آئی ایم ایف کی شرائط کا بوجھ عوام ہی کیوں اٹھائیں؟

جو حکم ران دور اندیش اور عوامی مزاج کو سمجھتے ہیں، وہ سب سے پہلے عوام کو درپیش مسائل حل کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔ خاص طور پر ان کے لیے ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کو آسان بناتے ہیں۔ وہ کسی صورت بھی اشیائے خور و نوش کی قلت اور گرانی کو برداشت نہیں کرتے…… اور طلب و رسد کا ایسا مضبوط نظام قائم کرتے ہیں کہ عوام کو کوئی دشواری نہ ہو۔ بس یہی چیز حکومت کا پلہ بھاری کردیتی ہے اور اپوزیشن کی طرف سے حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور وقت سے پہلے رخصت کرنے کی ساری کوششیں ناکام ہوجاتی ہیں۔
لیکن پاکستان میں ہوا یہ کہ حکم رانوں کی طرف سے پے در پے مہنگائی کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ یہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں۔ اگر ان پر عمل درآمد کرتے ہوئے قیمتوں میں اضافہ نہ کیا گیا، تو خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے گا۔
حکم رانوں کی سوچ اپنی حد تک درست مگر پے درپے مہنگائی اور اشیائے خورو نوش میں گرانی کے طوفان سے غریب کا چولہا بجھ گیا ہے۔ محنت مزدوری کرنے والے طبقے کے لیے دو وقت کی روٹی کمانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے۔ نفع اور مزدوری کی اجرت وہی مگر اخراجات میں مہنگائی کی وجہ سے کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔
ملک میں معاشی حالات اس قدر سنگین ہیں کہ ہر مکتبہ فکر کے افراد پریشان ہیں اور کہتے نظر آتے ہیں کہ ایسی مایوسی ہم نے اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ اقتصادی طور پر پاکستان کو خطرناک و پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا ہے۔ قومی کرنسی ڈالر کے سامنے ایسے عجز کا شکار کبھی نہیں رہی۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری زرخیز اراضی پہلے پورے جنوبی ایشیا کے لیے غلہ پیدا کرتی تھی، اب ہم اپنے لیے کیوں نہیں کرسکتے؟
ہمارے پاس سونا اگلنے والی دھرتی ہونے کے باوجود ہم گندم، پیاز، ٹماٹر، سبزیاں اور اناج دوسرے ملکوں سے منگوارہے ہیں۔ ہمارے قدرتی وسائل بے پایاں ہیں، مگر بدترین حکم رانی کی تاریخ نے ہمارے سر شرم سے سر جھکادیے ہیں۔ ملکی و غیر ملکی ماہرین کَہ رہے ہیں کہ یہ بگڑے ہوئے حالات ایک سے ڈیڑھ سال مزید جاری رہ سکتے ہیں۔ موجودہ حکومت اب تک ایسی پالیسیاں وضع نہیں کرسکی جن سے ڈالر کی پرواز رُک سکے اور ضروری اشیا کی قیمتیں قابو میں آسکیں۔
بعض اوقات تو سنجیدہ حلقے یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ اقتصادی، سیاسی اور سماجی بحران کو ختم کرنا اس مخلوط حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں…… بلکہ یہ بحران اسے راس آرہا ہے اور وہ اس سے ٹھیک ٹھیک فائدے اٹھا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا بوجھ غریب عوام پر براہِ راست منتقل کرنا سراسر ظلم ہے۔ آج ہمارے حکم راں تو آسان راستہ یہی خیال کررہے ہیں کہ آئی ایم ایف جتنا بوجھ دیتی ہے، وہ براہِ راست غریب عوام پر ڈال دیں۔ آئی ایم ایف نے بجا طور پر بیورو کریسی کے اثاثے ظاہر کرنے پر زور دیا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو بدترین معاشی حالات سے نکالنے اور بہتری کی طرف لانے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے متفقہ طور پر ایک لائحہ عمل طے کیا جائے، جس کے نتیجے میں ایک غیر جانب دار، محب وطن معاشی اور قانونی ماہرین پر مشتمل نگران انتظامی ڈھانچا تشکیل پائے،اس ناقابلِ قبول نگران حکومت کی مدت محدود ہو…… اور اس کی تشکیل کے وقت ہی اگلے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی کر دیا جائے، جو بالکل شفاف اور منصفانہ ہوں۔ ا س سے ہم بحرانوں سے نکل سکیں گے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے