کچھ دن قبل مَیں نے روزنامہ آزادی میں ایک خبر بریک کی تھی کہ جس کو ادارے نے احتیاطاً تجزیے کے طور پر شائع کیا تھا۔ اس خبر یا تجزیے کا بنیادی ’’کرکس‘‘ یہ تھا کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں گی…… اور اس پرنہ صرف تمام سیاسی قیادت بلکہ کچھ اہم اداروں اور اشخاص کے درمیان غیر علانیہ فیصلہ ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں خان صاحب کو فیس سیونگ کے لیے کچھ آفرز دی گئیں، مثلاً: سیاسی بیانات، قومی اسمبلی میں واپسی اور آئندہ لیڈر آف اپوزیشن اور چیئرمین پبلک اکاونٹ کمیٹی وغیرہ۔
خان صاحب کو یہ بھی یقین دلایا گیا تھا کہ حکومت ان کے خلاف کسی بھی انتظامی کارروائی سے دور رہے گی، یعنی ان پر اور ان کے ساتھیوں پرکسی قسم کے مقدمات سے نہ صرف گریز کیا جائے گا، بلکہ ان کو سیاسی ماحول کوگرمانے کے لیے بھی مواقع مہیا کیے جائیں گے اور حکومت کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرے گی۔ یہاں پی ڈی ایم نے بہت ہوشیاری سے اسمبلی کے اندر کسی تبدیلی خاص کر پنجاب اسمبلی میں کسی مہم جوئی بارے بات نہ کی۔ البتہ ممکنہ طور پر آصف زرداری نے گجرات کے چوہدروں کو یہ یقین دلا دیا تھا کہ پرویز الٰہی کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، لیکن اس تمام ارینجمنٹ کے بعد ن لیگ کی قیادت کو یہ سمجھ آئی کہ آئندہ چند ماہ ان کو بہرحال آئی ایم ایف کے آگے لیٹنا ہے اور مہنگائی اور بے روزگاری کا ایک بڑا طوفان آنا ہے۔ کیوں کہ پہلے مفتاح اسماعیل کے دور میں جو پٹرول اور بجلی کے حوالے سے ہوا، ان کا سیاسی خمیازہ ان کو بھگنا پڑا تھا۔
اوپر سے عمران خان نے سائفر کو بہت باریکی سے عوام میں اس طرح لہرا دیا تھا کہ پاکستان کا عام شہری عمران حکومت کا خاتمہ سائفر کو ہی سمجھنا شروع ہوگیا۔ اسی وجہ سے خیبر پختون خوا کہ جہاں پہلے مرحلہ کے بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن خاص کر جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمان گروپ نے تحریکِ انصاف کو دھو دیا تھا، وہاں دوسرے مرحلے میں تحریکِ انصاف چھاگئی۔
اسی طرح بلوچستان میں بھی جمعیت علمائے اسلام اور پاکستان پیپلز پارٹی جیت گئی، لیکن اب وہاں پھر تحریکِ انصاف مقبول ہوتی جا رہی ہے۔ آخری ضرب پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں لگی کہ جہاں حکومت نے بہت سوچ بچار کے بعد بہت ہی مخصوص حلقے چنے، جہاں حکومت کو یقین تھا کہ ن لیگ، تحریکِ انصاف کو وائٹ واش کردے گی، لیکن نتیجہ خلافِ توقع نکلا…… اور عمران خان خود امیدوار بن کر باآسانی جیت گئے۔
اس پیش رفت سے ن لیگ کے کان کھڑے ہوگئے اور انھوں نے جب اپنی جگہ جمع تفریق کی، تو معلوم ہوا کہ اس تمام سیاسی صورتِ حال میں تباہی تو صرف ان کی ہے۔ کیوں کہ اس معاشی صورتِ حال میں عمران خان 2018ء سے بھی زیادہ مقبول ہو رہا ہے۔
دوسرا پیپلز پارٹی سندھ میں نہ صرف مزید بہتر ہو رہی ہے بلکہ اب وہ بلوچستان پر بھی کافی ہاتھ صاف کرکے خیبر پختون خوا اور جنوبی پنجاب میں بھی پنجے گاڑھ رہی ہے۔ کیوں کہ یہ تو حقیقت ہے کہ آصف زرداری نے بہت چالاکی سے سپیکر شپ بھی لے لی اور آئندہ یوسف رضا گیلانی کی سینٹ کی چیئرمین شپ بھی پکی کرلی، جب کہ اپنے بیٹے کو وزیر خارجہ بنوا کر بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ سے ذاتی تعلقات بنانے کا سنہری موقع میسر کردیا…… جب کہ اطلاعات، داخلہ، قانون اور خاص کرخزانہ کا قلم دان ن لیگ کے حوالے کردیا۔ یعنی مخالفین پر الزامات ہوں، تومجرم اطلاعات یعنی ن لیگ ہو…… کوئی انتظامی کارروائی ہو، تو ذمے دار رانا نثاء اﷲ ہو۔ اسی طرح قانونی اور عدالتی پیچیدگی کے ذمے دار ن لیگی…… اورسب سے اہم بات، تمام مہنگائی کی گالیاں ن لیگ کو پڑیں۔ زرداری کا سیاسی حب سندھ پھیل کربلوچستان اور خیبر پختون خوا تک جب کہ ن لیگ کا سیاسی قلعہ پنجاب خطرے کا شکار ہوگیا۔
سو اس تمام صورتِ حال نے ن لیگ کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جب تک پنجاب کا انتظامی اختیار ان کے پاس نہ ہوگا، تب تک ہر گزرنے والے دن کے ساتھ کم از کم جو ان کی سیاست کا فیصلہ کن علاقہ ہے، یعنی شمالی پنجاب…… وہاں تحریکِ انصاف نقب لگاتی جائے گی اور اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلنا ہے کہ اس کے اتحادی خاص کر بڑے اتحادی یعنی پی پی پی اور جمعیت علمائے اسلام اگر کچھ زیادہ نہ بھی حاصل کریں، تو کم از کم کچھ کھونے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ سو وہ نہ صرف سیاسی مقبولیت کم سے کم کرتی جا رہی ہے بلکہ شاید آئندہ انتخابات کے نتائج کشمیر و گلگت بلستان والے ہوں، جہاں ن لیگ حزبِ اختلاف بھی نہیں ۔ اسی وجہ سے انھوں نے اندرونِ خانہ یہ کوشش کی کہ پنجاب میں رجیم چینج کر دیا جائے۔
باخبر لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے کہ حکومت کی شرط پر چوہدری شاید پی ڈی ایم کے ساتھ بھی ملنے واسطے تقریباً تیار تھے، لیکن ن لیگ بہر صورت پنجاب کو حمزہ شریف کے حوالے کرنے پر بضد تھی۔ یہی وجہ بنی کہ عمران خان نے باقاعدہ چوہدری پرویز کو اعتماد میں لے کر اسمبلیاں توڑ دیں، لیکن قومی اسمبلی اور دوسری دونوں اسمبلیاں ابھی تک قائم ہیں۔ ویسے بھی بطورِ آخری ہتھیار عمران خان نے جو پتا کھیلا، اس کے بعد کی پیش رفت عمران خان کو واضح اشارہ ہے کہ طاقت ور حلقے عمران خان کے اس فعل سے مطمئن نہیں۔ شاید انھوں نے حکومت کو پیغام دے دیا ہے کہ اب جیسا مناسب سمجھیں کریں۔ وہ دخل نہیں دیں گے ۔ اس وجہ سے اب شاید آنے والے دنوں میں تحریکِ انصاف پر مزید سیاسی و انتظامی دباو پڑے اور اس کو شاید اس کی سیاسی قیمت دینا پڑے۔ کیوں کہ اب تو حکومتی وزرا خاص کر ن لیگ والے نجی محافل میں بہت کھل کر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ اب کہاں الیکشن، اب تو شاید الیکشن اکتوبر 2023ء سے بھی آگے جائیں، بلکہ اس واسطے اپریل 2024ء کو کنفرم کر کے بتایا جا رہا ہے۔ اس کی آئینی و قانونی توجیحات گھڑی جا رہی ہیں۔ المختصر، یہ تمام روداد تھی دو اسمبلیوں کی تحلیل کی۔
اب میں آتا ہوں ان دوستوں کی طرف جو میرے تجزیے کو غلط ثابت کرکے خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ حالاں کہ اس میں خوشی کا کوئی پہلو بنتا نہیں۔ بہرحال چوں کہ تحریکِ انصاف کے کارکنان مجھے اپنا خواہ مخواہ مخالف سمجھتے ہیں، سو وہ زیادہ خوشی اور طنز کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے لیے عرض ہے کہ اول تو کسی بھی صحافتی یا سیاسی معیار پر میرا تجزیہ غلط ثابت نہ ہوا۔ کیوں کہ اب بھی 60 فی صد سے زائد اسمبلیاں تو موجود ہیں۔ صرف دو ہی ٹوٹ گئیں، باقی تو قائم ہیں۔ دوسرا، کسی بھی تجزیے یا خبر کا غلط ثابت ہوجانا نااہلی کا کوئی معیار نہیں۔ بڑے بڑے اعلا سیاسی تجزیہ نگاروں اور بہت بین الاقوامی شہرت رکھنے والے کالم نگاروں کے بے شمار تجزیے غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔
ایک بات ذہن میں رکھیں، تجزیہ کے دو بنیادی عوامل ہوتے ہیں۔ ظاہری صورتِ حال، اس مسئلے میں سیاسی صورتِ حال یہ تھی اور کوئی بھی باشعور شخص عمران خان سے یہ توقع نہیں کرتا تھا اور اب تو خود تحریکِ انصاف والے بھی پچھتا رہے ہیں کہ ان سے یہ ایک سنگین سیاسی غلطی ہوئی۔ دوسری وجہ ہوتی ہے آپ تک پہنچنے والی خبر۔ مَیں اپنی خبر پر اب بھی قائم ہوں کہ اعلا سطح پر جہاں تمام سیاسی قیادت، ریاستی قیادت اور کچھ خاص طاقت ور حلقے موجود تھے۔ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں گی اور آئندہ انتخابات آئین کے مطابق وقتِ مقررہ پر ہوجائیں گے۔ کیوں کہ مجھے یہ خبر کچھ ان مستند ترین حلقوں سے ملی تھی کہ جن کے براہِ راست رابطے ملک کی اعلا ترین سیاسی قیادت سے ہیں۔
جس وقت یہ تجزیہ روزنامہ آزادی میں بریک ہوا، تو مجھ سے کافی سیاسی و صحافتی لوگوں نے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ میرا سورس کیا تھا؟ جو کہ ظاہر ہے کسی صورت بتایا نہیں جاسکتا، لیکن بہرحال اس کے شائع ہونے کے چند دن بعد یہ اطلاع راولپنڈی اور اسلام آباد کے پریس کلبوں میں عام ہوچکی تھی اور تقریباً ہر ورکنگ صحافی اور سیاسی کارکن اس سے آگاہ ہوچکا تھا، بلکہ بڑے میڈیا گروپس کے نامور ٹی وی اینکروں نے اس پر پروگرام بھی کیے۔ المختصر، یہ خبر بالکل صحیح تھی اور سب طے تھا لیکن اول اس کو ن لیگ نے تکنیکی بنیادوں پر ختم کرنے کی کوشش کی اور پھر تحریکِ انصاف نے بہت واضح سیاسی طور پراس کو ختم کر دیا۔ عقل مند صرف یہ غور کریں کہ آج بھی چوہدری پرویز الٰہی کھل کراور تحریکِ انصاف کے بہت سے سمجھ دار سینئر راہنما دبے لفظوں میں بند کمروں میں اس عمل پر شدید تنقید کر رہے ہیں۔ ان کو پریشانی موجودہ سیاسی حکومت سے نہیں بلکہ ان کا مسئلہ ان حلقوں کی ناراضی اور غصہ ہے جو ممکنہ طورپر ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ دو صوبوں میں نگران حکومتیں ہوں۔ کشمیر اور گلگت بلستان میں تحریکِ انصاف کی حکومت، بلوچستان میں مخلوط حکومت، بس ایک سندھ میں اور وہ بھی سب سے زیادہ روادار اور برداشت رکھنے والی سیاسی قوت پی پی کی ہو، اور اسلام آباد میں ایک نہایت ہی لولی لنگڑی کم زور حکومت ہو، جو اَب عوام میں غیر مقبولیت کی معراج پر ہے، تو وہ تحریکِ انصاف کا کیا نقصان کرسکتی ہے۔ ہاں، اگرمقتدر حلقوں سے آپ وعدہ خلافی کریں گے اور ان کی غیر ضروری مخالفت کریں گے، تو پھر اس کی ایک سیاسی قیمت آپ کو بہرحال دینا ہوتی ہے۔ تحریکِ انصاف نے شاید اب یہ سیاسی قیمت دینا شروع کر دی ہے، بلکہ اس کی پہلی قسط عمران خان پر مقدمات خاص کر ’’ٹیرن خان‘‘ والا مقدمہ، پھر فواد چوہدری، شہر یار آفریدی۔ شاندانہ گلزار اور شیخ رشید وغیرہ پر مقدمات کی ایک سیریز شاید اسی کا شاخسانہ ہے۔
بہرحال آخر میں ہم اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ ہم اس تجزیہ یا خبر کو آج بھی قبول کرتے ہیں اور اس میں درج ایک ایک لفظ کی ذمہ داری لینے واسطے تیار ہیں۔ یہ خبر یا تجزیہ اپنی اصل میں پہلے غلط تھا اور نہ اب ہے۔ البتہ ایک فریق کی جانب سے خلاف ورزی کی گئی، سواب وہی بھگتے۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔