’’پاکستان بیورو آف شماریات‘‘ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مہنگائی بڑھ کر 46.65 فی صد ہوگئی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 1.80 فی صد اضافہ ہوگیا ہے۔
حکومت کی جانب سے 10 کلو سرکاری آٹے کے تھیلے کی قیمت میں بھی یک دم 510 روپے اضافہ کردیا گیا ہے، جس کے بعد 10 کلو سرکاری آٹے کے تھیلے کی قیمت 648 سے بڑھ کر1158 روپے ہوگئی ہے۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
پاکستانی عوام انگشتِ بدنداں ہیں کہ نفع، تنخواہ، اُجرت وہی…… مگر اخراجات میں تین گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ غریب اور سفید پوش طبقے کے لیے جینا مشکل ہوگیا۔ مہنگائی نے پاکستانیوں کے چہروں سے مسکراہٹ چھین لی ہے۔ ہر سو مہنگائی کا طوفان ہے۔ معاشی بے یقینی ہے۔ بھوک و افلاس نے ڈیرے جما رکھے ہیں۔ آٹے کی لمبی قطاریں ہیں اور غریبوں کا مسیحا کوئی نہیں۔
مہنگائی بھی ایسی جس نے 50 سالہ ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات، پانی سے لے کر اشیائے خور و نوش تک کوئی بھی چیز ایسی نہیں جس کے دام نہ بڑھے ہوں۔
عوام چیخ رہے ہیں، چلارہے ہیں، ان کا نوحہ کسی کو سنائی نہیں دیتا۔ عوام صدابہ صحرا ہیں۔ یہ بے چارے، غریب، بے بس اور لاچار مایوسی کے اندھے کنوئیں کے کنارے کھڑے اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں۔
قارئین! صبح نیند سے بیدار ی اور اِطاعتِ خداوندی کے بعد پیٹ کی آگ بجھانے محنت مزدوری کے لیے دوڑ دھوپ میں لگ جاتے ہیں۔ سرِشام تھکے ہارے جب گھر لوٹتے ہیں، تو مہنگائی کے ہاتھوں ٹھنڈے چولھے ان کا استقبال کرتے ہیں، تو ان کے دل سے جو آہ نکلتی ہے، کاش……! اشرافیہ کے کانوں پڑتی، تو ان کو احساس ہوتا کہ غریب کس حال میں ہے!
تعلیم، صحت، انصاف اور مزید بنیادی ضروریات ان کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔ حال ہی میں حکومت نے آئی ایم ایف کے بہانے بجلی کی مد میں پاکستان کے غریب عوام پر 250 ارب روپے اور سوئی گیس کی مد میں 350 ارب روپے کے ٹیکس لگائے۔ اس طرح آئی ایم ایف کے بہانے حکومت نے 170 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگائے۔ ساتھ ساتھ گاڑیوں، امپوڑٹڈ الیکٹرانکس اشیا، پالتو جانوروں کی خوراک، موبائل سے متعلق اشیا، شیمپو، صابن سمیت چند مزید اشیا پر 17 فی صد سیلز ٹیکس کی بجائے 25 فی صد کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔
اس عمل سے چار ماہ کے دوران میں حکومت کو پورے 15 ارب روپے کی اضافی آمدن متوقع ہے۔
زمینی حقائق کی روشنی میں پاکستان میں بسنے والے بے بس و ناتواں عوام کے مسائل کا ادراک کریں، تو تصویر کے رنگ دھندلے نظر آتے ہیں۔ اقتدار کے 8ماہ گزرنے کے بعد سابق حکومت کو ناتجربہ کاری اور نا اہلی کا طعنہ دینے والی سابق حزبِ اختلاف اور موجودہ حکومت معاشی بہتری کے لیے ایک قدم بھی نہ اُٹھا سکی۔
ایک طرف وزیرِ اعظم کی جانب سے آئی ایم ایف کی زنجیروں میں جکڑے جانے کا اعتراف، تو دوسری جانب غریب عوام پر مزید قرضوں کا بوجھ بھی ڈالا جا رہا ہے۔ ہمارے ارباب حل و عقد مہنگائی اور بے روزگاری کی صورتِ حال کا ادراک اور احساس کرنے کی بجائے ملک کے اندر سیاست سیاست کا کھیل، کھیل رہے ہیں۔ ہمارے سیاست دان آپس میں دست و گریباں ہیں، جنھیں ایک دوسرے کو ’’چور‘‘ اور ’’ڈاکو‘‘کہنے سے فرصت نہیں۔
قارئین! یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین کو ملکی معیشت کی کوئی پروا نہیں۔ ان کو اپنے مفادات ہی مقدم اور عزیز ہیں۔ سیاسی انتشار اور عدمِ استحکام نے کئی مسائل پیدا کر دیے ہیں، جو جمہوریت کے لیے قطعاً نیک شگون نہیں۔ یہ اندازِ سیاست صرف سیاسی جماعتوں کی ناکامی نہیں بلکہ ملک اور ریاست کے لیے بھی انتہائی نقصان دِہ ہے۔
اگر ضرورت ہو، تو انتخابات کروانے میں کوئی مضائقہ نہیں……لیکن اس امر پر اتفاق سب سے اہم ہے کہ قومی معاشی پالیسی کا تسلسل برقرار رہے گا اور اس پر کوئی کھیل تماشا نہیں ہوگا۔
آج ہمارے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھائے در درکی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں…… اور یہ ڈگریاں ان کے کام نہیں آرہیں۔ اس سے ان کی صلاحیتیں متاثر ہورہی ہیں۔ بے روزگار ی ان کے لیے عذاب بنتی جا رہی ہے اور یہ سرکاری نوکری سے کوسوں دور پرائیویٹ نوکریوں میں آجر کی من مانیوں اور بے جا رعب سہ کر قناعت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
آج پاکستان معاشی طورپر ایک نازک موڑ پر آن کھڑا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی معیشت کو بہتربنانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کی جائے اور عام آدمی کو مہنگائی کے بوجھ سے بچانے کی تدابیر اختیار کی جائیں، تاکہ شہری سکھ کا سانس لے سکیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں مال دار ٹیکس دیتے ہیں جو غریبوں پر خرچ کیا جاتا ہے، مگر وطنِ عزیز میں اس کا الٹ ہے۔ یہاں غریب ٹیکس دیتے ہیں جو مال داروں پر خرچ کیا جاتا ہے۔
کیا ریاست کے ذمے عوام کو روزگار، تعلیم، صحت اور تحفظ کے جو اقدامات شامل ہیں، وہ ان کو دیے جا رہے ہیں؟
عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور سابق سربراہانِ مملکت کے مطابق وطنِ عزیز میں 45 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
قارئین! اگر ہم غور کریں، تو ہمارا مسئلہ معاشی نہیں بلکہ سیاسی ہے، اس لئے ہماری مجموعی سیاست کو نئے سرے سے ایسے خطوط او رفریم ورک میں لانا ہوگا جو ہماری ضرورت بنتے ہیں او ریہ عمل بڑی سیاسی اصلاحات اور اداروں کی تشکیل نو سے جڑا ہوا ہے۔ اگر ہم یہ سب کچھ نہ کرسکے تو معاشی بحران سے نمٹنے کا خواب محض خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔