وزیرِ اعظم پاکستان جناب شہباز شریف نے وطنِ عزیز کے غریب عوام کے لیے حاتم طائی کی قبر کو دونوں لاتیں مار کر اسے قبر میں بھی بے سکون اور بے چین کر دیا ہے۔ انھوں نے اعلان فرمایا ہے کہ دیس بھر کے غربا کو ماہِ رمضان میں مفت آٹا تقسیم کیا جائے گا۔ یہ اعلان ایسے ہی ہے کہ پہلے ان غریبوں کو یکے بعد دیگرے کئی زناٹے دار تھپڑ رسید کیے گئے اور جب تکلیف کی شدت سے اُن کی چیخیں آسمانوں کو چھوگئیں، تو ان کے منھ میں گُڑ کا ٹکڑا ڈال کر انھیں اب چپ کروانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
وزیرِ اعظم صاحب کے اقتدار کے گیارہ ماہ میں عوام فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ لوگ اپنے بچوں کو زہر دے کر خودکُشی کرنے پر مجبور ہیں۔ صرف ان گیارہ ماہ میں مہنگائی دوگنا ہو چکی ہے…… جب کہ لوگوں کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ نجی اور سرکاری ملازمین سخت مشکل میں ہیں۔ آپ ذرا تصور کریں کہ 25 ہزار روپے تنخواہ لینے والا درجۂ چہارم کا سرکاری ملازم کیسے گزارا کر رہا ہوگا؟ بچوں کی فیسیں، یونیفارم اور کتابیں، ان کی ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات اس تنخواہ سے کیسے پورے ہوتے ہوں گے؟ وہ بجلی اور گیس کے بل کیسے ادا کرتا ہوگا؟ اگر مہمان گھر میں آ جائے، تو اس کی کیا حالت ہوتی ہو گی؟ اب آگے عید آ رہی ہے۔ کیا وہ اپنے بچوں کو عید پر نئے کپڑے دلا پائے گا؟
روزانہ مزدوری کرنے والوں کا حال سب سے برا ہے۔ کبھی دیہاڑی لگتی ہے اور کبھی خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑتا ہے۔ کیا گزرتی ہوگی اس خالی ہاتھ لوٹنے والے مزدور کے بیوی بچوں پر، جب وہ چشمِ نم لیے گھر میں داخل ہوتا ہوگا۔
چار افراد کے خاندان کے لیے سستی سے سستی سبزی بھی تین سو روپے میں ملتی ہے۔ برائیلر گوشت غریب کی پہنچ سے دور ہوکر عیاشی کے زمرے میں شمار ہونے لگا ہے۔ گھی ساڑھے چھے سو روپے کلو تک جا پہنچا ہے۔ طُرفہ تماشا یہ کہ یوٹیلٹی سٹوروں پر غریبوں کو جو سستا گھی ملتا تھا، اسے بھی ڈیڑھ سو روپے کلو مہنگا کر دیا گیا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز کی دیگر آئٹمز کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر کے ماہِ صیام کی آمد کا جشن منایا جا رہا ہے۔ ایسے میں غریبوں کے لیے مفت آٹے کی فراہمی ایک مذاق ہی لگ رہی ہے۔
ابھی تک یہ تعین بھی نہیں کیا جاسکا کہ غریب ہونے کا کرائٹیریا کیا ہے؟ کیسے غریب لوگ اپنی غربت کا یقین دلا پائیں گے؟ حکومت کی کیا پلاننگ ہے؟ کہیں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں متوقع انتخابات کی وجہ سے تو یہ ریلیف نہیں دیا جا رہا؟ کیا صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مستحقین اس پیکیج سے فائدہ اٹھائیں گے یا مزید لوگ اس میں شامل کیے جائیں گے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ غربا کی لسٹیں ہمارے سیاسی ورکرز اپنے اپنے وارڈز کی سطح پر بنائیں گے؟ یہ اور ان جیسے ڈھیر سارے سوالات جواب طلب ہیں…… یعنی وزیرِ اعظم صاحب نے ہوم ورک کیے بغیر ہی ریلیف کا اعلان فرما دیا ہے۔
ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں متمول لوگوں کو بھی شامل کیا گیا تھا، یہاں تک کہ حاضرِ سروس گریڈ 17 اور 18 کے افسران بھی ’’انتہائی غریب‘‘ افراد کی لسٹ میں شامل تھے۔ کہیں مفت آٹا سکیم میں بھی تاریخ اپنے آپ کو دہرانے تو نہیں جا رہی……؟
گذشتہ چار ماہ سے سستا آٹا حاصل کرنے والے افراد کو جس قدر ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ لوگ ہاتھوں میں نوٹ پکڑے پھر رہے ہوتے ہیں، مگر انھیں آٹا نہیں ملتا۔ یہ تو نقد آٹا لینے والوں کا حال کیا جا رہا ہے۔ ذرا سوچیے……! مفت آٹا لینے والوں کی قطاریں کتنی طویل ہوں گی؟ ان کی کس قدر تذلیل ہوگی؟ ان کی سفید پوشی کا بھرم کس طرح ٹوٹ کر بکھر جائے گا؟ جب وہ صبح سے شام تک قطار میں لگے 10 یا 20 کلو کے مفت آٹے کے حصول کے لیے میڈیا کے کیمروں کا سامنا کر رہے ہوں گے……!
جناب وزیرِ اعظم! ملک میں صرف آٹا ہی مہنگا نہیں۔ تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتیں آپ کے دور میں 100 فی صد بڑھی ہیں۔ ضرورت آٹا کی خیرات بانٹنے کی نہیں، بلکہ اشیائے صرف کو سستا کرنے کی ہے۔ اگر آپ پانچ ارب کا آٹا دیں گے، تو پانچ ارب ہی اس کی ترسیل کا خرچہ بن جائے گا۔ بہتر ہے کہ آپ یہ بھیک نہ دیں۔ ریلیف کی رقم یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو دے کر چیزیں سستی کر دیں۔ ماہِ رمضان کے ایک مہینے میں آپ بھیک دے دیں گے، باقی گیارہ ماہ لوگ اپنے پلے سے آٹا خریدیں گے، اس ایک مہینے میں بھی کسی نہ کسی طرح خرید ہی لیں گے۔ آپ غریبوں اور نادار عوام کو قطاروں میں کھڑا کر کے ان کی غربت کو مذاق نہ اُڑائیں۔ یقین کریں، آپ کا یہ ریلیف پیکیج اونٹ کے منھ میں زیرے کے مصداق بھی نہیں!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔