ٹکراو کا ماحول

یہ دنیا سدا سے تغیر پذیر رہی ہے۔اس کا تغیر انگیز ہونا ہی اس کی خوب صورتی کی بنیاد ہے۔ ہمیں تغیر کو ہمیشہ خوش آمدید کہنا چاہیے۔ کیوں کہ اسی سے یہ دنیا ترقی کی راہیں تراشتی ہوئی آگے کی جانب بڑھتی ہے، لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یہ تغیر ہونا کیسا چاہیے؟
طارق حسین بٹ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/butt/
تغیر مثبت ہو، تو انسانی زندگیوں میں سکون و طمانیت کا راج ہو تا ہے…… لیکن اگر یہ اُلٹی سمت میں چل پڑے، تو پھر معاشرہ اتھل پتھل ہوجاتا ہے۔جرمنی کا رڈولف ہٹلر بھی تو تبدیلی کا نعرہ لے کر منظرِ عام پر آیا تھا اور اپنی شعلہ بیانی سے پورے جرمنی کو اپنی مٹھی میں بند لے لیا تھا۔ اس کی شعلہ بیانی نے عوام کو پورے یورپ پر جرمنی کے تسلط کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ ابتدا میں ہٹلر کو کامیابیاں بھی ملیں، لیکن اُس کا جو انجام ہوا، وہ سب پر عیاں ہے۔
ہٹلر نے تبدیلی کے نعرے کو جس طرح ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وطن پرستی کے نعرے نے دوسری جنگِ عظیم کو جنم دیا جس میں ہٹلر کو شرم ناک شکست ہوئی اور اس کی قوم کو ذلت آمیز معاہدے کا سامنا کرنا پڑا، جس سے جرمنی کی آزادی دوسروں کے رحم و کرم پر رہ گئی۔
دراصل تبدیلی کے لیے مخصوص آمرانہ روش کوخیر آباد کہنا ہوتا ہے، تبھی تو تبدیلی کا اُجلا چہرہ دیکھنا نصیب ہو تا ہے۔ تبدیلی ہر انسان کی خواہش ہو تی ہے، لیکن کیا تبدیلی کی خاطر آئین و قانون اور ضابطوں کو پاؤں تلے روندھ دیاجائے؟کیا آئین و قانون کا مذاق اُڑایا جائے اور معاشرتی روایات کوپرِ کاہ سے زیادہ اہمیت نہ دی جائے…… جن پر معاشرہ قائم ہوتا ہے؟
تبدیلی درحقیقت اُن رویوں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا ہوتی ہے جو انسانی تکریم کے خلاف ہو تے ہیں۔ عظمتِ انساں کو جب روندھ دیا جاتا ہے اور عدل و انصاف ایک مخصوص گروہ کے لیے مخصوص ہوجاتا ہے، تو پھر تبدیلی کا نعرہ عوامی نفرت کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔
پاکستان میں سیاست کا ایک اپنا رنگ ہے۔ ایک اپنا انداز ہے۔ ایک اپنی روایت ہے اور ایک اپنی شناخت ہے۔ عوامی حقوق کی جنگ لڑنے والے ہمیشہ آئین و قانون کے دائرے کوکبھی نہیں توڑتے، بلکہ وہ اپنی جد و جہد کو آئین و قانون کے تابع رکھتے ہیں۔ حکومت کے فسطائی حربے اور قید و بند کی صعوبتیں ان کے عزم و ہمت میں لغزش پیدا نہیں کر پاتیں۔
برِ صغیر کی تاریخ قید و بند کی روح پرور داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ آزادی کے متوالوں نے جرات و بسالت کی ایسی حیرت انگیز داستانوں کو جنم دیا ہوا ہے کہ انسانی قلب سے ایسے نام ور جاں بازوں کے لیے دادو تحسین کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔عوام اپنے حقوق کے لیے سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔ حکومتی ہتھکنڈے اور جبر و اکراہ ان کی راہ کی رکاوٹ بننے کی ناکام کوشش کرتا ہے، لیکن جیالے ہر رکاوٹ کو عبور کرتے ہوئے اپنی منزل کی جانب محوِ سفر ہو جاتے ہیں۔
مَیں نے جن رویوں کا ذکر کیا ہے، اُن میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تمیز نہیں۔ انقلابی جہاں بھی ہوگا، انقلابی ہی ہوگا۔ زِندانوں کا خوف اسے چھو کر بھی نہیں گزرتا
سر فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
یہ ایک شعر نہیں بلکہ ایک فکر ہے جس کے اندر انقلابیوں کا دل دھڑکتا ہے۔
حسرت موہانی، محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، مہاتما گاندھی،ابو الکلا م آزاد، پنڈت جواہر لال نہرو، عطاء اللہ شاہ بخاری، خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان اور یا پھر علمائے ہند کے اکابرین کی جد و جہد سے آزادی کی شمع روشن ہو ئی۔ غیر ملکی آقاؤں کا جبر بھی اُن کے اندر جی داری کا جوہر ماند نہ کرسکا۔ انھوں نے حکومت کے خلاف اسلحہ اٹھانے کی بجائے پُرامن جد و جہدکو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا، تو تب کہیں جا کر اس جد و جہد کے بطن سے آزادی کا سورج طلوع ہوا۔
وقت بدلتا ہے، تو بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ نئی سیاسی جماعتیں اور پھر نئے قائدین اپنی فہم و فراست اور منشور سے سیاست کے میدان میں تبدیلیوں کے بیج بوتے ہیں۔ وہ عوام کی پذیرائی سے اپنی راہ کا تعین کرتے ہیں۔ وہ حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں، تو انھیں دباو کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ سیاسی قائدین پر منحصر ہے کہ وہ اس دباو کا سامنا کرتے ہوئے غیر جمہوری روش کو اپناتے ہیں یا پھر جمہوری جد و جہد کے دائرے میں مقید رہتے ہیں۔
سیاسی قائدین کے لیے اسلحہ اور بارود شجرِ ممنوعہ ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ الفاط کی طاقت سے عوام کو اپنا گرویدہ بناتے ہیں۔ آج کل پاکستان میں ایک نئے کلچر کا دور دورہ ہے۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
سیاسی جماعتوں نے پولیس اور رینجرز کے خلاف اسلحے اور بارود کا سہارا لینا شروع کردیا ہے۔ ا س کی ابتدا تو 1990ء کی دہائی میں ایم کیو ایم نے شروع کی تھی۔ جس کے بعد کراچی قتل و غارت گری، بھتے، اِغوا اور تاوان کا مرکز بن گیا جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو جون1992ء کو ملک سے فرار ہو نا پڑا ۔ اسلحے کے استعمال کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسلحے سے دوسروں کو نشانہ بنانے والے ایک دن اُسی اسلحے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دہشت گردی کے اس طرزِ عمل سے کراچی نے شدید نقصانات اٹھائے، جس سے کراچی کی تجارت، صنعت اور کاروبار پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوئے ۔
10 اپریل 2022ء کو عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستانی سیاست ایک ایسی ڈگر پر چل نکلی ہے جس میں ٹکراو اور مخاصمت کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔
عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کو ’’امریکی سازش‘‘ قرار دیتے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ جن کا شمار عمران خان کے محسنوں میں ہوتا ہے، آج کل وہ عمران خان کے نشانے پر ہیں۔ وہ انھیں اپنی حکومت کے خاتمہ کا ذمے دار قرار دیتے ہیں۔ ایک کھلی جنگ ہے جو افواجِ پاکستان کے خلاف چھیڑ دی گئی ہے۔
اب عمران خان فوری انتخابات کا مطا لبہ کر رہے ہیں اور اپنے مطالبے کو تقویت دینے کے لیے اُس نے دو اسمبلیوں کو قربان بھی کیا، لیکن ہنوز دہلی دور است والا معاملہ ہے۔ کیوں کہ شہباز شریف کی حکومت پی ٹی آئی کے مطالبہ کو در خورِ اعتنا نہیں سمجھ رہی۔ وہ اسمبلیوں کی پنج سالہ مدت پوری ہونے کے بعد انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔
عمران خان نے اپنے چار سالہ دورِ اقتدار میں جس طرح اپوزیشن کو جیلوں کی ہوا کھلائی، اُسی طرح موجودہ حکومت بھی عمران خان اور اس کے قریبی ساتھیوں کو اُسی طرح جیلوں کی ہوا کھلانا چا ہتی ہے۔
شدید ٹکراو کی اس سوچ میں عدالتو ں کے احکامات اور پولیس کے احکامات کو پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے۔ حکومت، عمران خان کو گرفتار کرنا چاہتی ہے، تا کہ آنے والے انتخابات میں انھیں نا اہل قرار دے دیا جائے…… لیکن عمران خان حکومتی احکامات کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اس سلسلے میں زمان پارک سے پولیس اور رینجرز پر جس طرح شیلنگ کی گئی اور ان پر جس طرح پٹرول بم برسائے گے، یہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا۔
سیاست دان کے گھر سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف جس طرح کا ری ایکشن دیکھنے کو ملا، اس سے پہلے اس طرح کا ری ایکشن کبھی نہیں دیکھا گیا۔
عدالت کے گرفتاری وارنٹ نے جس کشیدگی کو جنم دیاہے، اُس نے پاکستان کے در و دیوار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لوگ انگشتِ بدنداں ہیں کہ سیاست کا یہ کون سا چلن ہے؟ یہ کون سی سیاسی روش ہے جس سے عوام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے آمنے سامنے کھڑے ہوں گے؟
فی الوقت عمران خان گرفتاری سے تو بچ گئے ہیں، لیکن جو نقصان ملک کا ہوا ہے، سسٹم کا ہوا ہے، اداروں کا ہوا ہے، ملکی وقار کا ہوا ہے، ملکی استحکام کا ہوا ہے، ملکی اتحاد کا ہواہے، ملکی بقا کا ہوا ہے…… اُس کا حساب کو ن دے گا ؟
مَیں تو بس شاعر کے کہے گئے اس شعر پر اکتفا کروں گا کہ
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے