رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے: ’’ اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا‘‘۔
رانا اعجاز حسین چوہان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rana/
ہجری سال کا آٹھواں مہینا شعبان المعظم نفلی روزوں اور عبادات کے لیے انتہائی فضیلت والاہے۔ اس ماہ کی فضیلت کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینے میں ماہِ رمضان کے روزوں، تراویح اور دیگر عبادات کی تیاری کا موقع ملتا ہے۔
رمضان المبارک کے استقبال اور عبادت کی تیاری ہی کی وجہ سے آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے میں خصوصیت سے خیر و برکت کی دعا فرمائی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیاکہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ کون ساہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا شعبان کا، رمضان کی تعظیم کے لیے۔(ترمذی)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: مَیں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں۔
اس کے ساتھ ساتھ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یعنی جب آدھا شعبان باقی رہ جائے، تو روزے مت رکھو۔
علمائے کرام نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس حدیث شریف میں ممانعت ان لوگوں کے لیے ہے جن کو روزہ کم زور کرتا ہے، ایسے لوگوں کو یہ حکم دیاگیا کہ نصف شعبان کے بعد روزے مت رکھو بلکہ کھاؤ پیو اور طاقت حاصل کرو، تاکہ رمضان المبارک کے روزے قوت کے ساتھ رکھے جاسکیں اور تراویح و دیگر عبادات نشاط کے ساتھ انجام دی جاسکیں…… جب کہ امت میں ایسے لوگ جو کہ طاقت رکھتے ہیں اور شعبان المعظم کے نفلی روزے ان کو کم زور نہیں کرتے، وہ نصف شعبان کے بعد بھی نفلی روزے رکھ سکتے ہیں۔
حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:’’میرا ذوق یہ کہتا ہے کہ رمضان المبارک میں شب کو جو جاگنا ہوگا، شعبان المعظم کی شبوں میں جاگنا اس کا نمونہ ہے اور شعبان المعظم کے نفلی روزے رمضان المبارک کے فرض روزوں کا نمونہ اور عادی بناناہے۔ اورآدھے شعبان کے بعد روزوں سے جو منع فرمایا گیا ہے، یہ در حقیقت رمضان المبارک کی تیاری کے لیے فرمایا گیا ہے…… یعنی کھاؤ پیو اور رمضان کے لیے تیار ہو جاؤ، اور یہ امید رکھو کہ روزے آسان ہو جائیں گے۔‘‘
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں، مَیں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی۔ مَیں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مدینہ طیبہ کے قبرستان) بقیع میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے دیکھ کر) ارشاد فرمایا، ’’کیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ نا انصافی کرے گا؟ (یعنی تیری باری میں کسی دوسری بیوی کے پاس چلا جائے گا؟) مَیں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’اللہ تعالا شعبان کی پندرہویں شب میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف )
قبیلہ بنوکلب عرب کا ایک مشہور قبیلہ تھا، جس کے پاس عرب کے تمام قبائل سے زیادہ بکریاں تھیں۔ احادیث مبارکہ کے مطابق چوں کہ اس رات میں بے شمار گنہگاروں کی مغفرت اور مجرموں کی بخشش ہوتی ہے اور عذابِ جہنم سے چھٹکارا اور نجات ملتی ہے، اس لیے عرف میں اس رات کا نام ’’شبِ برات‘‘ مشہور ہوگیا۔
البتہ! حدیث شریف میں اس رات کا کوئی مخصوص نام نہیں آیا…… بلکہ’’ لیل النصف من شعبان‘‘ یعنی شعبان کی درمیانی شب کَہ کر اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے مہینے کی آخری تاریخ میں خطبہ دیا اور فرمایا، ’’اے لوگو! تم پر ایک عظمت و برکت والا مہینا سایہ فگن ہونے والا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شبِ قدر، تراویح، مغفرت باری تعالا اور رمضان میں اہتمام سے کیے جانے والے خصوصی اعمال کا تذکرہ فرمایا۔
بارگاہِ الٰہی میں دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ہمیں اس ماہِ مبارک میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے والا بنائے…… اور رمضان المبارک کے استقبال و عبادات کے لیے تیاری کی توفیق عطا فرمائے…… جو کہ ہمارے گناہوں کی مغفرت اور اللہ تعالا کی خوش نودی کا ذریعہ بنے، آمین!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔