پاکستان تاریخ کو قومی مفاد میں بدلنے والا واحد ملک نہیں۔ فلپائن اور بھارت کے علاوہ کچھ دیگر ممالک بھی قومی مفادات کی خاطرتاریخ کے جائز قتل میں شامل ہیں۔
قرار دادِ لاہور ہو، قراردادِ پاکستان ہو، یومِ آزادیِ پاکستان ہو، یومِ پاکستان ہو یا کوئی اور دن اورتاریخ…… انھیں تبدیل کرنے کی کچھ ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔
پروفیسر عبدالشکور شاہ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/adb/
ہم 23 مارچ کو قرار دادِ لاہور، قرار دادِ پاکستان، یومِ پاکستان وغیرہ کے مختلف ناموں سے مناتے ہیں، مگر اس کی اصل روح کو ہم بھول چکے ہیں۔ قراردادِ لاہور جو بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی، 23 مارچ 1940ء کو پیش کی گئی…… لیکن اسے منظور 24 مارچ کو کیا گیا نہ کہ 23مارچ کو۔
یہ بات بھی کافی دلچسپ ہے کہ اس قرارداد کو دو سیشن میں پاس کیا گیا ہے، نہ کہ ایک سیشن میں۔
قرارداد 23 مارچ کو بنگال کے رہنما جناب فضل الحق صاحب نے پیش کیا۔ اس کے بعد چوہدری خلیق الزمان نے اس کی تائید کی۔ پھر محمد ذوالفقار علی خان، سردار اورنگزیب خان اور سر عبداللہ ہارون نے اس کی حمایت کی اور اجلاس اگلے دن تک موخر کر دیا گیا۔
اگلے دن 24 مارچ کوباقی رہنماوں نے اس کی حمایت کی۔ اس کے بعد فلسطین اور خاکسار سانحے پر دو قراردادیں پیش کی گئیں اور پھر سب رہنماؤں نے متفقہ طور پر قرار دادِ لاہور کو منظور کیا۔ اگرچہ قرار دادِ لاہور کو پیش 23 مارچ کو کیا گیا، تاہم اس کو منظور 24 مارچ کو کیا گیا ہے۔
قراردادِ لاہور میں پاکستان کا نام قطعاً شامل نہ تھا۔ ہندو میڈیا نے طنزیہ یہ نام شامل کیا اور اِسے قرار دادِ پاکستان کے نام سے شائع کیا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ہندو میڈیا نے محمد علی جناح کو طنزیہ قائداعظم کے نام سے پکارا تھا۔
مسلمانوں کے لیے قراردادِپاکستان کا نام بڑا پُرکشش تھا اور انھوں نے اِسے قراردادِ پاکستان ہی کے نام سے پکارنا شر کر دیا۔
قارئین! اِس قرار داد کے کچھ دیگر دلچسپ پہلو بھی ہیں۔ قراردادِ لاہورمیں لفظ ریاست یا ریاستیں استعمال کیا گیا تھا۔ یہ بھی بحث طلب نکتہ ہے۔ البتہ قرارداد کے اصل مسودے میں تو لفظ ریاستیں موجود تھا،تاہم 1941ء کو مدارس کے اجلاس میں پیش کیے جانے والے مسودے میں جمع (ریاستیں) کی بجائے واحد لفظ (ریاست) موجود تھا۔
کچھ محققین کے مطابق لفظ ریاستیں جمع کی صورت میں لکھا جانا ایک کلریکل غلطی تھی، جب کہ کچھ کا ماننا ہے کہ ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔ کچھ رہنما برصغیر میں دو الگ مسلم ریاستوں کے نظریے کے قائل تھے۔ بعض کے بقول لفظ ریاستیں جمع لکھنے سے مراد پاکستان اور ہندوستان کی دوریاستیں تھیں۔
بہرحال بعد کے مسودوں میں لفظ ریاستوں کی بجائے ریاست ہی استعمال کیا گیا ہے۔
لفظ ریاست کے حق میں ایک مضبوط دلیل یہ بھی موجود ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تقاریر اور تحاریر میں ریاست کا لفظ جمع کے طور پر استعمال نہیں کیا۔ قائداعظم کی تمام تقریروں اور بیانات میں ’’آزاد مسلمان ریاست‘‘ اور ’’آزاد وطن‘‘ کے الفاظ واحد حالت میں موجود ہیں۔
قرار دادِ لاہور کو پاکستان کی تاریخ میں ’’فادر‘‘ دستاویز کا مقام حاصل ہے۔ کیوں کہ یہ وہ واحدقرار داد ہے جسے تمام رہنماؤں نے متفقہ طور پر منظور کیا اور یہ قیامِ پاکستان کے لیے سنگِ میل ثابت ہوئی۔
اس قرارداد کی یاد میں مینارِ پاکستان تعمیر ہوا جو 8 سالوں میں مکمل کیا گیا۔
قراردادِ لاہور کے 450 الفاظ مینارِ پاکستان پر کنندہ کیے گئے ہیں۔ ان میں پاکستان کا ذکر ہے اور نہ اسلام کا۔
اس قرار داد کا مسودہ محمد ظفراللہ خان نے تیار کیا اور مولانا ظفرعلی خان نے اُردو میں اس کا ترجمہ کیا۔
ایسوسی ایٹیڈ پریس آف انڈیا کے مطابق ایک لاکھ کے مجمع میں بغیرکسی صوتی نظام کے اس قرار داد کو مولوی فضل الحق نے بلند آواز میں پڑھ کر سنایا۔
پاکستان کے پہلے آئین میں پاکستان کو ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا نام دیا گیا۔
پاکستان کا پہلا آئین بھی 23 مارچ 1956ء کو پاس ہوا۔ اُس دن کو تب ’’ری پبلک ڈے‘‘ یعنی یومِ جمہوریہ کا نام دیا گیا۔
1956ء ہی میں آئین کی معطلی اور مارشل لا کی وجہ سے جمہوریت کو سکندر مرزا نے گھر کی راہ دکھا دی، تو یومِ جمہوریہ کیسے منایا جاتا! اپنی بے شرمی کو چھپانے کے لیے اِس کا نام ’’یومِ جمہوریہ‘‘ سے بدل کر ’’یومِ پاکستان‘‘ رکھ دیا گیا۔
یہ بات بھی کافی دلچسپ ہے کہ اس قرار داد کو پیش کرنے اور آغاز میں حمایت کرنے والے ارکان میں بنگال کے رہنما سب سے آگے تھے۔ 23 مارچ کو قراردادِ پاکستان، یومِ پاکستان یا قراردادِ لاہور منانے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ 1940ء تا 47ء کے عرصے کے دوران میں قائد اعظم نے اسی دن عوامی اجتماعات منعقد کیے۔ اسی دن انھوں نے پیغامات دیے اور ریلیاں نکالی گئیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا 1956ء کا آئین اگرچہ 23 مارچ سے پہلے تیار کر لیا گیا تھا، مگر اسے 23 مارچ تک لاگو کرنے سے روکا گیا۔
ہندوستان کا آئین بھی 26 جنوری 1950ء کو تیار نہیں ہوا تھا، بلکہ آئین کو اُسی تاریخ کو لاگو کیا گیا…… تیار یہ پہلے ہو چکا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 1930ء میں اسی تاریخ کو لاہور میں کانگرس نے قراردادِ آزادی پیش کی تھی…… جسے وہ سالہا سال سے یومِ آزادی کے طور پر مناتے چلے آرہے تھے۔ اگر بھارت اپنے قومی مفادات کے لیے تواریخ میں ردوبدل کر سکتا ہے، تو پاکستان نے بھی قومی مفادات کے لیے 24 مارچ کو 23 مارچ میں بدل دیا۔ قوم کو اختلاف سے بچانے اور یگانگت کے لیے 23 مارچ کی تاریخ طے کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کافی تاریخیں ایسی ہی جنھیں تبدیل کیا گیا ہے، جس میں سب سے اہم یومِ آزاد ی پاکستان کی تاریخ میں تبدیلی ہے۔
بھارت میں 26جنوری کو ہر سال ’’یومِ جمہوریہ‘‘ منایا جا تا ہے، مگر پاکستان میں پہلا یومِ جمہوریہ محض 30 ماہ کی قلیل عمر میں وفات پاگیا۔ ایوب خان نے اس کو ’’یومِ پاکستان‘‘ کے طور سے منانے کا اعلان کیا اور یوں 23 مارچ کو ’’یومِ پاکستان‘‘ کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔
1947ء تا1956ء کبھی نہ تو 23 مارچ منایا گیا اور نہ اس دن چھٹی ہی ہوا کر تی تھی۔
اس طرح یومِ آزادیِ پاکستان کی تاریخ کو بھی قومی مفاد میں تبدیل کیا گیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ماونٹ بیٹن نے سرکاری طور پر اختیارات 14 اگست کو اپنی تقریر کے ذریعے پاکستان کے حوالے کر دیے تھے، تاہم وہ جسمانی طور پر بیک وقت کراچی اور دہلی میں موجو دنہیں ہوسکتا تھا۔ قانونِ آزادیِ ہندوستان کے مطابق دونوں ممالک کو 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب کو آزاد ہونا تھا۔ اسی بنیاد پر پاکستان میں گورنر ہاؤس پر پاکستانی پرچم 15اگست کو بلند کیا گیا۔ قائداعظم اور اُن کی کابینہ نے حلف لیا۔
یوں اگلے پورے 6 سال تک پاکستان 15 اگست کو ہی یومِ آزادیِ پاکستان منایا جاتا رہا۔
1954ء کو بہترین ملکی اور قومی مفاد میں یہ فیصلہ کیا گیاکہ ہم اپنا یومِ آزادی 15 کی بجائے 14 اگست ہی کو منائیں گے۔ اس کی ایک بڑی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ دونوں ممالک کے ایک ہی دن یومِ آزاد ی منانے سے یہ بات سمجھاتا مشکل تھا کہ یہ ایک ہی دن دونوں ممالک کیسے آزاد ہوئے؟
دوسری وجہ شاید بھارت کے ساتھ یومِ آزادی منانے سے ہمارا تشخص واضح نہیں ہو پارہا تھا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔