آج ہم روایت سے ہٹ کر دو ایسے نازک معاشرتی مسائل پر لکھنا چاہتے ہیں، جو بظاہر بہت ہی بے ضرر اور معمولی محسوس ہوتے ہیں…… لیکن اگر ان کا بغور جائزہ لیا جائے، توکچھ واقعات میں یہ مسائل بہت سنگین نتائج پیدا کرتے ہیں۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
٭ پہلا مسئلہ:۔ یہ بات تو حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں جذباتی محرومی اور جنسی گھٹن عروج پر ہے، اور اس پر نہ تو کبھی حکومت نے غور کیا ہے اور نہ کبھی ریاست و معاشرت نے اس کو اہمیت ہی دی ہے…… بلکہ اس موضوع کو بذاتِ خود معاشرے نے ایک ممنوع چیز قرار دیا ہوا ہے۔ اس پربات کرنا بے حیائی کا فروغ کہلاتا ہے اور شاید اسی وجہ سے اس سے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
لیکن میرا موضوع یہ نہیں بلکہ اس گھٹن اور فرسٹریشن سے میں صرف ایک خرابی کی نشان دہی کرنا چاہتا ہوں، جو دل چسپ بھی ہے، مضحکہ خیز بھی اور بہت حد تک نقصان دہ بھی۔
اب ہوتا کیا ہے کہ کچھ استاد قسم کے لوگ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس جیسے ’’فیس بک‘‘، ’’انسٹاگرام‘‘ اور ’’ٹوئٹر‘‘ وغیرہ پر خواتین کے نام سے آئی ڈی بناتے ہیں۔ اُس میں بے شک کچھ حقیقی خواتین بھی ہوتی ہیں۔ پروفائل پر ایک نہایت خوب صورت اور پُرکشش تصویر لگا دیتے ہیں۔ پھر کیا ہوتا ہے کہ ایک خاص قسم کی معاشرتی گھٹن کا شکار نوجوان نسل اُن کو ’’اِن باکس‘‘ پر ہیلو ہائے کہنا شروع کر دیتی ہے۔ پھر بات بڑھتے بڑھتے بہت آگے نکل جاتی ہے۔ تب متعلقہ خاتون یا خاتون کی آئی ڈی بنانے والا حضرت اس کے کچھ سکرین شارٹ لے کر مذکورہ نوجوان کو بلیک میل کرنا شروع ہوجاتا ہے۔
کچھ معاملات میں ایسے سکرین شارٹس ’’ٹائم لائن‘‘ پر لگا دیے جاتے ہیں۔
اس تمام کھیل کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یا تو کوئی معصوم نوجوان بلیک میل ہو کر خود کو تباہ کر لیتا ہے…… یا پھر وہ ردِ عمل دیتا ہے اور وہی حربہ اختیار کرتا ہے۔
کچھ واقعات ایسے بھی ہوئے ہیں کہ بلیک میل ہونے والے نوجوان انتقام لینے پر تل جاتے ہیں اور باقاعدہ لڑائی جھگڑے اور قتل مقاتلے تک بات پہنچ جاتی ہے۔
اب اس تمام تر صورتِ حال میں قانون خاموش ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ تمام سوشل میڈیا (فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام، واٹس اَپ سے لے کر ٹیلی فون تک) میں بلاک کرنے کا جب آپشن واضح ہے، تو بجائے آپ بعد میں مظلوم بن کر قانون کے اداروں میں درخواستیں دیتے پھریں، ایسے کسی اوباش شخص کو فوراً بلاک کیوں نہیں کرتے؟
قارئین! کسی کو یہ بات اچھی لگے یا بری…… لیکن سچ یہی ہے (خاص کر پاکستانی معاشرے میں) کہ جب تک آپ کی جانب سے تھوڑی بے احتیاطی نہ ہو، دوسری طرف سے کبھی کسی غلط حرکت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اگر آپ بعد میں بلیک میل کرتے ہیں، تو اس کا واضح مقصد آپ کی بدنیتی ہے۔
قارئین! یہ ایک طرح سے شریف اور معصوم نوجوانوں کو بلیک میل کرنے کا حربہ ہے۔
یہاں ہم نوجوان کلاس کو بھی یہ نصیحت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی اپنی حرکات و سکنات اور جذبات پر کنٹرول رکھیں۔ ویسے تو ایسی حرکات شرعی، قانونی، معاشرتی اور اخلاقی طور پر کسی صورت بھی مناسب نہیں…… اور اس سے بچنا ضروری ہے، لیکن وہ کم از کم عقل سے تو کام لیں کہ ایک ایسی فرضی یا خیالی خاتون کہ جس سے آپ کا تعارف محض کسی سوشل میڈیا آئی ڈی پر ہے، نہ آپ کو لوکیشن کا پتا ہے، نہ عمر کا، نہ خاندان کا، نہ کردار کا…… بلکہ اکثر معاملات میں جنس تک کا پتا نہیں ہوتا…… یعنی زیادہ تر تو پروین کے پیچھے پرویز اور سلما اصل میں سلیم ہوتا ہے…… تو آپ کیوں نہ صرف اس کو تحریری طور پر اپنے راز سے آگاہ کر دیتے ہیں بلکہ جذبات میں آکر وہ کچھ بھی کَہ دیتے ہیں کہ جو بعد میں آپ کے خلاف باآسانی استعمال ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ والدین اور اساتذہ کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو وقت بوقت اس بارے سمجھاتے رہیں اور ان کی اخلاقی تربیت کرتے رہیں۔ کیوں کہ اس مسئلے پر انسان کی اخلاقی تربیت قانون سے بھی زیادہ اہم ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بہرحال قانون کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ایسے تمام مسائل کو انصاف کی بنیاد پر حل کرنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ پہلے آپ نوجوانوں کو جال میں پھنسالیں اور پھر مظلوم بن کر انصاف کا تقاضا شروع کردیں۔ ویسے بھی انصاف کی بنیاد حق پر ہوتی ہے، جنس یا شخصیت پر نہیں۔
٭ دوسرا مسئلہ:۔ اب آئیں دوسرے مسئلہ کی طرف۔ ہر روز سوشل میڈیا پر درجنوں کے حساب سے روز گار قرض اور خاص کر میڈیا کے حوالے سے بہت پُرکشش اشتہار دیے جاتے ہیں کہ ہم آپ کو روز گار دیں گے۔ ہم آپ کو بغیر سود کے قرض دیں گے۔ ہم آپ کو بزنس مین بنا دیں گے۔ ہم آپ کو بیرونِ ملک روز گار دیں گے۔ہم آپ کو صحافی اور اینکر پرسن بنا دیں گے، وغیرہ وغیرہ…… لیکن جب آپ ان لنکس پر فالو کرتے جاتے ہیں، تو آخر میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ ہزاروں روپیا اپنا خرچ کر دیتے ہیں اور حاصل کچھ نہیں۔
اس بارے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چوں کہ یہ جذباتی مسئلہ نہیں بلکہ خالصتاً جرائم کا معاملہ ہے، اس وجہ سے قانون کو اپنے آئینی ہاتھوں سے نپٹنا چاہیے۔ ایف آئی اے اور آئی ٹی کی وزرات کو سائبر کرائم سے مل کر فوری کارروائی کرنی چاہیے۔ یہ کوئی مشکل کام بالکل نہیں…… بلکہ آپ بس ٹوئٹر اور خاص کر فیس بک کو چیک کرلیں۔ جس آئی ڈی سے اس قسم کا اشتہار نظر آئے، اس کو فوری طور پر سنجیدہ لیں اور تحقیق کریں کہ آیا واقعی یہ آئی ڈی باقاعدہ کسی مستند قانونی ادارے کی ہے، یا محض لوگوں کی مجبوریوں اور معصومیت سے کھیلنے کی پلاننگ ہے۔یہ چیک کرنا نہایت آسان ہے۔ مثلاً: آپ کو اشتہار نظر آتا ہے کہ ہمیں اپنے اخبار یا ٹی وی چینل کے لیے صحافیوں کی ضرورت ہے، تو اَب ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ باقاعدہ انٹرویو کریں اور پھر سلیکٹ شدہ امیدوار سے باقاعدہ ملازمت کا معاہدہ کریں۔ اس کو ماہانہ تنخواہ دیں۔
لیکن سوشل میڈیا کے اشتہارات 100 فی صد ایسے نہیں ہوتے…… بلکہ وہ کہتے ہیں کہ آپ ہمیں فیس دیں اور فیس میں بھی معیارات ہیں۔ یعنی خالی نمایندہ بننا ہے، تو ہزار روپیا دیں۔ شہر کا یا علاقہ کا مدیر بننا ہے، تو پانچ ہزار دیں اور اگر براہِ راست ایڈیٹر بننا ہے، تو دس ہزار دیں۔
جب ان کو یہ دے دیا جاتا ہے، تو کچھ تو کھا پی کر غائب ہوجاتے ہیں اور کچھ بس ایک کاغذکا ٹکڑا اس شرط پر دے دیتے ہیں کہ اب ہر ماہ ان کو ایک فکس مقدار میں رقم دیتے جاؤ۔ یہی حال روز گار کے اشتہاروں کا ہے کہ آپ کو آفر کی جاتی ہے کہ مینیجر بنا دیں گے، لیکن جب رابطہ کرو، تو معلوم ہوتا ہے کہ اول اس ادارے سے پچاس ہزار کی شاپنگ کرو اور پھر ان پروڈکٹس کو خود ہی بیچ کر اپنا منافع کماؤ اور خود اپنی رقم سے اپنا دفتر بنا کر اس میں مینیجر بن جاؤ۔
یا ایک بہت دل چسپ معاملہ کہ جس کا میں خود گواہ ہوں، نظر سے گزرا کہ فیس بک پر ایک اشتہار نظر آیا کہ صرف اپنے شاختی کارڈ پر دس لاکھ تک بغیر سود قرض حاصل کریں۔ مَیں نے ایسے ہی تجسس میں ان کو میسج کیا۔ ابتدائی گفت گو کے بعد مجھے واٹس اَپ پر آنے کا کہا گیا…… اور پھر وہاں سے میرے کاروبار اور اکاؤنٹس بارے تحقیق کی گئی۔ مجھ سے میرے اثاثہ جات بارے معلومات لی گئی…… اور مَیں ان کو سب صفر بولتا گیا۔ یہ اس لیے کہ اگر میرے اکاؤنٹ ہوتے، بہتر کاروبار ہوتا، اچھا گھر ہوتا، تو دس لاکھ قرض کیوں مانگتا؟
میرا یہ خیال تھا کہ میری درخواست کو مسترد کر دیا جائے گا کہ تم جیسے بھوکے ننگے کو دے کر واپس کیسے لیں گے، لیکن مجھے حیرت ہوئی جب مجھے بتایا گیا کہ میری درخواست منظور کرلی گئی ہے اور جلد میرا چیک تیار ہو جائے گا…… مگر ابھی اور حیرت باقی تھی۔ جب مجھے بتایا گیا کہ اول مجھے پچاس ہزار واپسی کی پہلی قسط فلاں اکاؤنٹ میں جمع کروانا ہوگی اور مبلغ دس ہزار روپیا بطورِ سروس چارجز فلاں اکاؤنٹ میں جمع کروانا ہوں گے۔
اس حوالے سے جب مَیں نے سوال کیا کہ 10ہزار سروس چارجز تو سمجھ آتے ہیں…… لیکن اس قرض کی واپسی کی پہلی قسط میں کس طرح ادا کرسکتا ہوں کہ جو قرض مجھے ابھی تک ملا ہی نہیں؟ تو جواباً کہا گیا کہ جناب! جب ہم آپ پر ساڑھے نو لاکھ کا اعتماد کر رہے ہیں، تو آپ محض پچاس ہزار پر سوال کیسے کرسکتے ہیں؟
تب مجھے یقین ہوا کہ یہ محض سراب ہے، فراڈ ہے۔ اب ایسے عناصر کو پکڑنا اور قانون کے کٹہرے میں لانا کون سا مشکل کام ہے؟
ایک سائبر کرائم پولیس یا ایف آئی اے کا عام سا انسپکٹر اگر خالی ان کا ضرورت مند بن کر ان کو میسج کر دے، تو بس ایک دو دنوں میں ان تک براہِ راست پہنچ سکتا ہے اور پھر ان کو قانون کے کٹہرے میں لاکر جب ان کو سزا سنا دی جائے، تو بے شک دوسرے اس قسم کے مجرم خود بخود خوف زدہ ہو کراس سے پیچھے ہٹ جائیں گے ۔
اسی طرح جو اول مسئلہ ہے، اس پر بھی تحقیقات ہوں اور اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ کسی مرد نے کسی حسینہ کی آئی ڈی بنائی ہے، تو دوسری طرف سے کچھ بھی ہو، مجرم آئی ڈی بنانے والا قرار دیا جائے…… لیکن اگر آئی ڈی واقعی کسی خاتون کی ہے، تو اس کی بھی مکمل تحقیق ہو کہ معاملات کو آخری حد تک لے جانے میں اس خاتون کا اپنا کیا کردار ہے؟
سو اس صورت میں اول مجرم تو اس خاتون کو قرار دیا جائے۔ البتہ اگر کسی کیس میں واقعی یہ بات اسٹیبلش ہو جاتی ہے کہ یہ حقیت میں ہراساں کرنے کا معاملہ ہے اور سوشل میڈیا کی گنجایش لے کر واقعی کسی شریف خاندان کی عورت کو تنگ یا بے آبرو کرنے کی کوشش ہو رہی ہے، تو اس صورت میں مجرم سے قانون کے مطابق نپٹا جائے۔ اور ثابت شدہ مجرم کو قرار واقعی سزا دے کر نشانِ عبرت بنائے جائے۔
قارئین! ہم نے اس کالم میں بس دو معاشرتی برائیوں کی بات کی ہے، وگرنہ آج سوشل میڈیا کی مدد سے بے شمار پیچیدگیاں بن چکی ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔