ایک مرتبہ ایک جناب نے مجھ سے گفت گو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو لوگ زیادہ پڑھتے ہیں یا جس چیز کا پرچار کرتے ہیں، ان کا اس پر عمل نہیں ہوتا۔ مطلب یہی کہ جو بھی دانش ور لوگ ہوتے ہیں، ان کا اپنے سکھائے علم پر عمل نہیں ہوتا۔ کیا ایسا واقعی میں ہوتا ہے؟
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
مَیں نے مغرب کے ایسے کئی سائنس دانوں اور دانش وروں کو پڑھا ہے اور انھیں فالو کرتی ہوں…… جو فلسفہ وہ پڑھاتے ہیں، اس پر ان کا عمل بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’ڈاکٹر کال نیوپورٹ‘‘ جو کہ ایک کمپیوٹر سائنس دان ہیں اور سوشل میڈیا کے خلاف ہیں، ان کا سوشل میڈیا پر کوئی اکاؤنٹ موجود نہیں۔ ان سے طالب علم اور پیشہ ور لوگ ’’پروڈکٹیوٹی‘‘اور کیریئر پر مشورہ لینے کے علاوہ اکثر کام اور فیملی کے درمیان توازن کو برقرار رکھنے کے متعلق بھی سوالات پوچھتے ہیں۔ کیوں کہ ڈاکٹر نیوپورٹ تین بچوں کے باپ ہیں، فیملی اور اس سے وابستہ مسائل کو سمجھتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ دوسروں کو کام اور فیملی پر مشورے دیتے ہیں جب کہ اپنی کبھی شادی ہی نہیں ہوئی۔
میں ’’اُوشو‘‘ (Osho)، جدو کرشنا مورتی (Jiddu Krishna Murti)، ایلن واٹس (Alan Watts) وغیرہ اور ان جیسے روحانی استاد/ فلسفی کے متعلق شک و شبہات میں مبتلا رہتی ہوں( ضروری نہیں کہ آپ کو بھی شک ہو!)، ان کا لکھا علم پڑھا ہے مَیں نے، جو بات پسند آئی اُس کو زندگی میں شامل بھی کیا، لیکن زیادہ تر بہت مثالی باتیں ہوتی ہیں ایسے دانش وروں کی…… جس سے خود کو وابستہ کرنا ہم عام لوگوں کے بس کی بات نہیں۔ کیوں کہ ہماری زندگی کے مسائل بہت پیچیدہ ہیں اور یہ سب اس پیچیدگی کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ چوں کہ یہ متنازعہ لوگ ہیں، ان کی زندگی کے اوائلی سالوں پر اگر نظرِ ثانی کی جائے تو یہ ’’ٹروما‘‘ (Trauma) سے گزرے ہیں۔ ان میں سے کئی روحانی استاد اور فلسفی نارساسسٹ (Narcissist) ہوتے ہیں۔ جو لوگ ٹروما سے گزرے ہوں یا جذباتی طور پر کم زور ہوں، وہ ایسے استادوں اور فلسفی کے ’’چارم‘‘ (Charm) کی جانب کشش محسوس کرتے ہیں۔
’’ایلن ڈی بوٹن‘‘ بھی فلسفی ہیں۔ انھوں نے سائیکالوجی اور فلسفہ کا بہت ہی خوب صورت اور حقیقت پسندانہ ملاپ پیش کیا جس کا ہماری عام زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ وہ والدین اور بچوں کے درمیان اوائلی سالوں میں تعلقات اور اُن تعلقات سے جنم لینے والے نفسیاتی مسائل اور عام زندگی میں انسانوں کی جذباتی الجھنوں کا نفسیات اور فلسفہ دونوں کے نقطۂ نظر سے جائزہ لینا سکھاتے ہیں۔
آپ کی زندگی میں جو پہلا رسم الخط (Script) لکھا جاتا ہے، جسے آپ کے والدین/ گھر والے لکھتے ہیں، وہ آپکی زندگی کے ہر پہلو پر نمایاں ہوتا ہے۔ پہلا رسم الخط ’’الفاظ‘‘ نہیں بلکہ ’’انرجی‘‘ اور غیر زبانی اشاروں (Non-verbal cues) میں لکھا جاتا ہے۔ یہ والا اسکرپٹ آپ کے عصبی نظام (Nervous System) میں چپک جاتا ہے۔ اگر اسکرپٹ ابیوز/ ٹروما/ محدود نظریات پر مبنی ہی کیوں نہ ہو، آپ اس کی جگہ نیا اسکرپٹ لکھ کر خود کو شفایاب (Heal) تو کرتے ہیں، لیکن پھر بھی پہلا والا اسکرپٹ ہوا میں اُڑ نہیں جاتا، بلکہ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔ آپ اس کو اپنی زندگی کا ایک حصہ سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔ اس لیے اندازہ لگائیں کہ والدین ہونا کتنی بڑی ذمے داری ہے اور ایک سماجی مخلوق ہونا کتنی بڑی سزا……! بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔
فلسفہ اور دانش وروں کے ذکر پر واپس آتے ہیں۔ ڈاکٹر رامنی جو کہ نارساسزم پر ماہر ڈاکٹر ہیں، کہتی ہیں کہ وہ ایسے کئی قابل لوگوں سے ملی ہیں، جن کے پاس علم کا خزانہ ہے…… لیکن وہ اپنے علم کے ساتھ سکون سے بیٹھنا اور وقت گزارنا جانتے ہیں، جب کہ نارساسسٹ اور ایسے لوگ جو ٹاکسک ہوتے ہیں، وہ علم حاصل ہی اس لیے کرتے ہیں کہ چار لوگوں کا جھمگٹا بنا کر لیکچر دے سکیں…… اور اپنے لفظوں کے کھیل سے توثیق (Validation) حاصل کرسکیں۔ ایسے لوگ معاملات کو سیاہ سفید (Black & White) کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ دوسروں پر اپنے علم کی بجلیاں گراتے ہیں (لیکن عمل کوئی نہیں!) نارساسسٹ کی اس قسم کو دماغی نارساسسٹ (Cerebral Narcissist) کہتے ہیں۔
ایسے نارساسسٹ اپنے جسم کے ایک حصے سے محبت کرتے ہیں اور اسے دماغ کہتے ہیں۔ ان کے لیے باقی کا جسم فضول اور بے کار ہوتا ہے۔ یہ اس پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ انھیں اچھا دِکھنے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔ یہ خود کو بہت ذہین سمجھتے ہیں۔ ان کے پاس گہرائی میں علم نہیں ہوتا۔ یہ سرسری علم حاصل کرتے ہیں، جس پر ساری زندگی قائم رہ کر دوسروں کو ہمیشہ غلط اور خود کو صحیح سمجھتے ہیں۔ نارساسسٹ کی اور بھی کئی قسمیں ہیں، لیکن اکثر فلسفی، مذہبی/ روحانی استاد اور دانش ور دماغی نارساسسٹ ہوتے ہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ ان صاحب نے مجھے کہا کہ اکثر دانش ور/ روحانی استاد/ فلسفی کا اپنی بتائی باتوں پر عمل نہیں ہوتا۔ کیوں کہ بہت ممکن ہے کہ وہ نارساسسٹک پرسنلٹی ڈساڈر کا شکار ہوں اور نارساسزم کی جس قسم کا وہ شکار ہوں، اُسے دماغی نارساسسٹ کہتے ہیں۔
یہاں جو بات ضروری ہے، وہ یہ کہ ایسے استادوں کی جانب وہی لوگ عموماً کشش محسوس کرتے ہیں جن کی اپنی جذباتی صحت (Emotional Health) اچھی نہیں ہوتی، یا پھر وہ لوگ جو خود بہت ذہین ہوتے ہیں، وہ دماغی نارساسسٹ کی جانب کشش محسوس کرتے ہیں۔ ایسے لوگ روحانی استاد/ فلسفی کے ساتھ ’’ٹروما بونڈ‘‘ (Trauma Bond) بنا لیتے ہیں اور نارساسسٹ کو توثیق (Validation)مل رہی ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر فلسفی جو اپنی بات پر عمل پیرا نہ ہو، نارساسسٹ ہو……لیکن عموماً ایسا ہوتا ہے۔
اس کے لیے دوسروں کو الزام تراشیاں نہیں کرنی ہوتی، بلکہ اپنے جذباتی زخم (Emotional Wounds) بھرنے ہوتے ہیں۔ حقیقت پسند بننا ہوتا ہے، تاکہ آپ نارساسسٹ کا مقناطیس نہ بنیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔