استادِ محترم شجاعت علی راہیؔ صاحب نظم اور نثر کی مختلف اصناف پر قلم بہ دست رہتے ہیں۔ وہ آج کل بچوں کے تخلیقی اور تحقیقی ادب کے حوالے سے غیرمعمولی کام کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ان کی تین کتابیں شائع ہوئی ہیں جن میں ایک ناولٹ ’’نیکیوں کی برسات‘‘، حمدیہ کلام کا شعری مجموعہ ’’لا الہ الا اللہ‘‘ اور نام ور شخصیات کے زندگی کا قرینہ بدلنے والے واقعات پر مشتمل تحقیقی کتاب ’’باتیں ہماری یاد رہیں‘‘ شامل ہے۔
فضل ربی راہی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazl-e-rabbi-rahi/
’’نیکیوں کی برسات‘‘ کی کہانی ایک سعادت مند بچے کے گرد گھومتی ہے جو اپنے والدین کی تربیت کے زیرِ اثر ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے قول و فعل سے نیکیاں پھیلاتا ہے۔ کہانی کا تانا بانا اس طرح بُنا گیا ہے کہ ناولٹ پڑھتے ہوئے کہیں بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔ البتہ اس کی ہر سطر سے پڑھنے والے کو معاشرے میں کچھ اچھا کام کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ مشہور موٹیویشنل اسپیکر، استاد اور مصنف قاسم علی شاہ کتاب پر لکھے گئے اپنے تبصرے میں رقم طراز ہیں: ’’شجاعت علی راہیؔ صاحب کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ’’نیکیوں کی برسات‘‘ کے نام سے بچوں کے لیے مختلف طرح کی اخلاقی کہانیاں بہت دلچسپ پیرائے میں لکھی ہیں۔ کوئی بھی کہانی آپ شروع کریں، تو ختم ہونے سے پہلے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ اس کتاب کی کہانیاں جیسے کہ ’’پہلی نیکی‘‘، ’’لکڑی کا پل‘‘، ’’چراغ سے چراغ جلتا ہے ‘‘، ’’نرالا خواب‘‘ اور ’’اندھے شخص کی مدد‘‘ ایک مخصوص عنوان اور اخلاقی سبق کے گرد گھومتی ہیں اور بچے جہاں ان کے پڑھنے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، وہاں غیرمحسوس طریقے سے وہ ان سے اچھی عادات و اخلاق کے عادی بھی بن جاتے ہیں۔‘‘
شجاعت علی راہیؔ صاحب کی دوسری کتاب ’’لاالہ الا اللہ‘‘ میں حمدیہ کلام پر مشتمل مناجات، دوہے، ابیات، نظمیں، ہائیکو، قطعات، دعائیں، غزلِ مسلسل اور مرثیہ جیسی اصناف موجود ہیں۔ گویا استادِ محترم نے ربِ جلیل کی حمد و ثنا پر مشتمل متفرق اصناف کا ایک عطر بیز گلستان سجایا ہے جس کی خوش بوؤں سے دل و دماغ معطر اور روح کو آسودگی کا احساس ہوتا ہے۔
راہیؔ صاحب ایک قادر الکلام شاعر ہیں۔ ان کے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں اور وہ شاعری کی جس صنف پر بھی طبع آزمائی کرتے ہیں، اس میں بلند معیار کو مدِنظر رکھتے ہیں۔ نمونۂ کلام ملاحظہ کیجیے:
تُو زماں، تُو ہی مکاں، تیرے سوا کچھ بھی نہیں
ساعتیں کچھ بھی نہیں، ارض و سما کچھ بھی نہیں
ہر ہرے موسم میں تُو، تیرے بِنا کچھ بھی نہیں
رنگ، خوشبو، پھول، غنچے کی صدا کچھ بھی نہیں
کہکشاں در کہکشاں تیرا مقدّس نور ہے
باقی سب ظلمات، سنّاٹا، خلا، کچھ بھی نہیں
آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں حیرتیں
آئینہ در آئینہ در آئینہ کچھ بھی نہیں
اک نشیلی باس جو اتنی سبک، اتنی لطیف
چُھو کے دیکھو تو لگے زیرِ رِدا کچھ بھی نہیں
آئینہ ہے ، عکسِ طلعت ہے ـــ نہیں وہ بھی نہیں
رنگِ رخسارِ شفق، رخشِ ہوا کچھ بھی نہیں
شجاعت علی راہیؔ صاحب کی تیسری اور ابھی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’’باتیں ہماری یاد رہیں‘‘ ہے۔ یہ کتاب قومی، عالمی اور تاریخی شخصیات کے اہم اور زندگی کا قرینہ بدلنے والے واقعات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں اُن بلند پایہ شخصیات کے فکر و عمل پر ابھارنے والے اقوال اور دل چسپ لیکن سبق آموز واقعات کا انتخاب پیش کیا گیا ہے، جنھیں پڑھ کر بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب بنیادی طور پر بچوں کی تعلیم و تربیت کو مدنظر رکھ کر مدون کی گئی ہے، لیکن یہ بڑی عمر کے قارئین کو بھی فکر و عمل کی دعوت دیتی ہے۔ اس کتاب پر ممتاز مصنفہ محترمہ نصرت نسیم نے ’’دھنک رنگ شخصیت‘‘ کے عنوان سے تعارفی کلمات لکھے ہیں۔ جن میں وہ رقم طراز ہیں: ’’دنیائے رنگ وبو میں کبھی کبھی ایسے گلِ رعنا اورگلِ معطر بھی کھلتے ہیں جو اپنے حسن و جمال، خوش رنگی اورمہک سے چمن کو مہکا دیتے ہیں۔ شجاعت علی راہیؔ بھی ایک ایسی ہی دل نواز ودل ربا شخصیت ہیں جن کا ایک شیتل روپ ہے۔ ان کی دل پذیر شخصیت کی کئی پرتیں ہیں۔ کئی سندر رنگوں سے مزین ایک دھنک رنگ شخصیت ہیں۔ فرزندِ کوہاٹ اور فخرِ کوہاٹ شجاعت علی راہیؔ کی ہمہ جہت شخصیت کو بیان کرنے کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔
سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے
نصرت نسیم صاحبہ مزید لکھتی ہیں: ’’استاد ایک ایسی ہستی ہے کہ جو ریٹائر ہو کے بھی کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ 70 سال کی عمر میں ملازمت سے سبک دوش ہونے کے بعد بھی محترم شجاعت علی راہیؔ صاحب نے نسلِ نو کی تعلیم و تربیت کے لیے درجنوں کتابیں لکھیں جو زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئیں اور اب بفضلِ تعالیٰ ان کی 39ویں کتاب ’’باتیں ہماری یاد رہیں‘‘ کا مسودہ میرے سامنے ہے۔ دورانِ مطالعہ وہ کتاب کے پسندیدہ اقتباسات رجسٹر میں لکھتے رہے۔ اس انمول خزینے میں سے انھوں نے ان اقتباسات کو منتخب کیا جوانسان کو بدلنے اور انھیں بہتر انسان بننے میں مدد دیں۔ ایسے سبق آموز واقعات جو انسانی کردار کو سنواریں، نکھاریں۔ یہ مختصر اور جامع اقتباسات اپنے اندر ہدایت اور رہنمائی کا سامان لیے ہوئے ہیں۔ اقتباسات جو حاصلِ مطالعہ رہے، اپنے اندر ایک جہانِ معنی لیے ہوئے ہیں۔ یہ تراشے علم و آگہی کی کرنیں ہیں کہ انتخاب کرنے والی شخصیت آسمانِ ادب پر مثلِ ماہتاب روشن و تاباں ہیں۔ ان کی ذہانت، نیک سیرتی، وسیع مطالعہ، ہم دردی اور دل سوزی ان کی تحریروں سے بخوبی جھلکتی ہے کہ تحریر شخصیت کا پر تو ہوتی ہے۔‘‘
مذکورہ تینوں کتابیں شعیب سنز پبلشرز اینڈ بک سیلرز کے زیرِ اہتمام نہایت خوب صورت گیٹ اَپ کے ساتھ شائع ہوئی ہیں۔ انھیں پشاور میں یونیورسٹی بک ایجنسی خیبر بازار، اسلام آباد میں سعید بک بینک جناح سپر مارکیٹ، لاہور میں المیزان پبلشرز اُردو بازار اور کراچی میں فضلی سنز بک سپر مارکیٹ اردو بازار سے طلب کیا جاسکتا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔