جدید دنیا کا زندگی کے متعلق اس طرح کا رویہ ہے کہ جیسے موت تو کبھی آنی ہی نہیں۔ زندہ رہنے کا جنون (Obsession) سا ہے ماڈرن انسانوں میں۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
لافانی ہونے کی خواہش اور موت کا خوف انسانوں کے ساتھ رہا ہے ہمیشہ سے۔ موت کا خوف (Fear of Death) کچھ لوگوں کو اکثر اس طرح گھیرے میں لے لیتا ہے کہ ان کی روز مرہ کی زندگی پر اثر پڑتا ہے اور انھیں نفسیات کے ماہر کی مدد درکار ہوتی ہے۔ آخر کو ہم ماڈرن انسانوں کا موت (جس کو ٹالنا ناممکن ہے) سے اتنا مضطرب (Anxious) تعلق کیوں ہے…… اور کیا ہم اس تعلق کو بہتر بنا سکتے ہیں…… تاکہ نہ صرف موت سے جڑی انزائٹی کو پراسس (Process) کرسکیں، بلکہ شبِ برات جیسے مذہبی دن اور اسٹائک فلسفہ ’’مومینٹو موری‘‘ کی مدد سے موت کو ایک مختلف زاویے سے دیکھ سکیں؟
کارل ساگن (Carl Sagan) کی بیٹی ساشا ساگن (Sasha Sagan) نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے سیکولر (Secular) ہونے کی وجہ سے اپنی زندگی میں مذہبی رسم و رواج اور ان رسومات کے زندگی سے چلے جانے پر خالی پن اور لامعنیت (Meaninglessness) کا اظہار کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ساشا ساگن رسومات (Rituals) کو انسانوں کے لیے ضروری سمجھتی ہیں۔ شبِ برات جیسے مذہبی دن انسانوں کی نفسیات اور اس سے درپیش مسائل کو مدِنظر رکھ کر ہی وجود میں آئے ہیں۔ زندگی کے نشے میں کھوئے ہوئے لوگوں کو یاد دلاتے ہیں ایسے دن کہ ہمارے پاس جو ہے وہ ہمیشہ نہیں رہے گا۔ ہمیشہ خوش رہو۔ لمبی عمر پاؤ۔ ’’موت کا سایہ تم پر نہ منڈلائے‘‘ والی دعاؤں میں شبِ برات کا دن یاد دِلاتا ہے کہ موت تو آئے گی۔ اس کو قبول کرو۔ مرے ہوئے لوگوں کی قبر پر جاکر یہ دکھایا جاتا ہے کہ یہ بھی ہماری طرح زندہ تھے۔ ان کی مغفرت کی دعا کروائی جاتی ہے اور شاید ہمیں باور کروایا جاتا ہے کہ ہم عبرت حاصل کریں۔ ہمارے تکبر میں کمی آئے۔ کیوں کہ ہماری طاقت ہمیشہ قائم نہیں رہے گی۔
اسٹائک فلسفہ ’’مومینٹو موری‘‘ بھی بتاتا ہے کہ یاد رکھو مرنا ہے۔
لیکن یہی فلسفہ اور شبِ برات ہمارے دلوں میں صرف موت کا خوف نہیں ڈالتے، بلکہ یہ ہمیں موت کی یاد دہانی کروا کر موت کے ذریعے زندگی کو دیکھنے کا دوسرا رُخ بھی بتاتے ہیں۔
کتاب میڈیٹیشنز (Meditations) میں مارکس اوریلئس (Marcus Aurelius) کہتا ہے کہ زندگی تمھارا ساتھ کسی بھی وقت چھوڑ سکتی ہے۔ اس حقیقت کو اس بات کا تعین کرنے دیں کہ آپ کیا بولتے، کرتے اور سوچتے ہیں؟ مطلب یہی کہ موت کو خود کو یہ سمجھانے دیں کہ آپ کے پاس بہت محدود وقت اور عدم یقینی (Uncertainty) کی صورتِ حال ہے، تو پھر کیوں زندگی میں وہ کام کرنے سے ڈر رہے ہیں یا تاخیر (Procrastinate) کررہے ہیں؟ کیوں کہ آپ کو ان کاموں کو کرنے سے خوف آتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے……؟ یا پھر وہ کام مشکل لگتا ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ ابھی بہت وقت ہے، یا پھر وقت آئے گا، یا پھر مجھے نہیں لگتا کہ میں یہ کر بھی پاؤں کا یا نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
اکثر 50 سال کی عمر سے گزر جانے کے بعد لوگوں کو اس بات کا افسوس ہوتا ہے کہ کاش! انھوں نے وہ تمام کام کیے ہوتے جو وہ فیل ہوجانے یا لوگوں کے خوف سے نہیں کر پائے، یا انھیں اپنے ٹین ایج (Teenage) یا پھر جوانی کے سالوں میں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ یہ ہمیشہ نہیں ہوگا اور وقت گزر رہا ہے…… اور کاش! انھوں نے مزید نئے تجربات کیے ہوتے۔ کیوں کہ درحقیقت لوگوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں……!
اپنے بچوں سے بات کریں موت جیسے پُراَسرا موضوع پر۔ ان کے سوالوں کا جواب دیں۔ کسی کی تعزیت کے لیے جائیں، تو انھیں ضرور لے کر جائیں۔ قبرستان لے کر جائیں اور مرنے والوں کے لیے دعائے مغفرت کروائیں۔ ان کا موت سے حقیقت پسندانہ تعلق استوار کروائیں۔ چوں کہ کوئی نہیں جانتا کہ موت کے بعد کیا ہوتا ہے، یہ سوچ موت کو ہمارے لیے انزائٹی (Anxiety) اور خوف کا باعث تو بناتی ہے، لیکن اس کی عدم یقینی، پُراَسراریت، یاد دہانی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ ہمارے پاس وقت کم ہے اور کام بہت ہیں۔ خواہشات بہت ہیں اس لیے تاخیر (Procrastination) کے لیے کوئی جگہ نہیں بچتی!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔