پشاور بم دھماکا، افغان پالیسی کی ناکامی؟

دنیا بدل چکی ہے صاحب……!
نئے دور کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ فرضی منصوبوں اور خیالی باتوں سے ہمیشہ کے لیے کسی کو بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا۔ آج حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں، یہ سب کچھ یک دم تو نہیں ہوا…… راتوں رات سب کچھ نہیں بدلا۔
پشتون خون بہنے سے رُکا کب تھا……؟ پشتون قوم کو لگائے گئے زخم مندمل کب ہوئے تھے؟ اگرچہ بدامنی ایک علاقے اور قوم تک محدود وبا نہیں۔ پورے پاکستان نے یہ زخم سہے ہیں۔ پورا ملک چلتی پھرتی لاش بن چکا ہے، مگر پشتون سرزمین کی بات شدت کے ساتھ اس لیے محسوس کی جاتی ہے کہ یہاں شروع کیے گئے آگ اور خون کے کھیل سے ہر بار فائدہ کسی اور نے اٹھایا ہے۔
وہ افراد کون ہیں؟
وہ جو مذہب کے نام پر فساد کو جہاد کہتے تھے، یا وہ جو ’’تزویراتی گہرائی‘‘ کے نام پر افغانستان پر کنٹرول رکھنا چاہتے تھے، یا پھر وہ بین الاقوامی خفیہ ایجنسیز اور ممالک جو پاکستان میں بدامنی چاہتے تھے اور ہیں؟
ذکر شدہ تینوں میں سے جس نے جو بھی فائدہ اُٹھایا ہے، اس سے ہمارا کوئی سروکار نہیں مگر پشتون قوم کو صرف زخم ہی ملے ہیں۔ پشتون سرزمین پر صرف خون ہی خون گرا ہے۔ پشتونوں کا بے دریغ خون بہایا گیا ہے…… سکول میں بھی اور مسجد میں بھی۔ عام آدمی کا بھی، سرکاری اہل کار کا بھی، انسانوں کا بھی اور یہاں تک کہ جانوروں کا بھی۔
بدقسمتی تو یہ ہے کہ اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ وہ کسی نے کیا خوب طنز کیا ہے کہ پاکستان میں ایک دھماکے سے دوسرے دھماکے کے درمیانی وقفے کو ’’امن‘‘ کہتے ہیں۔
سانحۂ پشاور کو ہفتہ گزر گیا، تحقیقات جاری ہیں۔ 100 سے زائد لوگ پیوندِ خاک ہوچکے۔ پورا صوبہ خیبر پختونخوا سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ وفاقی حکومت اور ذمے دار اداروں کا اب تک کوئی واضح حکمتِ عملی سامنے نہیں آئی۔
اندرونی خامیوں کو دور کرنے کے لیے کسی کو بھی ان خامیوں اور کوتاہیوں کے لیے قصور وار نہیں ٹھہرایا گیا۔ کیا ایسا ہی چلے گا…… اور اگر ایسا چلتا رہا، تو کیا یہ آخری دھماکا ہوگا؟
اس طرح تو ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر بدامنی چلی، تو صرف ایک صوبے تک محدود رہے گی؟
وفاقی وزیرِ دفاع نے پشاور دھماکے کے فوراً بعد قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: ’’یہاں افغان مہاجرین رہتے ہیں۔ دہشت گرد، افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ ہم افغان حکومت سے بات کریں گے۔‘‘
اس سے اگلے ہی روز افغان وزیرِ خارجہ امیر متقی خان کا ایک بیان وائرل ہوا، جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان، افغانستان پر الزام لگانے سے پہلے معاملے کی باریک بینی سے تحقیقات کرے۔ کیوں کہ اگر افغانستان دہشت گردوں کا مرکز ہوتا، تو تاجکستان، ترکمانستان اور ایران سے افغانستان کے باقی پڑوسی ممالک میں بھی بدامنی ہونی چاہیے تھی…… لیکن اگر وہاں نہیں ہو رہی، تو پھر اس کا مطلب ہے کہ معاملہ پاکستان کے اندر ہی خراب ہے۔‘‘
میرے خیال میں افغان وزیرِ خارجہ کی باتوں میں وزن ہے۔ واقعی افغانستان کا پڑوسی ملک صرف پاکستان نہیں اور باقی ممالک میں بھی مہاجر ہی آباد ہیں۔ اس لیے پاکستانی اداروں کو یہ بات ماننے میں عار محسوس نہیں ہونی چاہیے کہ ان کی افغان پالیسی ہمیشہ کی طرح اب بھی ناکام ہی ہے۔
دوم یہ کہ افغان پالیسی ہمیشہ سے کنفیوژن کا شکار رہی ہے۔ مثلاً: پہلے بتایا جاتا تھا کہ افغانستان بطورِ ’’اسٹرٹیجک ڈیپٹھ‘‘ استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے غالباً بے نظیر بھٹو کی حکومت میں جلال آباد آپریشن بھی کیا گیا تھا، جس کو بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
پھر کچھ عرصے بعد ’’اچھے‘‘ اور ’’برے‘‘ طالبان کا بیانیہ اپنایا گیا۔ اگرچہ ہمارے جیسے سر پھرے لکھتے رہے کہ سانپ کے بچوں میں اچھے یا برے نہیں ہوا کرتے، ہر سنپولا اگر زندہ بچ جاتا ہے، تو سانپ ہی بن جایا کرتا ہے…… اور سانپ کی فطرت ہی کاٹنا ہے…… مگر اسلام آباد کے محفوظ گھروں میں بیٹھے کاغذوں پر منصوبوں بنانے والوں کے خیالات کچھ اور تھے۔
اس طرح ’’اچھے‘‘، ’’برے‘‘ کے بعد یہ کہانی گھڑ لی گئی کہ امریکہ نکل جائے، تو افغانستان اور پاکستان میں امن قائم ہوجائے گا۔ امریکہ نکل گیا، افغانستان میں بزورِ بازو سہی، امن تو قائم ہوگیا…… مگر پاکستان میں لولے لنگڑے ’’امن‘‘ کی مزید شامت آئی۔ اب کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ہماری ریاست اور حکومت کے پاس بہانوں کے سوا کچھ بھی نہیں؟
خیبر پختونخوا پولیس نے باوردی ہوکر اسلحہ ہاتھ میں لے کر ’’یہ جو نامعلوم ہیں، یہ ہمیں معلوم ہیں‘‘ کے نعرے لگائے۔ کیا یہ بھی غیرملکی سازش ہے؟
اب یہ پولیس جوانوں کا غصہ ہے یا دہشت گردی کے خلاف ریاستی پالیسی میں موجود گومگو سی کیفیت کے خلاف احتجاج……؟ جو بھی ہے، مگر اب بات مکمل طور پر واضح ہوچکی ہے کہ پشتون اپنی سرزمین پر مزید کھیل برداشت کرنے والے نہیں۔ ریاست کو ڈالروں اور حکومتی کارندوں کو عیاشی کی ضرورت ہے، تو کسی اور میدان کا انتخاب کرلیں۔ کیوں کہ پشتون سرزمین مزید خون جذب کرنے سے رہی۔ پشتو نوجوان ’’معلوم‘‘ اور ’’نامعلوم‘‘ افراد کی آنکھ مچولی مزید برادشت نہیں کرسکتے۔ پاکستان کی سالمیت کے لیے پُرامن خیبر پختونخوا لازم جز ہے۔
کاش، کوئی ’’صاحب‘‘ کو سمجھائے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے