میری پرورش قبائلی ثقافت میں ہوئی، لیکن مجھے مختلف طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بہت قریب سے جاننے کو ملا اور سائنس، سائیکالوجی، فلسفہ اور سائیکو تھراپی کو پڑھنے اور سمجھنے کا موقع بھی ملا۔ میرے اب تک کے متنوع (Diverse) سفر نے مجھے اپنی ذات اور مختلف طبقوں کے رہن سہن اور جذبات کا اظہار کرنے کے متعلق کافی کچھ جاننے کا موقع دیا۔ حالاں کہ مجھے علم ہے کہ میراتجربہ ابھی کم ہے (ویسے بھی جاننے کا یہ سفر ہمیشہ جاری رہے گا) لیکن اسے شیئر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ شاید کسی کو میرے تجربہ کو جاننے کی ضرورت ہو اور اس کا بھلا ہو جائے۔ تجربہ بے شک میرا ذاتی ہے، لیکن جذبات صرف میرے نہیں، جذبات سب انسانوں میں ہوتے ہیں…… اور مَیں آج انھی جذبات اور احساسات پر بات کروں گی۔
ندا اسحاق کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/ishaq/
جذبات اور احساسات کو معمولی مت سمجھئے گا دوستو……! جذبات کے اظہار کرنے کا بہت گہرا تعلق امیری اور غریبی سے بھی ہے۔ مَیں نے ابھی تک کی زندگی میں امیروں (سب نہیں لیکن زیادہ تر) کو جذباتی طور پر بہت میچور اور مڈل کلاس/ غریبوں (سب نہیں بلکہ زیادہ تر) کو جذباتی لحاظ سے بہت کم زور اور ناپختہ پایا ہے (ضروری نہیں کہ میرا نظریہ درست ہو، مَیں غلط بھی ہوسکتی ہوں)۔ سارا کھیل جذبات اور احساسات کو سمجھنے، الفاظ دینے اور اس کا اظہار کرنے کا ہے۔
امیر بچوں کے اسکولوں میں بچوں کے جذبات اور احساسات کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ استاد، بچوں کے جذبات اور احساسات کا خیال کرتا ہے۔ امیر والدین بچوں کے ساتھ گفت گو(Communication) کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسے بچوں کے پاس نہ صرف ذخیرۂ الفاظ (Vocabulary) زیادہ ہوتا ہے، بلکہ وہ بہتر طور پر اپنی کیفیت کو سمجھ پاتے ہیں، انھیں الفاظ دے پاتے ہیں…… اور کئی کے پاس ان کا اظہار کرنے کی جگہ بھی موجود ہوتی ہے۔ جو امیر بچے ’’ٹروما‘‘ سے گزرتے ہیں، وہ آرٹ، میوزک، سائیکو تھراپی، ورک شاپس (Workshops)، کھیل کود، کمیونٹی کی شکل میں دوستوں کا اپنے جذبات کا اظہار کرنا وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ سب آپ کو بچپن کے ٹروما کو پراسس (Process) کرنے میں یا اپنے جذبات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں…… اور یہ سب بہت مہنگا ہے اور پاکستان جیسی معیشت اور غریب ملک میں ایک بڑی تعداد کے لیے مالی طور پر برداشت کرنا ممکن نہیں۔
چوں کہ ہمارے معاشرے اور ثقافت میں اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے کوئی جگہ (Space) نہیں ملتی۔ یہاں والدین بچوں کے جذبات کو اہمیت نہیں دیتے۔ مجھے اپنے امیر (کچھ ثقافتی اعتبار سے امیر تو کچھ مالی اعتبار سے) دوستوں کی نسبت اپنے جذبات کو الفاظ دینے میں کافی دقت ہوتی تھی۔ بھلا ہو کتابوں کا اور قسمت سے ملنے والے مواقع کا کہ خود کو تھوڑا بہت سمجھنے کا موقع ملا۔
آپ روز خود سے پوچھیں کہ آپ کیسا محسوس کررہے ہیں؟ اپنے ہم سفر سے اس کے احساسات کے متعلق پوچھیں، یا جو قریبی ہیں انھیں موقع دیں کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں آپ کے سامنے۔ اگر آپ استاد ہیں، والدین ہیں یا بچوں سے منسلک کسی بھی فیلڈ میں ہیں، میری آپ سے ایک ہی گزارش ہے کہ اپنے بچوں سے پڑھائی کے علاوہ روز یہ بھی پوچھیں کہ وہ آج کیسا محسوس کررہے ہیں؟ اگر وہ غصہ ہیں، بور ہیں، طیش میں ہیں، پُرمسرت ہیں، پُرجوش ہیں، انزائٹی میں ہیں یا خوف میں ہیں، انھیں موقع دیں اپنے جذبات کے اظہار کرنے کا…… الفاظ کے ذریعے، انھیں موقع دیں چیخنے چلانے کا، انھیں موقع دیں کھل کر ہنسنے یا زور زور سے رونے کا، جوش میں اُچھلنے اور کودنے کا۔
ہم انسان اور کچھ بھی نہیں بلکہ جذبات اور احساسات کا ملاپ ہیں۔ جذبات اور احساسات کو اہمیت دیں، انھیں نام دیں، انھیں محسوس کریں، ان سے بھاگیں نہیں، انھیں دبائیں نہیں، ان کا مناسب اظہار کرنا سیکھیں، کبھی گفت گو، تو کبھی پینٹنگ کے ذریعے ، یا پھر کبھی رنگوں کا سہارا لے کر، یا پھر مراقبہ (Meditation) کی مدد سے ان کا مشاہدہ کریں۔ انھیں معمولی نہ سمجھیں۔ جس نے جذبات کو سمجھ لیا، تو یوں سمجھیں کہ اس نے زندگی کی حقیقت کو سمجھ لیا۔ جس نے اپنے اندر کی دنیا کو سمجھ لیا، تو سمجھیں دنیا کو سمجھ لیا۔
ہم ایک ایسے دور میں رہ رہے ہیں جہاں انفارمیشن حاصل کرنا بہت آسان ہے۔ اس لیے اس انفارمیشن پر عمل کرکے اس کا فائدہ اٹھائیں۔
عموماً امیر لوگ (پڑھے لکھے طاقت ور) چوں کہ جذباتی طور پر میچور اور تجربہ کار ہوتے ہیں، تبھی وہ ان لوگوں کا فائدہ بہت آسانی سے اٹھاتے ہیں جو ذرا سی جھوٹی ہم دردی سے ایموشنل ہوجاتے ہوں، یا کوئی بڑا آدمی اچھے سے بات کرے، تو فوراً سے متاثر ہوجاتے ہوں، یا وہ لوگ جو اپنے تنگ نظر نظریات کے غلام ہوں، یا شدت پسند ہوں، تو ایسے لوگوں کا عموماً پڑھے لکھے اور جذباتی طور پر میچور لوگ بہت فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایموشنل انٹیلی جنس کا مطلب ہی یہی ہے کہ آپ جذبات کو سمجھ کر اس سے بالاتر ہوکر ان لوگوں کا اصلی چہرہ دیکھ سکیں، جو آپ کے جذبات کا فائدہ اٹھا کر اپنے مفادات کو حاصل کرتے ہیں (خواہ وہ آپ کے خونی رشتے ہوں، یا باہر کا کوئی فرد۔)
ایک بار پھر دہراتی چلوں کہ اپنے بچوں کے جذبات اور احساسات کو اہمیت دیں، ان سے بات کریں، ان کے جذبات کی تصدیق کریں، انھیں ’’ایموشنل انٹیلی جنس‘‘ سے نوازیں، تاکہ وہ جذبات کو حقیقت سے الگ کرنا سیکھیں۔ ہر بات پر انھیں درست نہ کریں، کوشش کریں کہ اخلاقیات والی سوچ کو جذبات سے دور رکھیں۔ فوراً سے ہر بات کا حل نہیں دیں۔ صرف سنیں۔ ایک تھراپسٹ یہی کرتا ہے۔
آپ سب ایک دوسرے سے تھراپسٹ بن سکتے ہیں…… لیکن اس کے لیے شرط جذباتی طور پر میچور ہونا ہے اور سننا ہے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔