پاکستان کے سیاسی عمائدین جو بھی پالیسی بناتے ہیں یا جو بھی قواعد و ضوابط اور قانون وضع کرتے ہیں، اُن کا مطمحِ نظر اُن کا ذاتی مفاد ہی ہوتا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران میں عوام سے جو وعدے کیے جاتے ہیں، اُنھیں پورا کرنا اُن کے منشور کا حصہ نہیں ہوتا۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
سیاسی پارٹی بنانے سے پہلے سابق وزیرِ اعظم پاکستان (مرحوم) ذوالفقار علی بھٹو کو عوامی نفسیات کا خوب ادراک ہوچکا تھا۔ لاہور میں جب اُس نے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، تو عوامی نفسیات کو مدِ نظر رکھ کر روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔ روٹی، کپڑا اور مکان ہر انسان کی زندگی کی ضرورت تھے، ہیں اور رہیں گے۔ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے اس نعرے نے عوام کو پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف راغب کیا اور مغربی پاکستان میں دیگر سیاسی پارٹیوں پر پیپلز پارٹی کو برتری حاصل ہوگئی۔ عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان تو دور کی بات اُس نے اپنے ہی ساتھیوں کو قیدِ تنہائی میں رکھا، لیکن عوام نے پھر بھی پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی خاطر عوام نے خود سوزی کی، کوڑے کھائے، یہاں تک کہ جیل کی ہوا کھائی، مگر پیپلز پارٹی کے روٹی، کپڑا اور مکان کے وعدے، وعدے ہی رہے۔
عوام نے پاکستان مسلم لیگ نون کو آزما کر دیکھا۔ پھر بھی اُن کی امید بھر نہیں آئی۔ عوام نے قومی خزانہ لوٹنے والوں کے احتساب کے نام پر عمران خان کو ایوانِ اقتدار تک پہنچایا کہ شاید اُن کی امید پوری ہوسکے۔ تحریکِ انصاف نے ابھی تک اگرچہ اپنے وعدے پورے تو نہیں کیے، مگر پھر بھی اُن کی امیدیں تحریکِ انصاف سے وابستہ ہیں۔
پی ڈی ایم میں شامل تین بڑی سیاسی جماعتوں نے بظاہر آئینی طریقے سے تحریکِ انصاف اور عمران خان کو اقتدار سے باہر کیا، لیکن اکثریت کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل سیاسی پارٹیوں کے بڑوں نے اپنے مقدمات ختم کرنے اور آیندہ اقتدار تک پہنچنے کے لیے راہ ہم وار کرنے کی خاطر ملکی وقار اور سالمیت کو داو پر لگا دیا ہے۔
اب حکم ران، عمران خان کو راستے سے ہٹانے اور تحریکِ انصاف کو ختم کرنے کے لیے ہر حربہ آزما رہے ہیں، لیکن تاحال اُنھیں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ تحریکِ انصاف اور عمران خان کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ الیکشن میں ناکامی کے ڈر سے پی ڈی ایم حکومت راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے آئین اور قانون کو پاؤں تلے روند رہی ہے۔
صوبہ پنجاب اور صوبہ خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات جو 30 اپریل کو ہونے تھے، کو منسوخ کرکے 8 اکتوبر کو کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے…… جب کہ آئینی تقاضا ہے کہ انتخابات 90 دن کے اندر ہونے چاہئیں۔ حکم رانوں نے مقبولیت میں اضافہ اور آنے والے الیکشن میں جیت کی خاطر عوام کو مفت آٹا اور سستا پیٹرول فراہم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
وزیرِ مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک نے پریس کانفرنس کے دوران میں عوام کو خوش خبری سنا دی ہے کہ حکومت عوام کو 100 روپے سستا پیٹرول فراہم کرے گی۔ وزیرِ مملکت کے مطابق 800 سی سی گاڑی اور اس سے کم گاڑی استعمال کرنے والوں کو 100 روپے کم قیمت پر پیٹرول فراہم کیا جائے گا۔ موٹر سائیکل کو ماہانہ 27 لیٹر، روزانہ کی بنیاد پر دو سے تین لیٹر پیٹرول، 800 سی سی یا اس سے کم گاڑی رکھنے والوں کو دن میں تیس لیٹر کی سبسڈی دی جائے گی اور وہ دن میں پانچ سے سات لیٹر ایک ہی وقت میں ڈلوانے کا مستحق ہوگا، جب کہ اس سے بڑی گاڑیاں استعمال کرنے والوں کو کم قیمت پر ماہانہ ایک ٹینک بھروانے کی اجازت ہوگی۔ اسکیم کے اہل افراد کو موبائل پر میسج موصول ہوگا اور وہ اُس میسج کو پیٹرول پمپ پر دِکھا کر پیٹرول وصول کرسکے گا۔
وزیرِ مملکت موصوف سے کوئی پوچھے، تو کہ پاکستان میں وہ کون سا ایسا غریب ہوگا جو 800 سی سی گاڑی کا مالک ہو؟ حقیقت میں جو غریب ہیں، اُن کے پاس تو موٹر سائیکل تک نہیں ہوتی۔ غریب بے چارہ تو دوسروں کی نجی گاڑیوں میں بہ امرِ مجبوری سفر کرتا ہے جو گاڑی مالکان کی مرضی کے مطابق کرایہ دینے پر مجبور ہوتا ہے۔ 800 سی سی سے زیادہ گاڑیاں استعمال کرنے والوں کے لیے یہ پالیسی ایک سوغات ضرور ہے کہ اُنھیں ماہانہ ایک ٹینک پیٹرول سستا تو ملے گا۔ رہے موٹر سائیکل والے، تو اُنھیں سستا پٹرول ملے گا بھی کہ نہیں! یہ بھی ایک سوال ہے کہ کون، کس بنیاد پر سستے پٹرول کا مستحق ہوگا؟
حکومت نے عوام کو دوسری خوش خبری یہ سنائی ہے کہ غریب عوام کو مفت آٹا فراہم کیا جائے گا…… لیکن دراصل یہ عوام کو خوش کرنے کا نہیں، بلکہ اُنھیں ذلیل و رسوا کرنے کا اعلان ہے۔ مفت آٹے کے نام پر جہاں جہاں آٹا تقسیم کیا جاتا ہے، وہاں پر 10 کلو آٹے کی خاطر لوگ آپس میں مشت و گریبان ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کو مارتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑتے ہیں اور اس دھکم پیل میں آج تک درجن بھر افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ مفت آٹے اور سستے پیٹرول کی فراہمی عوام کو ذلیل کرنے، اُنھیں بے کار بنانے، عوام کی ضمیر کو مارنے اور حکم رانوں کے سیاسی مقاصد پورا کرنے کے مترادف ہے۔ حکم رانوں سے التماس ہے کہ مفت آٹے کی بجائے عوام کو سستا اور قابلِ رسائی آٹا فراہم کرنے کے اقدامات کیے جائیں، تو از چہ بہتر!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔