عمران خان کی پے در پے غلطیاں اور قسمت کا ساتھ

لاہور ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کے 43 ایم این ایز کے استعفوں کی منظوری کا حکم معطل کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ریاض فتیانہ سمیت 43 ایم این ایز نے لاہور ہائی کورٹ میں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے ان کے استعفے منظور کیے جانے کے اقدام کو چیلنج کیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے معزز جج جناب جسٹس شاہد کریم نے سپیکر قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کے اقدام کو معطل کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ فیصلے میں الیکشن کمیشن کو ان ایم این ایز کے انتخابی حلقوں میں ’’فی الحال‘‘ ضمنی انتخابات کروانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما جناب اسد عمر نے اس فیصلے پر اپنا ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی بنیاد پر کیا گیا فیصلہ عدالت نے معطل کر دیا ہے۔
جب عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفے دینے کا فیصلہ کیا تھا، تو پی ٹی آئی کی سرکردہ لیڈر شپ نے اس فیصلے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں میدان کے اندر رہ کر جد و جہد کرنا چاہیے۔ کیوں کہ میدان سے باہر رہ کر ہم کھلاڑی کی بجائے محض تماشائی بن کر رہ جائیں گے، مگر عمران خان کا خیال تھا کہ حکومت اس طرح سے دباو میں آ جائے گی اور نئے انتخابات کی راہ ہم وار ہو جائے گی۔ ایک لحاظ سے عمران خان حق بجانب بھی تھے کہ اپنی حکومت کے آخری دنوں میں مہنگائی میں بے تحاشہ اضافے اور حکومت کی بری پرفارمنس کی وجہ سے وہ غیر مقبول ہونے کے بعد اپنی حکومت کھو کر سیاسی شہید بن چکے تھے۔ ان کے امریکہ مخالف بیانیے کو بڑی پذیرائی ملی تھی۔ وہ مخالفین کے لیے ایک بار پھر بڑا خطرہ بن چکے تھے۔
عمران خان نے اپنے دورِ اقتدار میں اپنے مخالفین کو خوب رگڑا لگایا ہوا تھا۔ تقریباً ساری اپوزیشن لیڈرشپ کو ہی جیلوں میں ڈال دیا تھا۔ اس لیے انھیں یہ خطرہ سامنے نظر آ رہا تھا کہ ان سمیت پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو بھی اب جیلوں میں جانا پڑسکتا ہے۔ لہٰذا جتنی جلدی ہوسکے انتخابات ہو جائیں اور پارٹی لیڈرشپ کو کسی امتحان سے نہ گزرنا پڑے۔
استعفے دینے کے بعد عمران خان نے ملک بھر میں جلسوں کی ایک سیریز شروع کر دی۔ انھوں نے ان جلسوں کے ذریعے عوام کو موبلائز کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اسی دوران میں پاکستان میں تاریخ کا بدترین سیلاب آگیا۔ عمران خان کو جلسے اور سیاسی سرگرمیاں منسوخ کرنے کا مشورہ دیا گیا، مگر انھوں نے کسی کی نہیں مانی۔ ان کا ایک ہی مطمحِ نظر تھا کہ قبل از وقت انتخابات ہوجائیں۔ ایسے میں راجہ ریاض سمیت پی ٹی آئی کے ایم این ایز کا ایک ناراض گروپ سامنے آگیا جس نے عمران خان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ راجہ ریاض کو اپوزیشن لیڈر بنا دیا گیا اور ان کے ’’تعاون‘‘ سے قومی اسمبلی میں مرضی کی قانون سازی شروع ہو گئی۔ چیئرمین نیب بھی لگ گیا۔ نئے آرمی چیف کا تقرر بھی ہوگیا۔ الیکشن کمیشن کے دو ارکان کے تقرر سمیت بہت سے فیصلے کیے گئے، یہاں تک کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان بن گئے۔
اس صورتِ حال میں عمران خان گراؤنڈ سے باہر بیٹھ کر محض کھیل ہی دیکھتے رہے۔ اس دوران میں متعدد بار حکومت کی جانب سے مستعفی ایم این ایز کو استعفے واپس لے کر اسمبلی کی کارروائی کا حصہ بننے کی پیشکش کی گئی، مگر وہ واپس نہ آئے۔ یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ مستعفی ہونے کے باوجود ان ایم این ایز اور پی ٹی آئی کے سابق وزرا نے سرکاری رہایش گاہیں خالی نہیں کیں۔ وہ بدستور سرکاری رہایش گاہوں اور سرکاری مراعات سے فائدہ اٹھاتے رہے اور حکومت بھی جان بوجھ کر ڈھیل دیتی رہی، تاکہ ان کے اس اقدام کو سیاسی طور پر کیش کرایا جا سکے۔ اس نے متعدد مواقع پر اسے کیش کرایا بھی۔
جب عمران خان نے دیکھا کہ ان کا یہ وار بے کار ثابت ہوا ہے، تو انھوں نے پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کی قربانی کا فیصلہ کر لیا۔ یہ بہت بڑا رسک تھا۔ وزیرِاعلا پنجاب پرویزالٰہی نے انھیں سمجھانے کی بہت کوشش کی، یہ تک کہا کہ جو پولیس اس وقت آپ کی حفاظت پر مامور ہے، اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد یہی آپ کو گرفتار کرلے گی…… مگر عمران خان نہ مانے۔ ان کا خیال تھا کہ دو صوبوں کی اسمبلیاں ٹوٹنا کوئی معمولی بحران نہیں ہوگا۔ حکومت گھٹنے ٹیک دے گی اور وہ قبل از وقت انتخابات لے لیں گے۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید ریٹائر ہوچکے تھے۔ اسٹیبلشمنٹ میں انھیں اپنا کوئی حمایتی نظر نہیں آ رہا تھا۔ عمران خان کو خطرہ تھا کہ اب ان کا میڈیا ٹرائل اس زور شور سے کیا جائے گا کہ ان کے یوٹیوبرز اور میڈیا سیل شاید اس کا مقابلہ نہ کر سکیں۔
عمران خان کو یہ بھی علم تھا کہ بہت سی ویڈیوز اور آڈیوز ایسی موجود ہیں جو ان کی شہرت کو داغ دار کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس، توشہ خانہ کیس اور ٹیریان وائٹ کیس ایسے ہیں جن میں سے ہر کیس میں انھیں نا اہل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ہیوی ویٹ وکلا کے ذریعے ان کیسوں کو جس قدر ہو سکے طول دے کر جلد انتخابات کی راہ ہم وار کی جائے اور برسرِ اقتدار آ کر ان کیسوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے، مگر حکومت ان کی توقع سے زیادہ مضبوط اعصاب کی مالک ثابت ہوئی۔ دو صوبوں کی اسمبلیاں ٹوٹنے کے جھٹکے سے نہ صرف وہ سنبھل گئی بلکہ اس نے پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو بھی سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔
’’رندا فیم‘‘ شہباز گِل تو پہلے ہی سبق ازبر کر چکے تھے، ان کے بعد فواد چوہدری کو ہلکی سی ڈوز دے کر ٹریلر دکھا دیا گیا۔ شیخ رشید صاحب روزانہ بیل کو مارنے کی دعوت دے دے کر للکارتے تھے، اب وہ بھی بھگت رہے ہیں…… اور اندر سے انتہائی خوف زدہ ہیں کہ اگر انھیں سندھ پولیس کے حوالے کر دیا گیا، تو کیا بنے گا؟ آصف زرداری ان پر بہت تپے ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا جس طرح وہ مذاق اُڑایا کرتے تھے، اب ان دنوں کو یاد کر کے اپنے آپ کو کوس رہے ہوں گے۔
پی ٹی آئی کی باقی لیڈر شپ بھی گرفتاری کے خوف میں مبتلا ہے۔ چوہدری پرویز الہٰی کے قلعے ’’کنجاہ ہاؤس‘‘ کو پولیس نے فتح کر لیا ہے، جب کہ پرویز الٰہی خود بھی گرفتاری کے خطرے سے دوچار ہیں۔ مونس الٰہی ہوا کا رُخ بھانپ کر سپین جا چکے ہیں۔ چوہدری پرویز الٰہی کے دستِ راست محمد خاں بھٹی مٹیاری سے سندھ پولیس کے ہتھے چڑھ چکے ہیں۔
ادھر صدرِ مملکت جناب عارف علوی نے بھی عمران خان کی خواہشات کو پورا نہ کرکے انھیں مایوس کر دیا ہے۔ عمران خان چاہتے تھے کہ صدر صاحب اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کو کہیں، مگر ان کی بات نہیں مانی گئی۔ اس کے بعد عمران خان نے صدرِ مملکت کو ایک خط لکھا کہ گورنر پنجاب اور گورنر کے پی کو الیکشن کی تاریخ دینے کو کہا جائے، مگر انھیں تاحال اس خط کا جواب ہی نہیں دیا گیا۔
دیکھا جائے، تو 25 مئی 2022ء کے ناکام لانگ مارچ کے بعد عمران خان کو قدم قدم پر ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کی ہر چال اُلٹی پڑی ہے اور وہ اس وقت زمان پارک میں تقریباً محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ اب پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سیکڑوں پولیس اہل کاروں کا پروٹوکول انھیں حاصل ہے، نہ ان صوبوں کے سرکاری وسائل ان کی دسترس میں رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے ورکرز مختلف حلقوں سے آ آ کر ان کی حفاظت کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ الیکشن لیتے لیتے وہ دست یاب پروٹوکول اور سہولیات سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ ایسے میں 43 ایم این ایز کے استعفوں کی معطلی یقینا عمران خان کے لیے ہوا کا ٹھنڈا جھونکا ہے۔ اگر یہ فیصلہ برقرار رہتا ہے، تو مرکز میں اپوزیشن لیڈر اُن کی مرضی کا ہوگا اور آیندہ نگران سیٹ اَپ کے انتخاب میں ان کی مرضی شامل ہو سکے گی۔
جہاں تک عمران خان کی گرفتاری کا تعلق ہے، تو اس کا امکان تو موجود ہے مگر وہ ابھی بہت دور ہے۔ فی الحال ان کی گرفتاری کی افواہیں اُڑا کر پی ٹی آئی ورکرز کی دوڑیں لگوائی جا رہی ہیں۔
میرے خیال میں ابھی پہلا فیز ان کی کردارکشی کا جاری ہے، اس کے بعد انھیں نااہل کروایا جائے گا اور گرفتاری اس کے بعد ہوگی۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے