا سکے۔ پھر اس کے بعد چودہ ماہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج؍ اضافی ضلع قاضی کی عدالت میں جہاں زیریں عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی گئی تھی۔ یہ پرچیاں مَیں نے یادگار کے طور پر رکھ لی تھیں اور اُن کی تعداد 124 ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مَیں نے 124 دن عدالت میں حاضری دی (جن دنوں کی یہ پرچیاں محفوظ نہ رہ سکیں، ان کا شمار نہیں۔) دوسرے الفاظ میں دو عدالتوں میں اس مقدمے نے کُل ملا کر میری زندگی کے چار ماہ کے مساوی وقت لیا اور اس وقت کا کوئی حساب نہیں جو اس دوران میں، مَیں نے قانونی مشوروں میں گزارا، جو ذہنی پریشانی اور مالی بوجھ مجھے برداشت کرنا پڑا وہ الگ۔
اس کے علاوہ مجھے عدالت میں پیش ہونے کے لیے اپنے کالج سے ایک دن کی اتفاقی رخصت لینا پڑتی تھی، جن دنوں کالج کھلا ہوتا، اس لیے میرے طالب علموں کو بھی مشکل اٹھانا پڑی اور ان کا وقت ضائع ہوا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ مقدمے کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر ہے اور یہ یقینا سپریم کورٹ تک جائے گا۔ دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ اتنا طویل اور تھکا دینے والا عمل ایک بہت ہی سیدھا مقدمہ میں اور شرعی نظامِ عدل ریگولیشن 1999ء کے نفاذ کے باوجود جاری ہے۔
لوگوں میں مایوسی اور بڑھ گئی جب ’’نفاذِ نظامِ شریعہ ریگولیشن 1994ء‘‘ اور شرعی نظامِ عدل ریگولیشن، 1999ء کوئی واضح تبدیلی نہیں لاسکے…… نہ عدالتی کارروائی میں اور نہ قوانین میں۔
جو واحد تبدیلی سامنے آئی، وہ یہ تھی کہ اُردو عدالت کی زبان بن گئی اور سول جج، سینئر سول جج، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو بالترتیب علاقہ قاضی، اعلا علاقہ قاضی، اضافی ضلع قاضی اور ضلع قاضی بھی کہا جانے لگا۔ یہ دیوانی اور فوج داری دونوں طرح کے مقدمات کی سماعت کرتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ مجسٹریٹ؍ علاقہ قاضی بھی ہیں جن کو صرف فوج داری مقدمات کی سماعت کا اختیار ہے اور وہ سول جج نہیں بن سکتے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اس دوران میں خواتین ججز بھی سوات میں بھیجی گئی تھیں جو جج کے طور پر فیملی کورٹ ؍سول جج ؍ علاقہ قاضی کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں۔ اس سے مخاصمت میں مزید اضافہ ہوا۔ اس لیے کہ اسلامی قانون کے تحت خواتین کو جج کے طور پر کام کرنے کا مجاز نہیں سمجھا جاتا۔
موجودہ عدالتی صورتِ حال کی خصوصیات میں طویل کارروائی، غیر ضروری تاخیر، تکنیکی مشکلات، اخراجات اور بعض معاملوں میں رشوت ستانی بھی شامل ہیں۔ مزید یہ کہ معاشرے کے بعض طبقوں کو خواتین ججوں کی نام زدگی قبول نہیں۔ ان سب باتوں سے مخاصمت میں اضافہ ہوا، اور اس نے تحریک نفاذِ شریعت محمدیؐ/ طالبان کے مقصد اور دعوے کو مضبوط کیا۔ جس کا ثبوت عوام الناس میں ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ہے جو اَب یہ کھل کر کہنے لگے کہ ان کے مطالبے نا انصافی پر مبنی نہیں ہیں۔
یہاں یہ سوال پوچھنا برمحل ہوگا کہ آخر کیوں سوات کے لوگ عدالتی نظام میں تبدیلی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے، جب کہ باقی پورے ملک میں ایسا نہیں ہوا؟
ایک قرینِ قیاس وجہ یہ ہے کہ ریاستی دور ہی میں لوگ ایک ایسے نظام کے ساتھ زندگی گزارتے رہے تھے جو زود عمل، کارگر اور کم خرچ تھا اور جس کے بارے میں عوام کو یقین تھا کہ اسلام کے شعائر کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔
صرف عدالتی نظام ہی نہیں بلکہ دوسرے شعبہ ہائے حیات میں بھی سوات کے لوگ ریاست کے بعد؍ موجودہ حالت کا موازنہ ریاست کے دور کے ساتھ کرتے ہیں اور موجودہ حالت کو نسبتاً مایوس کُن پاتے ہیں…… خاص طور پر قانون کی عمل داری، صحت، تعلیم، مواصلاتی نظام، امن اور تحفظ جیسے شعبوں میں۔
٭ پولیس کا کردار:۔
موجودہ صورتِ حال پیدا کرنے میں پولیس نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ عوام کی جانب بے تعلقی کے رویے، رشوت خوری، اذیت رسانی اور مجرموں کے ساتھ اشتراک اور تعاون نے لوگوں میں تلخی اور بے گانگی پیدا کر دی۔ لوگوں کو امن و تحفظ اور امداد فراہم کرنے کے بجائے پولیس عوام کے لیے باعثِ زحمت بن گئی۔ پولیس کی کھلے بندوں بدعنوانی، جس میں پیدا گیری اور بھتا شامل ہیں، ایک کھلے راز کی سی حیثیت رکھتی تھی اور لوگوں میں مخاصمت کا سبب بن گئی۔
اس کے علاوہ پولیس نے تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے اُن اراکین کی بابت توہین اور ظلم و تشدد رکھا جن کو 1994-95ء کی شورش کے دوران میں گرفتار کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کی صفوں میں پولیس کے خلاف بغض وعناد میں مزید اضافہ ہوا۔
٭ خفیہ ایجنسیوں کا کردار:۔
غیر ملکی اور پاکستانی خفیہ اداروں (انٹیلی جنس ایجنسیز) نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔ پاکستانی اور امریکی خفیہ اداروں نے اس علاقے میں اپنے مقاصد کی خاطر عسکریت پسند تنظیموں کو امداد دی۔ ان اداروں نے جہادی تنظیموں (جو طالبان کے پیش رو تھے) کو منظم کیا اور تربیت دی، تاکہ مسلح جہاد (قتال) کے لیے افغانستان میں سوویت یونین کا رَد کرسکیں۔ پاکستان کے خفیہ اداروں نے (جہاد کے نام پر) کشمیر میں بھی یہی کام کیا۔ طالبان دراصل اُن جہادی تنظیموں سے پھوٹنے والی ایک شاخ اور آمیزہ ہیں جنھوں نے افغانستان میں سوویت روس اور کشمیر میں ہندوستان کے خلاف جنگ کی تھی اور یہ نہ صرف خوب اچھی طرح مسلح ہیں بلکہ تربیت یافتہ بھی ہیں۔
اور جب 2001ء میں امریکہ اور اس کے حلیفوں نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کی حکومت کو معزول کر کے ایک کٹھ پتلی حکومت کو مسندِ اقتدار پر بٹھا دیا، تو قتال یا مسلح جہاد کو مزید تقویت حاصل ہوئی۔ اس لیے کہ طالبان اور ان کے حامیوں کا سامنا ایک نئی قابض فوج سے تھا جس کی گرفت سے افغانستان کی اسلامی مملکت کو آزاد کرانا تھا۔ امریکی دباو کے تحت حکومتِ پاکستان کی طرف سے طالبان کی امداد کا خاتمہ اور اس کے ساتھ ساتھ حملہ آور افواج کے لیے نظم و انصرام کی فراہمی اور مختلف طرح کی امداد اور نام نہاد دہشت گردی مخالف جنگ میں طالبان مخالف اور القاعدہ دشمن کارروائی میں آگے آگے ہونے پر نہ صرف افغان طالبان اور القاعدہ کے بغض و عناد میں اضافہ ہوا بلکہ خود پاکستان کے اندر اُن کے حمایتی اور رفیقِ کار بھی غصے میں آگئے۔
افغانستان میں اتحادی افواج کی موجودگی، سرحد عبور کرکے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ان کے حملے جن کا ہدف طالبان اور ان کے حمایتی تھے، اتحادی افواج کے لیے پاکستانی حکومت کی حمایت، طالبان کے خلاف اس کی کارروائی اور آپریشن، جس میں ان کو دہشت گرد قرار دینا اور ان کے ساتھ مذاکرات کے لیے شرائط عائد کرنا، ان سب نے جلتی پرتیل کا کام کیا۔ ان عوامل نے مل کر طالبان کو مزید ہٹ دھرم، کٹر اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پہلے سے بھی زیادہ سخت گیر اور کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے پر مائل بنادیا۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان، پاکستانی افواج اور خفیہ اداروں کی تخلیق ہیں۔ انھوں نے ماضی میں نہ صرف کشمیر اور افغانستان میں طالبان کی مسلح جد و جہد سے فائدہ اٹھایا ہے، بلکہ طالبان کو مستقبل کے لیے بھی مفید سمجھتی ہیں۔
مزید برآں، جس طریقے اور انداز سے فوجی کارروائی اور نام نہاد آپریشن پر عمل درآمد ہوا (2008ء-2007ء) اس سے اس شبے کو تقویت ملتی ہے کہ اس کی تہہ میں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ مزید برآں، 3 نومبر 2007ء کا جنرل پرویز مشرف کا غیر آئینی اقدام یعنی سوات اور وزیرستان میں طالبان کی دراندازی کے بعد ملک میں ایمر جنسی کا نفاذ، اس نظریے کو تقویت دیتا ہے کہ اس تمام معاملے میں خفیہ اداروں نے یقینا کردار ادا کیا۔
تاہم طالبان بڑے زور و شور سے اس قضیے کو مسترد کرتے ہیں کہ اُن کا پاکستانی فوج سے تعلق یا خفیہ معاہدہ ہے یا یہ کہ موجودہ لڑائی محض فریبِ نظر ہے۔ اس کا ثبوت اس تقریر سے ملتا ہے جو طالبان کے ایک رہ نما، شاہ دوران نے اپنے ایف ایم ریڈیو اسٹیشن پردی تھی اور جس میں انھوں نے طالبان کو اس بات کا حکم دیا کہ جو لوگ سوات میں حالیہ جنگ (حکومت کی افواج اور طالبان کے درمیان) کو محض دکھاوا قرار دیتے ہیں، یا یہ کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج بھی مسلمان ہیں اور یہ کہ طالبان نے فوج سے ایک خفیہ معاہدہ کر رکھا ہے، تو ان کو جان سے مار ڈالا جائے۔ اس دور کی وفاقی حکومت (2002ء تا 2007ء) نے اور خفیہ ادارے اور ان کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پاکستان پیپلز پارٹی (شیرپاؤ) جو وفاقی سطح پر حکومت کے حلیف تھے…… در پردہ فضل اللہ کی حمایت کر رہے تھے کہ اس وقت کی متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی صوبائی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کردیں، جب کہ ایم ایم اے کی حکومت دوسرے لوگوں کی بہ نسبت طالبان کو برداشت کرنے کی روادار تھی کہ اسے اندازہ تھا کہ طالبان کی طرح وہ بھی اسلامی نظام کی خاطر جد و جہد پر عمل پیرا ہے اور اسی لیے ان لوگوں کے لیے مخالفت کا سامان نہیں کرسکتی، جو اس مقصد کی وکالت کر رہے ہیں اور اس کی خاطر جد و جہد کر رہے ہیں۔ اور رہ گیا سوال فضل اللہ اور ان کے حامیوں کے خلاف اقدام سے لا تعلقی یا مخالفت کا، تو سوات کے علاقے سے قومی اسمبلی کے ممبر اور ایم ایم اے کے رکن، قاری عبدالباعث نے کہا: بہت سے طالبان نے 2002ء انتخابات میں ایم ایم اے کے حق میں ووٹ دیا تھا، ہم اُن کو ناراض نہیں کرسکتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ ہمارا حلقۂ انتخاب ہیں۔‘‘ اس قسم کی پالیسی نے فضل اللہ کی حمایت میں اضافہ کیا اور ان کو اور ان کے مقصد کو ایک مختصر سی مدت میں شہرت عطا کردی۔
٭ دوسرے کارفرما عوامل:۔
علاقے کے فطری حسن سے مالا مال مناظر اور پُر ثروت تاریخی ماضی نے بھی یہاں حالات کے بگاڑنے میں کردار ادا کیا۔ بعض لوگوں کو یقین ہے کہ مری میں ہوٹلوں اور سیاحت کے کاروبار سے وابستہ افراد نے سوات میں شورش پیدا کرنے کے لیے رقوم فراہم کیں اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے سوات کے حالات کو مبالغے کے ساتھ پیش کیا، تاکہ یہاں سے سیاحوں کی آمد و رفت ان کے علاقوں تک منتقل ہوجائے۔ لہٰذا اس طریقے سے سوات کے دل کش مناظر اس کے لیے مشکلات اور بد قسمتی کا سبب بن گئے۔ اس حوالے سے پشتو کا یہ ٹپہ ذہن میں آتا ہے:
خپلہ حٔوانی راپورے اورشوہ
لکہ ستی پہ اور کی پٹہ ناستہ یمہ
ترجمہ: میرا شباب میرے لیے وبالِ جان بن گیا۔ ستی کی طرح میں اس میں چاروں طرف سے آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ہوں۔
جس وقت سوات کی ریاست قائم تھی، بیرونی باشندوں کو یہاں رہایش سے پہلے ضمانت نامے داخل کرنا پڑتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث نہ ہونے پائیں۔ ان کو والی یا اس کے ولی عہد کی اجازت کے بغیر زمین خریدنے کی ممانعت بھی تھی اور یہ اجازت شاذ و نادر ہی ملا کرتی تھی۔ کاروبار اور صنعت و حرفت کے لیے بھی ضمانت داخل کرنا پڑتی تھی۔ ریاست کے انضمام کے بعد اس قسم کی بندشیں اور پابندیاں نرم پڑگئیں اور ٹیکس کی چھوٹ (کیوں کہ یہ علاقہ آئینی طور پرقبائلی علاقوں کے زمرے میں آتا تھا) کے سبب کاروبار، تجارت، صنعت، سیاحت، اُجرت پر کام اور دوسری ایسی سرگرمیوں کے لیے باہر سے سوات میں داخل ہونے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ سوات میں دوسرے علاقوں سے، خاص طور پر دیر، باجوڑ، مہمند، خیبر کے قبائلی علاقوں سے اور افغانستان سے دوسرے لوگ، جن میں جرائم پیشہ بھی شامل تھے، یہاں آکر رہنے لگے اور اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ اس علاقے میں طاقت کا ڈھانچا تبدیل ہوگیا اور آبادی میں اضافہ ہوا…… یہ ان عوامل میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے علاقے میں شورش اور بدامنی ہوئی۔
اس بدامنی کا ایک اور سبب عام طور پر اس منصوبے کو بھی قرار دیا جاتا ہے کہ سیدو شریف کے موجودہ ہوائی اڈے کو (جو تحصیل کبل میں واقع ہے) ایک فوجی طیارہ گاہ میں تبدیل کردیا جائے۔ اس ائیرپورٹ میں توسیع کے لیے نئی حدبندیاں تین سال پہلے ہی نشان زدہ ہوچکی تھیں لیکن جن لوگوں پر اس فیصلے کا اثر پڑے گا (ڈھیرئی اور بانڈئی گاؤ کے باشندے) انھوں نے مخاصمت کا اظہار کیا اور فیصلے کی مخالف کی۔ اس کے علاوہ، یہاں سوات میں ایک فوجی چھاؤنی کے قیام کا منصوبہ بھی ہے، لہٰذا فضل اللہ کو شروع میں جو کھلی چھوٹ دی گئی اور پاکستان مسلم لیگ (ق گروپ) اور پاکستان پیپلز پارٹی (شیرپاؤ گروپ) نے ابتدا میں اس کی حمایت کی، جب یہ دونوں جماعتیں مرکزی حکومت میں شریک تھیں۔ آئی ایس آئی جیسے خفیہ اداروں کی مبینہ حمایت اور نتیجے میں ظاہر ہونے والی شورش جس نے موجودہ صورت حال کو جنم دیا، ان تمام کو اس نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ فوجی طیارہ گاہ اور چھاؤنی کے قیام کے لیے راہ ہم وار کرنے کی کوششیں ہیں۔
اس سے یاد آتا ہے کہ وفاقی حکومت اور اس کے اداروں نے 1980ء کی دہائی میں سندھ میں پنو عاقل کی فوجی چھاؤنی کے قیام کے لیے اور گذشتہ چند برس میں بلوچستان میں سوئی اور ڈیرہ بگٹی میں چھاؤنیوں کے لیے کیا کیا تھا۔
اس مفروضے کی توثیق، صوبائی حکومت کے گورنر اویس احمد غنی کے اُس حالیہ اعتراف سے مل گئی جب کوہستان کی جانب رُخ کرتے ہوئے وہ مینگورہ میں تھوڑی دیر کے لیے ٹھہرے اور کچھ اس قسم کا بیان دیا کہ ’’ایک اصولی فیصلہ کیا جاچکا ہے کہ سوات میں فوجی چھاؤنی قائم کی جائے گی اور اس کے لیے ابتدائی منصوبہ بندی کا آغاز ہوچکا ہے۔‘‘
دل چسپ بات یہ ہے کہ فروری 2008ء میں یہ خبر اخباروں میں شائع ہوئی تھی کہ سوات میں امن و امان کی صورت حال کے پیشِ نظر فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہاں چھاؤنی قائم کی جائے گی، اس چھاؤنی کے قیام کے ذریعے سوات میں امن و امان کی صورتِ حال کا موجودہ مسئلہ حل کرلیا جائے گا اور مقامی باشندوں کے علاوہ سیاحوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جاسکے گا۔
یہ بودی دلیل یوں قائم کی گئی کہ سوات اور اس کے عوام ابھی تک پستی کی حالت میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ایسے اقدامات کے ذریعے ان کی خوش حالی میں اضافہ ہوگا۔
دل چسپ بات یہ بھی ہے کہ عائشہ صدیقہ، نام ور عالم اور تجزیہ نگار جنھوں نے پاکستان کے فوجی معاملات پر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے، اس موضوع پر دسمبر 2007ء میں ایک مضمون لکھ چکی تھیں جس کا عنوان تھا ’’فوجی چھاؤنیوں کی سیاست‘‘۔ خاصے طنزیہ لہجے میں انھوں نے لکھا کہ سوات میں فوجی چھاؤنی کے قیام کی حالیہ کوششیں، فوج کے اس احساس کا نتیجہ ہیں کہ ملک میں یک جہتی پیدا کرنے کے لیے اور سوات میں دہشت گردوں کے خطرے سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ سوات میں فوجی چھاؤنی قائم کردی جائے۔
اس مضمون کے آخری حصے میں عائشہ صدیقہ رقم طراز ہیں کہ فوجی چھاؤنی کے قیام سے دوسرے فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ مثال کے طور پر یہ کہ مسلح افواج اس اسمگلنگ کی روک تھام کرسکیں گی جو گلگت سے سوات میں جاری ہے۔ فی الوقت بہت سا سامان اس راستے کے ذریعے چین سے یہاں آتا ہے۔
ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ سوات میں تعلیم کا تناسب چوں کہ بہتر ہے اور یہاں ایسے افراد کی تعداد خاصی ہے جو تقریباً ہر میدان میں اور اختصاص کے شعبوں میں اعلا تعلیم یافتہ ہیں، اس لیے سوات کے بہت سے افراد اعلا ملازمتوں پر فائز ہیں…… اس کی وجہ سے صوبے میں اور ملک کے دوسرے علاقوں کے لوگوں میں رقابت کا احساس پیدا ہوتاہے…… شہری ملازمتوں میں بھی اور فوجی ملازمتوں میں بھی اور اسی وجہ سے سوات، اس کے عوام اور یہاں کے اداروں (خاص طور پر تعلیمی اداروں) کو تباہ ہونے دیا گیا۔
افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کی موجودگی، وزیرستان اور دوسرے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں (FATA) میں فوجی کارروائیاں اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن (خاص طور پر جس طریقے سے اس پر عمل درآمد کیا گیا) اور حکومت کا عدالتوں میں اسلامی قوانین کے موثر طور پر نفاذ میں ناکامی…… وہ دوسرے کلیدی عوامل ہیں جن کی وجہ سے پاکستانی طالبان کا دائرہ اثر وزیرستان سے لے کر سوات تک پھیل گیا ہے اور جس کے نتیجے میں موجودہ شورش اور مسلح جد و جہد پیدا ہوئی ہے۔
موجودہ حالت کا المیہ یہ ہے کہ ’’بہت سے کھلاڑی میدان میں اترے ہوئے ہیں۔‘‘ (مقامی سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی) اور ہر ایک اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے…… لیکن جو زک اٹھا رہے ہیں وہ سوات اور اس کے معصوم شہری ہیں۔
٭ مشرف، عدلیہ ٹکراو کا اثر:۔
مارچ 2007ء میں پاکستانی صدر مشرف کا چیف جسٹس اور عدلیہ سے ٹکر او اور اس کے نتیجے میں شروع ہونے والی افراتفری اور تگ و دو نے فضل اللہ کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری و ساری رکھے اور اپنے حلقۂ اثر کو وسعت دے۔ اس لیے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں سے ہر ایک اپنے طورپر دونوں فریق یعنی مشرف اور عدلیہ میں سے کسی ایک کے حق اور دوسرے کی مخالف سرگرمیوں میں مشغول و مصروف رہا اور سب سیاسی جماعتوں، غیر سرکاری تنظیموں اور غیر ریاستی حلقوں یا سول سوسائٹی نے بھی اپنی بندوقوں کا رُخ اس طرف موڑا اور ان کی سرگرمیاں اس معاملے پر مرتکز رہیں۔ اس تناظر میں سوات کا مسئلہ اور فضل اللہ کی سرگرمیاں پیش منظر میں چلی گئیں۔ نتیجتاً فضل اللہ اور تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدیؐ نے ان حالات کا فائدہ اٹھایا، کشیدہ ملکی صورتِ حال کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، اپنی طاقت اور پوزیشن کو کافی مضبوط بنایا اور علاقے کو عملاً اپنی گرفت اور کنٹرول میں رکھا۔
٭ فوج کے طرزِ عمل کا اثر:۔
اگرچہ فوجی دستوں کو جولائی 2007ء میں سوات اس لیے بھیجاگیا تھا کہ وہ فضل اللہ کی سرگرمیوں اور بڑھتی ہوئی طاقت کو قابو اور حکومتی عمل داری کو بحال کریں، لیکن فوج عملاً بے عمل اور اس کی سرگرمیوں کا تماشائی رہی۔ یہ فوج کی موجودگی ہی میں تھا کہ فضل اللہ پہلی دفعہ ذاتی طورپر کیل کانٹے سے لیس اپنی تمام تر قوت اور طاقت کے ساتھ اپنے گاؤں سے باہر آیا اور نہ صرف اپنی قوت اور طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا بلکہ اپنے گاؤں اور مرکز سے کئی کلومیٹر دور کبل کے میدان میں عید کی نماز ادا کی۔ ستم ظریفی یہ دیکھیے کہ فوج جوکہ کبل گالف کورس میں تعینات تھی، نے فضل اللہ سے استدعا کی وہ اُن کے پیچھے نمازِ عیدادا کرنا چاہتی ہے۔ اجازت ملنے پر فوج کے جوانوں نے ان کی امامت میں نمازِ عید ادا کی اور اس کے بعد جب فوجی آپریشن شروع ہوا، تو فوج نے نومبر 2007ء سے فروری 2009ء تک آپریشن اس انداز میں کیا کہ طالبان کو نہیں بلکہ عوام کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔ مذکورہ عوامل اور ساتھ ساتھ اس دوران میں پاک فوج نے عوام کے ساتھ جو طرزِ عمل اپنایا، جس طریقے سے فوجی جوان ان کے ساتھ پیش آتے رہے اورجو نقصان عوام اور عوامی املاک کو پہنچایا گیا، اس نے فوج کے خلاف بد اعتمادی اور اضطراب پیدا کیا اور یہ طرزِ عمل طالبان کے لیے نرم گوشے اور حمایت کا سبب بنا۔
٭ موجودہ منظر نامہ:۔
چوں کہ حکومت اور فضل اللہ اپنی اپنی باتوں پر ڈٹے رہے اور ان میں سے کوئی بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں تھا، لہٰذا اکتوبر 2007ء میں صورتِ حال بہت کشیدہ ہوگئی۔ حکومت نے مزید فوجی دستے سوات بھیج دیے اور بظاہر کچھ مسلح تصادم بھی ہوئے، لیکن ساتھ ساتھ حکومت اس قضیے کے پُرامن حل کی بات بھی کر رہی تھی، جیسا کہ اُس وقت صوبائی گورنر نے کہا تھا کہ فوجی آپریشن آخری راستہ ہوگا (تاہم صدر مشرف نے اُسی دن دوسرے فریق سے ہتھیار ڈالنے کو کہا) جب کہ دوسرے فریق نے بھی بظاہر جنگ کی مخالفت کی بات کی اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کے تصفیہ کی خواہش کا اظہار کیا، تاہم ساتھ ساتھ انھوں نے فوج کے سوات سے نکالنے، اسلامی قوانین کے نفاذ اور صوفی محمد (جو اس وقت جیل میں تھے) کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
بہرحال نومبر 2007ء میں فوج نے آپریشن راہِ حق کے نام سے فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔ اس دوران میں کئی مقامات پر سکیورٹی فورسز اور طالبان کا بظاہر ٹکراو رہا اور سکیورٹی فورسز کی بم باری اور گن شپ ہیلی کاپٹروں اور توپ خانہ کی بڑے پیمانہ پر گولہ باری اور مارٹر باری جاری رہی، لیکن ان کا زیادہ تر نشانہ طالبان اور ان کے مورچے نہیں بلکہ سواتی عوام اور پہاڑ ہوتے، تاہم چند روز بعد فضل اللہ اور اس کے شورا نے اپنے جنگ جوؤں کو سڑک کنارے اپنے مورچے خالی کرانے کا حکم دیا، تاکہ عوام کو بم باری، گولہ باری اور مارٹر باری کے مزید نقصانات سے بچایا جاسکے اور خود زیرِ زمین چلے گئے۔ انھوں نے اپنے زیرِ زمین چلے جانے کو جنگ سے فرار نہیں بلکہ جنگی حکمتِ عملی کی تبدیلی قرار دیا۔
جنوری 2008ء کے اختتام تک صورتِ حال ٹھنڈی ہوتی ہوئی نظر آئی، لیکن اس دوران میں بڑے پیمانے پر بغیر کسی صرفِ نظر کے بم باری، گولہ باری اور مارٹر باری نے بے گناہ عوام کو نہ صرف بڑا جانی اور مالی نقصان پہنچایا بلکہ کثیر تعداد میں عوام کو سوات کے اندر ہی نقلِ مکانی بھی کرنی پڑی۔ عوام کو سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مختلف صورتوں میں پہنچایا گیا، مالی نقصان کئی ارب روپے کا تھا۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہونے والے افراد کسی کیمپ میں نہیں گئے، بلکہ سوات کے اندر یا باہر اپنے رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرے اور یا کرایہ کے مکانوں میں۔
فوج نے اپنی کام یابی اور صورتِ حال کو قابو کرنے کا دعوا کیا اور فروری 2008ء میں ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح سوات میں بھی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کرائے گئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں صوبے میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی سرکردگی میں ایک مخلوط حکومت بنوائی گئی۔ چوں کہ اے این پی نے انتخابات کی مہم کے دوران میں صوبے میں امن وامان کی بحالی اور کشیدہ حالات کو معمول پر لانے کا نعرہ لگایا تھا، لہٰذا صوبائی حکومت نے صوفی محمد اور فضل اللہ کی تنظیموں سے گفت و شنید کی، جس کے نتیجے میں معاہدے ہوئے اور صوفی محمد جیل سے رہا کیے گئے۔ اُن معاہدوں میں دوسری چیزوں کے علاوہ حکومت نے اسلامی قوانین کے نفاذ کا وعدہ کیا (جس کا مطالبہ دوسرا فریق کررہا تھا) اور دوسرے فریقین یعنی تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدیؐ اور تحریکِ طالبان سوات نے اپنے طورپر دوسری چیزوں کے علاوہ اس بات کا وعدہ کیا کہ وہ تمام جائز کوششوں اور امن وامان کی بحالی اور برقرار رکھنے میں حکومت کا ساتھ دیں گے۔ تاہم جلد ہی فریقین کے درمیان بعض نِکات پر اختلافات سامنے آئے اور ہر ایک نے دوسرے پر معاہدوں کی پاس داری اور عمل درآمد نہ کرنے کا الزام لگایا۔ نتیجتاً تعلقات اور حالات ایک بار پھر کشیدہ اور نئے مسلح تصادم پر منتج ہوئے۔
سکیورٹی فورسز نے آپریشن راہِ حق کا دوسرا مرحلہ شروع کیا، جب کہ دوسرے فریق یعنی تحریکِ طالبان سوات نے اپنی نئی حکمت عملی اور لائحہ عمل مرتب کیا۔ تاہم یہ سب ایک دفعہ پھر عوام ہی کے لیے بے پناہ جانی و مالی نقصانات اور مشکلات کا باعث بنا۔ علاوہ ازیں ایک طویل اور مسلسل کرفیو (جو رمضان کے مہینے میں بھی مسلسل 22 روز تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہا اور جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی، اس لیے کہ یہ کبھی کسی وقفے اور کبھی بغیر کسی وقفے کے 11 ماہ تک جاری رہا) اور بجلی اور ٹیلیفون کے کٹ جانے نے عوام کو مزید مصائب و مشکلات سے دوچار کیا۔
سوات میں کشیدگی کے اس نئے مرحلے میں ایک فریق نے انسانوں کے سرکٹوانے، ان کو ذبح کرنے، مخصوص افراد کا قتل کرنے اور سرکاری تنصیبات (خاص کر تعلیمی اداروں، پلوں، پولیس چوکیوں اور تھانوں) کو بارود سے اُڑانے اور تباہ کرنے کا لائحہ عمل طے کیا، تو دوسرے فریق نے بے تحاشہ بم باری، گولہ باری اور مارٹر باری کا طریقۂ کار اپنایا جو عام طورپر حملہ آور افواج اپناتی ہیں۔ مخصوص رہایشی مکانات، کوٹھیوں، دکانوں اور تجارتی مراکز وغیرہ کا بارود سے اُڑانا اور تباہ کرنا دونوں فریق یعنی طالبان اور سکیورٹی فورسز کا معمول بن گیا۔ اگر ایک فریق کا طرزِ عمل عوام کی اکثریت کے لیے افسردگی، مشکلات و مصائب اور اضطرار کا سبب تھا، تو دوسرے فریق کی کارستانیوں نے عوام کو اسے ایک محافظ کے بجائے ایک مقبوضہ طاقت تصور کرنے پر مجبور کیا۔
چوں کہ سکیورٹی فورسز کے لائحہ عمل کے نتیجے میں بے گناہ عوام ہی مارے جارہے تھے اور عوام ہی مصیبتیں اور مشکلات جھیل رہے تھے، اس لیے اس نے طالبان کے لیے ہم دردی اور حکومت اور فوج کے خلاف نفرت اور ناراضی پیدا کی۔ حتیٰ کہ اے این پی کے ارکانِ اسمبلی اور وزرا نے بھی فوج کے طرزِ عمل اور آپریشن کے قابلِ اعتبار ہونے سے متعلق اپنے تحفظات کا کھل کر اسمبلی میں اور اسمبلی سے باہر اظہار کیا اور حاجی عدیل (اے این پی کے سینئر نائب صدر اور رکن پاکستان سینٹ) نے کہا کہ سوات میں فوجی آپریشن کا کیا اعتبار کیا جائے گا، جب وزرا کے گھر تباہ کیے جاتے ہیں اور ان کے خاندان کے ارکان گولی مارنے کے لیے قطاروں میں کھڑے کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ عوام کا حکومت اور فوج پر اعتماد نہیں رہا۔
تنازعہ اور غیر یقینی صورتِ حال جاری رہتے ہوئے فوج نے آپریشن راہِ حق کے دوسرے مرحلے کے بعد تیسرا مرحلہ بھی شروع کیا جس کے بارے میں فوجی حکام کا دعوا تھا کہ یہ تیز ترین فوجی کارروائی ہے، لیکن اس کے باوجود ہر گزرنے والے دن کے ساتھ طالبان کی قوت، قبضہ اور طاقت بڑھتی اور پھیلتی رہی جب کہ حکومت کی رِٹ کم اور سکڑتی گئی۔ اس صورتِ حال کا المیہ یہ تھا کہ اس میں ملکی اور غیر ملکی دونوں سطحوں پر بہت سے کھلاڑی اور قوتیں ملوث تھیں، جن میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا مفاد تھا، لیکن اس میں مسلسل زِک اور نقصان اُٹھانے والے سوات اور اس کے عوام تھے، جب کہ حکومت بات چیت اور نئے معاہدے کے لیے پیشگی شرط کے طور پر طالبان کا غیر مشروط ہتھیار ڈالنے پر زور دے رہی تھی۔ طالبان بھی اپنے مطالبات پر اَڑے ہوئے تھے، جن میں فوج کی سوات سے واپسی، اسلامی قوانین کا نفاذ، فوج کے ہاتھوں ان کے نقصانات کا اِزالہ اور معاوضہ، اور ان کے گرفتار ساتھیوں کی غیر مشروط رہائی ان کی مسلح جد و جہد کو ختم کرنے کی پیشگی شرط تھی۔
سوات اور سواتی عوام دوراہے پر کھڑے تھے۔ بالآخر صوبائی حکومت نے 15 فروری 2009ء کو صوفی محمد کے ساتھ ایک نیا معاہدہ کیا اور لڑائی تھم گئی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ اس امن معاہدے پر ہندوستان، امریکہ اور افغانستان (خا ص کر ہندوستان) کا ردِعمل غیر معمولی حد تک منفی تھا۔ حتیٰ کہ فرانس وغیرہ جیسے ممالک (جو اَبھی تک سوات میں عسکریت پسندی اور کشیدگی کے ضمن میں خاموش اور بے عمل تھے) بھی خاموش نہ رہ سکے اور افغانستان اور پاکستان کے لیے فرانس کے نئی خصوصی مندوب نے بعد میں نئی دہلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان میں طالبائزیشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ معاہدۂ سوات کی گونج پوری دنیا میں سنائی جا رہی ہے۔ یہ ردِ عمل سوات کے معاملہ، کشیدگی اور تباہی میں غیر ملکی عناصر اور قوتوں کی کسی نہ کسی صورت میں ملوث ہونے کی غماز ہے۔
بہر حال معاہدہ کے بعد صوفی محمد سوات آئے، یہاں پر اپنا کیمپ لگایا اور مختلف علاقوں میں امن ریلیاں نکالیں۔ حالات بظاہر معمول پر آرہے تھے اور فریقین کے جذبات ٹھنڈے پڑرہے تھے۔ زبانی وعدوں اور بات چیت کے مدِ نظر یہ توقع کی جارہی تھی کہ صوفی محمد نہ صرف سوات میں امن کی بحالی اور طالبان کو غیر مسلح کرنے میں کردار ادا کرے گا، بلکہ ایک جلسۂ عام میں عسکریت پسندی کی مذمت بھی کرے گا اور حکومت اور افواج کے خلاف لڑائی کو ناجائز قرار دے گا۔ تاہم 19 اپریل 2009ء کو مینگورہ کے گراسی گراؤنڈ میں ایک بڑے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے اُس نے متوقع باتوں کے بجائے مختلف ریاستی اداروں کو ہدفِ تنقید بنایا جس نے نہ صرف ایک ہلچل مچا دی بلکہ حالات کو بہتری کے بجائے بدتری کی طرف لے جانے کے لیے راہ ہم وار کی۔
یاد رہے کہ 2007ء سے اپریل 2009ء تک فضل اللہ اور تحریکِ طالبان سوات اپنے ایف ایم ریڈیو کے ذریعے سوات میں عملاً حکومت کرتے رہے۔ ان کی نشریات نہ صرف بغیر کسی حکومتی اور فوجی مداخلت اور خلل کے ایک خاص اور معینہ لہروں (فریکونسی) اور وقت پر جاری رہیں بلکہ فریکونسی( لہروں کی استعدادِ کار) کو مسلسل بڑھایا جاتا رہا جس نے تحریکِ طالبان سوات کو اپنا اثر اور حکم رانی کو نہ صرف سارے سوات بلکہ دیر، شانگلہ اور ملاکنڈ کے بعض حصوں تک وسعت دینے کے قابل بھی بنایا۔
اگرچہ فروری 2009ء میں بظاہر جنگ بندی عمل میں لائی گئی اور امن بحال ہوا، لیکن اندر ہی اندر دونوں فریق یعنی طالبان اور فوج میں سے ہر ایک اپنی پوزیشن کو مضبوط بناتا رہا اور دونوں اپنے اعصاب کو ایک نئے اور فیصلہ کن معرکے کے لیے تیار کر تے رہے۔ سوات میں اپنی پوزیشن کو مضبوط تر کرنے کے ساتھ ساتھ طالبان نے کمشنر ملاکنڈ ڈویژن سید محمد جاوید کی کھلی آشیرباد سے دیر اور بونیر میں در اندازی کی۔ دیر اور بونیر میں سوات سے طالبان کی اس در اندازی اور وہاں کے لوگوں کو جس طریقے سے اُن کے سامنے بے بس بنا دیا گیا، کو بعض حلقے ریاستی اداروں کی ایک چال اور حکمت عملی سمجھتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ریاستی اداروں اور حکومتی اہل کاروں کی آشیر باد اور اشتراک عمل سے یہ در اندازیاں اس لیے کی گئیں کہ طالبان کے معاملے میں ہیجان اور ارتعاش پیدا کرکے ایک بڑی فوجی کارروائی کے لیے میدان تیار اور جواز پیدا کیا جائے۔ حقیقت جو بھی ہو، دیر اور خاص کر بونیر میں طالبان کی در اندازی کو میڈیا نے خوف ناک اور مہیب بنایا اور اسے اسلام آباد کی طرف پیش قدمی اور پاکستانی جوہری ہتھیاروں پر قبضہ کرنے کی سمت ایک اہم اور خطرناک قدم قرار دیا۔
حکومت نے دیر اور بونیر میں طالبان کی در اندازی کو 15 فروری 2009ء کی صوبائی حکومت اور تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے مابین ہونے والے معاہدہ کی خلاف ورزی قرار دیا اور اس وجہ سے ان علاقوں میں فوجی کارروائی شروع کی۔
دوسری طرف صوفی محمد نے الزام عائد کیا کہ یہ فوجی کارروائیاں شروع کرکے حکومت نے سوات امن معاہدہ کی خلاف ورزی کی جب کہ طاہر کا تخلص استعمال کرنے والے طالبان کے ایک کمانڈر نے کہا کہ صوبائی حکومت کے ساتھ امن معاہدہ عملی طورپر ختم ہوچکا ہے، لیکن ہم کوئی فیصلہ کرنے کے لیے صوفی محمد کی بات کے منتظر ہیں۔
اس پس منظر میں 30 اپریل 2009ء کو جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کی اعلا عسکری قیادت نے اس بات کا اِعادہ کیا کہ وہ ملاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندی کو کسی صورت برداشت نہ کرنے میں حکومت کی مدد کریں گے۔ اگرچہ سوات میں نئی فوجی کارروائی پہلے ہی 5 مئی کو شروع ہوچکی تھی، لیکن وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے 7 مئی 2009ء کو قوم سے اپنے خطاب میں اس تازہ کارروائی کا جواز پیش کرتے ہوئے اس کا باقاعدہ اعلان کیا۔ سوات میں اس نئی فوجی کارروائی کو آپریشن راہِ راست کا نام دیا گیا۔
ایک ہندوستانی تجزیہ نگار ریٹائرڈ بریگیڈئر گرمیت کنول نے پہلے ہی سے اکتوبر 2008ء میں پاکستان کی اعلا عسکری قیادت کو یاد دلایا تھا کہ انھیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ توپ خانہ کی گولہ باری اور ہیلی کاپٹروں اور ہوائی فوج کی بم باری سے رہایشی علاقوں اور قصبات کو نشانہ بنانا حقیقت میں فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ہے۔ لہٰذا میدان میں (موقع پر) موجود افسروں کو یہ ضرور سمجھنا چاہیے کہ وہ معصوم شہریوں اور مسلح جنگ جوؤں کے درمیان تفریق کریں اور بزرگ شہریوں، عورتوں اور بچوں کے تئیں حقارت آمیز رویہ اپنانے کے بجائے ان کا ضروری خیال رکھیں، تاہم اس مشورہ کے برعکس سواتی عوام کے اندیشے اور خدشات اُس وقت درست ثابت ہوئے جب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے جیٹ جہازوں، گن شپ ہیلی کاپٹروں اور توپ خانے سے بلاتمیزو تفریق بم باری اور گولہ باری اور طاقت کا ایسا استعمال شروع کیا جس میں نہ صرف جنگ جوؤں اور عوام میں کوئی تمیز روا نہیں رکھا گیا بلکہ زیادہ تر عوام ہی (بشمول بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کے) نشانہ بنے، جس کی وجہ سے نہ صرف بڑے پیمانے پر عوامی جانی نقصان اور گھروں، عمارات اور زمینی ڈھانچا (Infrastructure) کی تباہی ہوئی بلکہ لاکھوں لوگ خستہ حالی اور بے سرو سامانی کی حالت میں اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے۔ سوات کے سب باسی خواہ وہ سوات سے بے سروسامانی کی حالت میں نکلے یا اندر پھنسے رہے…… کسی نہ کسی شکل میں مصائب اور مشکلات کے شکار ہوئے۔
مزید ستم ظریفی یہ کہ سوات اور سواتی عوام کی یہ عظیم اور مہیب تباہی قدرتی نہیں بلکہ انسانوں کی پیدا کردہ تھی۔ افسوس کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اور فوج یہ کوشش کررہی ہیں کہ اپنے آپ کو اس کی ذمے داری سے بری الذمہ ثابت کریں۔
بہرحال حکومت اور فوج نے جلد ہی اپنے کام یابی کا دعوا کیا اور جولائی 2009ء کے آخری نصف میں سوات سے باہر بے گھر افراد کی مرحلہ وار واپسی کی اجازت دی۔ اگرچہ طالبان کی گرفت سست اور کم زور پڑگئی، لیکن سوات اور سواتی عوام فوج کے پنجہ میں آگئے۔ بڑے پیمانے پر تباہی اور بربادی کے علاوہ فوجی اہل کاروں کا رویہ بحیثیتِ مجموعی قابض قوتوں والا رہا۔ ان میں سے اکثر نے نہ صرف مقامی روایات کا خیال نہیں رکھا اور ان کی پاس داری نہیں کی، بلکہ عوام کے ساتھ تو ہین آمیز رویہ اور جابرانہ طور طریقے اپنائے۔
اس کھیل یا مقابلہ کے دو اہم کھلاڑیوں یا فریقین یعنی طالبان اور فوج میں سے طالبان بظاہر ختم ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور فوج اپنی کام یابی کے دعوے کررہی ہے، لیکن آزاد رپورٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے فوج اور حکومتی اہل کار جو دعوے کررہے ہیں، اُن پر من و عن یقین نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ طالبان پہلے کی طرح سڑکوں اور منظر پر نظر نہیں آرہے ہیں، لیکن دوسرے طریقوں سے اب بھی موجود ہیں۔ علاوہ ازیں فوج کی موجودہ کام یابی کو اس پر محمول نہیں کیا جانا چاہیے کہ طالبان کے نظریات اور سوچ بدل یا ختم ہوچکی ہے۔ طالبان اگرچہ اس وقت مادی طورپر شکست خوردہ ہیں، لیکن ان کے نظریات، سوچ اور نصب العین ختم نہیں۔ وہ سب قوتیں اور عامل جو بالواسطہ ملوث ہیں یا بلا واسطہ خواہ وہ قومی ہیں یا بین الاقوامی، اگرعقلِ سلیم سے کام نہیں لیتے اور ان تمام بنیادی مسائل کو حل نہیں کرتے، جو طالبان کے لیے میدا ن تیار کررہے ہیں جس کے نتیجے میں لوگ ان کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ اس طرح اگر پاکستانی سکیورٹی فورسز کے اہل کار اپنی پالیسیوں اور رویوں کو عوام دوست نہیں بناتے، تو خدشہ ہے کہ سوات میں بدامنی کی آگ ایک بار پھر بھڑک اٹھے گی۔ صرف سکیورٹی فورسز کا علاقے میں تعینات اور موجود رکھنا طالبان کے خاتمے اور منظر سے ہٹانے اور امن کی ضمانت نہیں۔ اس کی روشن مثال پشاور چھاؤنی کی ہے جہاں پر فوج کی موجودگی اور فوجی چھاؤنی ہونے کے باوجود چھاؤنی ہی کی دیواروں کو مزید اونچا کرنے اور آہنی باڑوں اور گریلو کو اُکھاڑ کر ان کی جگہ قلعہ نما دیوار اور ان کے پہلو میں ریت کی بوریوں کے پشتے ڈال کر اسے قلعہ بند کیا جا رہا ہے۔ یہی حال دوسرے شہروں جیسے مردان، کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ہے۔ حتیٰ کہ خود سوات ہی میں طالبان کی بہ ظاہر شکست اور منظر سے ہٹانے کے باوجود سکیورٹی فورسز کے اہل کار اپنی حفاظت کے لیے اپنے گرد دیواروں اور ریت اور مٹی سے بھرے ہوئے رکاؤٹوں کا سہارا لے رہے ہیں بلکہ انھیں مزید مضبوط، اونچا اور قلعہ نما بنایا جا رہا ہے۔
طالبان کی شکست کے بعد فوجی حکام نے بعض علاقوں میں عوام کو لشکر بنوانے پر مجبور کیا اور ان سے طالبان کے خلاف سرچ آپریشنز کروائے۔ لشکر دراصل وہ قبائلی افرادی قوت ہوتا ہے جو کسی مخالف یا دشمن کے خلاف بہ وقتِ ضرورت اپنی حفاظت کی خاطر ہتھیار اُٹھا کر میدان میں آتا ہے اور لڑائی کے اختتام پر گھروں کو لوٹتا ہے۔
ستمبر 2001ء کے بعد کے حالات کے تناظر میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا (FATA) اور پاٹا (PATA) میں منظرِ عام پر آنے والے لشکر در حقیقت عوامی یا روایتی لشکر نہیں۔ چوں کہ عوام کو یہ لشکر بنوانے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ایسا کرنے پر انھیں مادی امداد اور کئی قسم کی ترغیبات بھی دی جاتی ہیں، لہٰذا یہ نہ تو روایتی لشکرو ں کی روح رکھتے ہیں اور نہ ان جیسا جواز و قوت۔ اس طرح سکیورٹی فورسز کے حکام امن جرگوں کے نام پر جرگے بنوانے کے روحِ رواں بھی چلے آئے ہیں۔ جرگہ بھی ایک عوامی فورم اور ادارہ ہوتا ہے اور مختلف تناظر میں اس کی ہیئت، نوعیت اور کام بھی مختلف ہوتا ہے۔
جرگہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں تمام وہ افراد یا ان کے نمایندے شامل ہوتے ہیں جو متعلقہ تنازعہ یا مسئلہ کے فریق ہوتے ہیں اور یا متعلقہ جرگہ کے فیصلے ان کے مفادات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ایسے جرگوں میں ہر فریق کو اپنی بات کرنے کی کھلی آزادی ہوتی ہے اور وہ بغیر کسی دباو اور روک ٹوک کے اپنی بات اور نقطۂ نظر پیش کرتا ہے، بلکہ فیصلہ بھی کثرت رائے سے نہیں متفقہ طور پر ہوتا ہے، لیکن مذکورہ بالا جرگوں میں نہ تو تمام فریقین کی نمایندگی ہوتی ہے اور نہ حقیقت میں ان جرگہ ممبران کو اپنا فیصلہ کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ لہٰذا موجودہ لشکروں کی طرح یہ جرگے بھی نہ روایتی جرگوں کی روح اور بنیاد رکھتے ہیں اور نہ ان جیسا جواز اور اخلاقی قوت۔ علاوہ ازیں فوجی اہل کار بعض علاقوں میں عوام سے جبراً گشت کراتے ہیں اور رات کو پہرہ بھی دلواتے ہیں۔ حالاں کہ ریاست اور ریاستی اداروں کے ہوتے ہوئے یہ عوام کا کام نہیں کہ وہ گشت کریں، پہرہ دیں اور اپنی حفاظت یادفاع خود کریں۔ عوام کا کام زراعت، تجارت، صنعت اور دوسرے مختلف عوامی شعبوں میں خدمات انجام دینا ہوتا ہے۔ جب کہ سکیورٹی فورسز کی ذمے داری گشت کرنا، پہرے دینا اور عوام کے لیے زندگی بغیر کسی رکاوٹ کے معمول کے مطابق گزارنا، یقینی بنانا ہوتا ہے اور عوام کو نہ صرف ملک کے شہری ہونے کے ناتے عزتِ نفس اور تحفظ کا احساس دلانا ہوتا ہے بلکہ بغیر کسی تشویش کے آرام سے سونے کے موقع فراہم کرنا بھی ہوتا ہے۔
لشکر، جرگہ اور عوام کے پہرے اور گشت، قبائلیت اور قبائلی طرزِ زندگی کی علامات ہیں۔ سوات سے آخری لشکر 1923ء میں نیک پی خیل سے بونیر کے خلاف نکلا تھا۔ اس کے بعد کسی عوامی لشکر کا نکلنا سامنے نہیں آیا۔ یوں سوات میں اس طرح کے جرگے، عوامی پہرے اور گشت وغیرہ بھی ریاست سوات ہی کے دور میں ختم ہوچکے ہیں۔ اگرچہ پاٹا (PATA) کا حصہ ہونے کے ناتے سوات آئینی طورپر قبائلی علاقہ ہے، لیکن سواتی معاشرہ کسی طور بھی قبائلی نہیں۔ سوات تہذیبی ارتقا کے عمل میں بہت آگے ہے اور اپنی زندگی کے قبائلی مرحلہ اور قبائلیت سے نکل چکا ہے۔ لہٰذا یہاں پر لشکروں اور جرگوں کے بنوانے اور عوام سے گشت اور پہرے کروانے کے ذریعے سواتی عوام اور معاشرہ کو 70، 80 سال پیچھے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، جوکسی طور بھی مثبت علامت نہیں۔ سواتی معاشرہ کے خط و خال اور خصوصیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس عمل سے مزید انتشار، گروہی تنازعات اور معاشرتی بگاڑ کو ایک نئی شکل میں پنپنے کاموقع دینا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ان لشکروں کے اسلحہ اٹھانے اور ان جرگوں کے اقدامات اور فیصلوں کے دور رَس نتائج و عواقب کیا ہوں گے؟ یہ سوال مزید کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے کس قانون کے تحت ان لشکروں کو اختیار حاصل ہے کہ ریاست، وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور کئی ایک متعلقہ اداروں اور محکموں کے ہوتے ہوئے اسلحہ اٹھائے اور عسکری کارروائی کریں اور اس قسم کے فیصلے کریں جیسا کہ لوگوں کو جَلا وطن کرنا، گھروں کو جلانا اور اِملاک ضبط کرنا وغیرہ۔ آخر ان کارروائیوں، اقدامات اور فیصلوں کا جواز اور قانونی حیثیت کیا ہے؟
فوجی آپریشنوں کے وقت سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر تباہی اور پھر ان نقصانات کے سروے اور اندراج میں تاخیر کے علاوہ تمام نقصانات خواہ کم ہوں یا زیادہ (جب سروے اور اندراج کا عمل نومبر 2009ء میں شروع ہوا) مکمل تباہ شدہ عمارات (لیکن وہ بھی صرف وہ جن کا اندراج کیا گیا) کے لیے بالترتیب ایک لاکھ ساٹھ ہزار (160,000) اور چار لاکھ (400,000) روپے کی یکساں شرح سے حقیر رقم کا اعلان اور تباہ شدہ گھریلو سامان اور دوسری چیزوں اور باغات و فصلوں کے نقصانات وغیرہ کا معاوضہ نہ دینا، سکیورٹی فورسز کا عوام کی رہایش گاہوں اور عمارات پر قبضہ اور ان کو ان کے اپنے گھر ہونے کے باوجود کرایہ کے مکانات میں رہنے پر مجبور کرنا اور ان کے سامان کا بے دردانہ استعمال اور ان مالکوں کو اُن کے اُن مکانات اور عمارات کا کرایہ تک نہ دینا، سیکورٹی فورسز کے اہل کاروں کا عوام کے ساتھ عمومی رویہ اور طرزِ عمل اور ان کا مقامی اقدار اور روایات کا خیال نہ رکھنا، خاص کر سرچ آپریشنز کے وقت چادر اور چار دیواری کے تقدس کا خیال نہ رکھنا اور روزمرہ زندگی میں بعض رکاوٹیں، وہ عوامل ہیں جو سکیورٹی فورسز اور حکومتوں کے خلاف بداعتمادی اور نفرت جنم دینے کا باعث بنتے ہیں۔
علاوہ ازیں سکیورٹی فورسز کا حالات کو کنٹرول کرنے کے کئی ماہ ہونے کے باوجود سڑکوں اور راستوں کے کناروں اور قریب کھڑے درختوں اور بعض اوقات دور کھیتوں اور دریا کے کنارے کھڑے درختوں (جو کہ بڑی محنت و مشقت سے لگائے گئے اور پلے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور جو ایک عظیم عوامی، قومی اور انسانی اثاثہ ہے) کا سکیورٹی رسک کے بھونڈے دعوے کی بنیاد پر بے دریغ کٹائی اور بے وقت شاخ تراشی اور اسی دعوے کی بنیاد پر بعض فصلوں جیسے مکئی (جوکہ نہ صرف ایک نقد آور فصل بلکہ خوراکی اجناس میں سے بھی ہے اور جوخشک چارہ اور ایندھن کا ذریعہ بھی ہے) کے بونے پر بعض علاقوں میں پابندی، بعض علاقوں کے عوام کو سکیورٹی پاس بنوانے اور ان کا گلے میں یا جیب پر لٹکانے کے احکامات، سڑکوں پر بڑی تعداد میں چیک پوسٹیں اور ان چیک پوسٹوں پر بعض دفعہ تذلیل آمیز اور غیر مہذبانہ رویہ، ٹارگٹ کلنگ اور فوج کے ساتھ عسکریت پسندوں کی جھڑپوں کی خبریں اور سیدو مینگورہ روڈ پر آئے روز غیر علانیہ کرفیو ان دوسرے عوامل میں سے چند ایک ہیں جو نہ صرف سکیورٹی فورسز اور حکومتوں کے بعض دعوؤں کی نفی کرتے ہیں بلکہ عوامی تشویش کا سبب بھی ہیں۔
اگر چہ کسی پیمانہ پر طالبان کو جنونی اور باغی گردانا جاسکتا ہے جیسا کہ میجر راورٹی (Raverty) نے انیسویں صدی میں اشارہ کرتے ہوئے طنزاً لکھا ہے کے ’’بعض لوگوں کے نزدیک وہ سب جو ہمارے خلاف لڑ رہے ہیں ’جنونی‘ ، ’باغی‘ یا ’ڈاکو‘ ہیں۔ ‘‘ لیکن یہ ایک پائیدار حل نہیں۔ گو کہ طالبان منتشر اور کم زور بنائے گئے ہیں لیکن نہ تو وہ مکمل طورپر نیست و نابود ہیں اور نہ ان کا نظریہ اور سوچ تبدیل ہوئی ہے۔
اگر ایک سیاسی حل کے لیے افغانستان میں طالبان کے ساتھ مصالحت ناگزیر ہے، تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ 4 مارچ 2010ء کو پشاور میں پیپلزپارٹی کے صوبائی ممبرانِ اسمبلی سے خطاب کے وقت وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ دہشت گردی اور بنیاد پرستی کا حل فوجی آپریشن نہیں تھا۔ انھوں نے 19 جنوری 2009ء کو قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ فوجی آپریشن قبائلی علاقوں اور سوات کے تمام مسائل کا حل نہیں اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ایک سیاسی حکمتِ عملی کے ذریعے ان حالات سے نبٹیں گے اور 13 فروری 2009ء کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بھی انھوں نے کہا تھا کہ فوجی آپریشن سوات کے حالات کا واحد حل نہیں تھا۔
ملک کے باسی اور شہری ہونے کے ناتے طالبان کو دوبارہ قومی دھارے میں لانے کی ضرورت ہے جس کے لیے عام معافی کا اعلان کرکے انڈونیشیا اور سعودی عرب کے طرز پر ورکشاپوں اور کورسز یا ڈی برین واشنگ کا اہتمام کرکے معمولی محنت سے انھیں دوبارہ پُرامن شہری بنایا جاسکتا ہے۔ حالات کو مستقل طور پر ٹھنڈا کرنے اور پائیدار امن کے قیام کے لیے تمام بالواسطہ اور بلا واسطہ ملوث قومی اور بین الاقوامی قوتوں کو قولِ سلیم اور ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ان تمام بنیادی مقامی اور غیر مقامی مسائل کا حل بھی ضروری ہے، جو اس طرح کے حالات کو جنم دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں ضروری اقدامات میں اسلامی قوانین کا نفاذ اور عدالتی نظام کو فعال اور مؤثر بنانا، لوگوں کو جلد اور سستے انصاف کی فراہمی، ان تمام مقامی مسائل کا حل ہیں جو عوامی بے اطمینانی اور بے چینی کو جنم دے رہے ہیں۔
اس طرح سابق ریاستِ سوات کی طرح امن وامان اور لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانا، سڑکوں کو بہتر بنانا، تعلیم و صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کرنا بھی حالات کی بہتری میں پائیدار کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انتظامیہ جس میں سول ایڈمنسٹریشن کے ساتھ ساتھ بجلی، ٹیلی فون، گیس، نادرا وغیرہ کے محکمے شامل ہیں، کا رویہ عوام کے ساتھ بہتر اور انسانیت کا بنانا اور ان کی شکایات کا بہتر اور سرعت کے ساتھ اِزالہ کرنا، سکیورٹی فورسز خاص کر فوج اور پولیس کا عوام کے ساتھ رویے اور طرزِ عمل کی اصلاح اور مثبت تبدیلی اور فوج کی مرحلہ وار ایک سال میں واپسی شامل ہے۔
مزید برآں افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلا اور کشمیر و فلسطین کے مسائل کا حل بھی ضروری ہے۔ اس طرح عسکریت پسندی اور مغرب و امریکہ کے خلاف پائے جانے والے جذبات اور اضطراب بھی ماند پڑجائیں گے۔
اگر اصل مسائل کو مستقل طورپر حل نہیں کیا جاتا، تو یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ پھر اس طرح کے حالات پیدا نہیں ہوں گے۔ اس لیے کہ جب ماحول کو نہیں بدلا جاتا اور مرض کا اصل علاج نہیں کیا جاتا، تو نشہ یا عارضی طو رپر درد دور کرنے والی دوائی (Pain Killer) سے مرض ختم نہیں ہوتا بلکہ جب نشہ یا اس دوائی کا اثر زائل ہوجاتا ہے، تو مریض پھر سے بے آرام ہوجاتا ہے اور مرض ٹھیک ہونے کے بجائے بڑھتا جاتا ہے۔
یا اگر کسی جگہ گندہ پانی جمع ہو،تو وہاں مچھر پیدا ہوں گے اور بدبو بھی آئے گی۔ سپرے کے ذریعے موجودہ مچھروں کو مار دیا جاسکتا ہے اور موجودہ بدبو کو ختم کیا جاسکتا ہے، لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد نئے مچھر پیدا ہوں گے اور پھر سے بدبو آنے لگے گی۔ لہٰذا مستقل حل اس جگہ کا بھرنا اور یہاں سے گندا پانی نکالنا ہوتا ہے نہ کہ باربار سپرے کرنا۔
مذکورہ عوامل اور مسائل ایک بار پھر بھڑک سکتے ہیں اگر عوامی رنجش حقیقی معنوں میں دور نہیں کی جاتی۔ ان کے مسائل اور تشویش حقیقی طورپر ختم نہیں کی جاتی اور تعمیرِ نو اور ترقیاتی کام سچ مچ اور بغیر کسی تاخیر کے نہیں کیے جاتے۔ تعمیرِ نو اور ترقیاتی کاموں کو ترجیحی بنیادوں پر سول ایڈمنسٹریشن اور متعلقہ محکموں کے ذریعے کیا جانا چاہیے، تاکہ ذمے داری بھی ان کی مستقل ہوجائے اور ان کا عمل دخل (Writ)بھی قائم ہوجائے۔ علاوہ ازیں تعمیر نو اور ترقیاتی کام ایک باقاعدہ طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت ہونے چاہئیں جس میں جنگلات اور پہاڑوں، مکانات اور سڑکوں، زرعی زمینوں، ہوٹل اور دیگرمتعلقہ سب چیزوں کا مکمل خیال رکھا گیا ہو اور آنے والے وقتوں کے لیے سب کچھ اس طرح بے ہنگم نہ ہوجس طرح کہ ابھی چلاآرہا ہے۔
و ما علینا الاالبلاغ!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے