کیا عوام واقعی ٹیکس نہیں دیتے؟

نفع، تنخواہ اور اجرت وہی…… مگر اخراجات میں تین گناہ اضافہ ہوچکا ہے۔ مہنگائی نے پاکستانیوں کے چہروں سے مسکراہٹ بھی چھین لی ہے۔ غریب اور سفید پوش طبقے کے لیے جینا مشکل ہوچکا ہے۔ ہر سو مہنگائی کا طوفان ہے۔ معاشی بے یقینی ہے۔ بھوک و افلاس کے ڈیرے ہیں۔ آٹے کی لمبی قطاریں ہیں…… اور غریبوں کا مسیحا کوئی نہیں۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
مہنگائی بھی ایسی جس نے 50 سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات اور پانی سے لے کر اشیائے خور و نوش تک کوئی بھی چیز ایسی نہیں جس کے دام نہ بڑھے ہوں۔ عوام چیخ رہے ہیں، چلارہے ہیں……لیکن ان کا نوحہ کسی کو سنائی نہیں دیتا۔ یہ صدابہ صحرا ہو رہے ہیں اور یہ بے چارے غریب بے بس اور لاچار مایوسی کے اندھے کنوئیں کے کنارے کھڑے اپنی قسمت کو کوس رہے ہیں۔ صبح نیند سے بیدار ی اور اطاعتِ خداوندی کے بعد پیٹ کا دوزخ بھرنے محنت مزدوری کے لیے دوڑ دھوپ میں لگ جاتے ہیں۔ سرِشام تھکے ہارے جب گھر لوٹتے ہیں، تو مہنگائی کے ہاتھوں ٹھنڈے چولہے ان کا استقبال کرتے ہیں۔ ان کے دل سے جو آہ نکلتی ہے، کاش……! اشرافیہ کے کانوں پڑتی، تو ان کو احساس ہوتا کہ غریب کس حال میں ہے!
تعلیم، صحت، انصاف اور مزید بنیادی ضروریات ان کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہیں۔ حال ہی میں حکومت نے آئی ایم ایف کے بہانے بجلی کی مد میں پاکستان کے غریب عوام پر 250 ارب روپے اور سوئی گیس کی مد میں 350 ارب روپے کے ٹیکس لگائے اور اسی طرح آئی ایم ایف کے بہانے حکومت نے 170 ارب روپے کے مزید ٹیکس لگائے۔ ساتھ ساتھ گاڑیوں، امپوڑٹڈ الیکٹرانکس اشیا، پالتو جانوروں کی خوراک، موبائل سے متعلق اشیا، شیمپو، صابن سمیت چند مزید اشیا پر 17 فی صد سیلز ٹیکس کی بجائے 25 فی صد کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اس سے چار ماہ کے دوران میں حکومت کو 15ارب روپے کی اضافی آمدن متوقع ہے۔
اگر ہم غور کریں، تو عوامِ پاکستان پر عائد چیدہ چیدہ 37 ٹیکسوں میں انکم ٹیکس، جنرل سیلز ٹیکس، کیپٹل ویلیو ٹیکس، ویلیو ایڈڈ ٹیکس، سنٹرل سیلز ٹیکس، سروس ٹیکس، فیول ایڈجسٹمنٹ ٹیکس، پٹرول لیوی، ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی، آکٹرائے ٹیکس، ایمپلائنمنٹ ٹیکس، ٹی ڈی ایس ٹیکس، پراپرٹی ٹیکس، گورنمنٹ سٹیمپ ڈیوٹی، آبیانہ ٹیکس، عشر، زکواۃ، دھل ٹیکس، لوکل سیس، پی ٹی وی ٹیکس، پارکنگ فی، کیپٹل گین ٹیکس، واٹر ٹیکس، فلڈ ٹیکس، ڈیم کنسٹرکشن ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، روڈ ٹیکس، ٹال گیٹ فی، سیکورٹی ٹرانزیکشن ٹیکس، ایجوکیشن سیس، ویلتھ ٹیکس، ٹرانزینس اکوپینسی ٹیکس، وِد ہولڈنگ ٹیکس، ایجوکیشن فی، ایس ای سی پی لیوی اور بجلی ٹیکس کے علاوہ بھی بے تحاشامزید ٹیکس عائد ہیں…… مگر پھر بھی عوامِ پاکستان کو ٹیکس چور کہا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش اپنی جی ڈی پی کا 7 فی صد ایران 7.4 فی صد جب کہ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا 9.2 فی صدٹیکس جمع کرتے ہیں، مگر یہ انتہائی اور افسوس ناک بات ہے کہ ہمارے حکم رانوں کو پھر بھی شکوہ ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس جمع نہیں کرتے۔
زمینی حقائق کی روشنی میں پاکستان میں بسنے والے بے بس و ناتواں عوام کے مسائل کا ادراک کریں، تو تصویر کے رنگ دھندلے نظر آتے ہیں۔ اقتدار کے آٹھ ماہ گزرنے کے بعد سابق حکومت کو ناتجربہ کاری اور نااہلی کا طعنہ دینے والی سابق حزبِ اختلاف اور موجودہ حکومت معاشی بہتری کے لیے ایک قدم بھی نہ اٹھا سکی۔ ایک طرف وزیرِ اعظم کی جانب سے آئی ایم ایف کی زنجیروں میں جکڑے جانے کا اعتراف، تو دوسری جانب غریب عوام پر مزید قرضوں کا بوجھ بھی ڈالا جارہا ہے۔
ہمارے ارباب حل و عقد مہنگائی بے روزگاری کی صورتِ حال کا ادراک و احساس کرنے کی بجائے ملک کے اندر سیاست سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ سیاست دان آپس میں دست وگریباں ہیں، جنھیں ایک دوسرے کو چور چور اور ڈاکو ڈاکو کہنے سے فرصت نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین کو ملکی معیشت کی کوئی پروا نہیں۔ ان کو اپنے مفادات ہی مقدم اور عزیز ہیں۔
سیاسی انتشار اور عدمِ استحکام نے کئی مسائل پیدا کر دیے ہیں جو جمہوریت کے لیے قطعاً نیک شگون نہیں۔ یہ اندازِ سیاست صرف سیاسی جماعتوں کی ناکامی نہیں، بلکہ ملک اور ریاست کے لیے بھی انتہائی نقصان دِہ ہے۔ اگر ضرورت ہو، تو انتخابات کروانے میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اس امر پر اتفاق سب سے اہم ہے کہ قومی معاشی پالیسی کا تسلسل برقرار رہے گا اور اس پر کوئی کھیل تماشا نہیں ہوگا۔
آج ہمارے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے در درکی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں اور یہ ڈگریاں ان کے کام نہیں آرہیں۔ اس سے ان کی صلاحیتیں متاثر ہورہی ہیں۔ بے روزگار ی ان کے لیے عذاب بنتی جا رہی ہے…… اور یہ سرکاری نوکری سے کوسوں دور پرائیویٹ نوکریوں میں آجر کی من مانیوں اور بے جا رعب سہ کر قناعت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔
اس ملک کے حکم رانوں نے خود اپنی آزادی کو عالمی مالیاتی اداروں کی غلامی میں دیا ہے۔ اس ملک کی افسر شاہی اور سیاست دانوں کی بد عنوانی نے سرمایہ داروں کی دولت میں کئی گنا اضافہ کیا اور عوام کی زندگی تنگ کردی۔ یہ طبقہ ملک میں اتنا طاقت ور ہوچکا ہے کہ کوئی بھی ان کی بدعنوانیوں کا حساب نہیں کرسکتا۔ ترقی یافتہ ممالک میں مال دار ٹیکس دیتے ہیں جو غریبوں پر خرچ کیے جاتے ہیں، مگر وطنِ عزیز میں اس کا اُلٹ ہے…… یہاں غریب ٹیکس دیتے ہیں، جو مال داروں پر خرچ کیا جاتا ہے۔
کیا ریاست کے ذمے عوام کو روزگار، تعلیم، صحت اور تحفظ کے جو اقدامات شامل ہیں، وہ ان کو دیے جا رہے ہیں؟
عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور سابق سربراہانِ مملکت کے مطابق وطنِ عزیز میں 45 فی صد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
پاکستانی حکم ران آئی ایم ایف کو ٹارگٹ کرتے ہیں…… مگر آئی ایم ایف پاکستان کو کَہ رہا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی کرے۔
اگر ہم غورکریں، تو ہمارا مسئلہ معاشی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ اس لیے ہماری مجموعی سیاست کو نئے سرے سے ایسے خطوط او رفریم ورک میں لانا ہوگا جو ہماری ضرورت بنتے ہیں او ریہ عمل بڑی سیاسی اصلاحات اور اداروں کی تشکیل نو سے جڑا ہوا ہے ۔اگر ہم یہ سب کچھ نہ کرسکے، تو معاشی بحران سے نمٹنے کا خواب محض خواب ہی رہے اور کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
سیاسی جماعتوں کے ہاتھی اپنی لڑائی میں عوام کو روندتے چلے جا رہے ہیں۔ جیت کسی کی بھی ہو، نقصان صرف اور صرف غریب عوام کا ہورہا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے