توشہ خانہ قوم کی امانت

خلیفۂ وقت کے سامنے فارس کا گورنر کھڑا تھا، جس نے ایک قیمتی گاؤن پہنا ہوا تھا۔ خلیفہ نے پوچھا، تم نے یہ گاؤن کہاں سے حاصل کیا؟ گورنر نے جواب میں کہا کہ یہ مجھے فارس کے معززین نے بہ حیثیتِ گورنر بہ طورِ تحفہ دیا ہے۔ خلیفہ سخت غصہ ہوئے اور اُسی وقت گورنر کو معزول کرتے ہوئے کہا کہ جاؤ، گھر بیٹھو۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ کوئی تمھیں گاؤن دیتا ہے یا نہیں؟
ماسٹر عمر واحد کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/master-umar-wahid/
یہ خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کا واقعہ ہے۔ اُس زمانے میں توشہ خانہ (بیت المال) بھی قومی امانت سمجھا جاتا تھا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز جن کو تاریخ میں خلفائے راشدین میں شمار کیا جاتا ہے۔ خاندانِ بنی اُمیہ کا یہ چشم و چراغ 4 ستمبر 717ء کو خلیفہ (امیر المومنین)بن گئے۔ یہ شخص جدی پشتی امیر اور رئیس تھا۔ آرام اور آسایش کی زندگی گزاری اور نازو نعم میں پلا، لیکن خلافت کا بار جب آپ کے کاندھوں پر آپڑا، تو سادگی اور کفایت شعاری کی ابتدا اپنی ذات اور خاندان سے کی۔ اپنے دورِ خلافت میں قومی خزانے کی ایک ایک پائی کی حفاظت کی اور قومی خزانے اور وسائل کو عوام کی فلاح و بہبود اور غریبوں بیواؤں، ناداروں اور مسافروں کے آرام اور راحت کے لیے اسی طرح خرچ کرتا رہا کہ آنے والے حکم رانوں کے لیے قابلِ تقلید مثال بن گیا۔
ایک دن چراغ کی روشنی میں سرکاری کام ختم کرکے چراغ بجھادی۔ کیوں کہ ذاتی استعمال کے لیے چراغ کو جلاتے رہنا آپ کی طبیعت نے گوارا نہ کیا۔
بدقسمتی سے 75 سالوں سے مملکتِ خداداد پاکستان کو حکم رانانِ وقت اور بیورو کریسی نے اس بری طرح لوٹا کہ اب اس کی معیشت بری طرح تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ فی زمانہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں توشہ خانہ، قومی بیت المال کی لوٹ مار کی داستان زبانِ زد عام ہے۔ توشہ خانہ کی لوٹ کھسوٹ کا حساب کتاب 2002ء سے 2022ء تک منظر عام پر آیا ہے کہ وقت کے حکم رانوں اور بیوروکریسی نے جو ہاتھ آیا، لے اُڑے۔ توشہ خانہ جسے ان لوگوں نے عیاشی کا مرکز اور ’’حلوائی کی دکان اور ناناجی کا فاتحہ‘‘ کے مصداق اس طرح بے دردی سے لوٹا کہ اپنی ذات کے علاوہ خاندان، بیٹوں، بیٹیوں، اقربا، دوست یہاں تک کہ اپنے ملازمین تک کو نوازا۔ حالاں کہ توشہ خانہ سے قیمتی تحائف اونے پونے اور من مانی قیمتوں پر خریدنے والوں میں اکثریت ارب پتیوں اور کھرب پتیوں کی ہے۔
ایک مقروض، غریب اور پس ماندہ ملک کی معروضی صورتِ حال اور عوام کی بدترین معاشی حالت کو دیکھ کر ایک انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ بے حس اور ظالم حکم رانانِ وقت اور خود غرض بیوروکریسی کا پیٹ کب بھرے گا؟
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے