’’شمالی پاکستان حقوق تحریک‘‘ میں بالائی خبیر پختون خوا اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔ چوں کہ خیبر پختون خوا اور گلگت بلتستان کی سیاسی اور موجودہ آئینی حیثیت مختلف ہے، اس لیے یہاں صرف خیبر پختون خوا کے حوالے سے اس صوبے کی صوبائی اسمبلی کے لیے شمالی پاکستان حقوق تحریک کے لیے ایک مختصر روڈ میپ دیا جاتا ہے۔ گلگت بلتستان کے لیے وہاں کی سیاسی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی طرح کا لائحہ عمل وہاں کے دوست سامنے لا سکتے ہیں۔ اس روڈ میپ سے پہلے ان علاقوں کی صوبائی نشستوں، یہاں کے وسائل اور مسائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ آیندہ انتخابات میں ان علاقوں کی صوبائی اسمبلی کی سیٹیں درجہ ذیل ہیں:
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
٭ صوبائی سیٹ نمبر 1 ضلع بالائی چترال (PK- 1Upper Chitral)
٭ صوبائی سیٹ نمبر 2 لوئر چترال (PK- 2Lower Chitral)
٭ صوبائی سیٹ نمبر پی کے 3 ضلع سوات 1 (PK- 3Swat-1)
٭ صوبائی سیٹ نمبر پی کے 10 ضلع بالائی دیر 1 (PK-1 0Upper Dir-1)
٭ صوبائی سیٹ نمبر28 ضلع اپر کوہستان(PK-2 8Upper Kohistan)
٭ صوبائی سیٹ نمبر 29 ضلع لوئر کوہستان (Pk-2 9Lower Kohistan)
٭ صوبائی سیٹ نمبر 30 ضلع کوہلئی پالس کوہستان(PK-3 0Kohlai-Palas Kohistan)
خیبر پختون خوا میں مذکورہ صوبائی نشستوں کے ان علاقوں کی بڑی خصوصیات:
1:۔ قدرتی حسن اور وسائل جیسے پانی، جنگلات اور معدنیات سے مالامال۔
2:۔ اس صوبے اور پاکستان کی سیاحت میں مرکزی حیثیت۔
3:۔ پن بجلی کی پیدوار کے بڑے ذرائع۔
4:۔ قدیم ثقافتوں کے امین۔
5:۔ لسانی اور کلتوری تنوع کے گل دستے۔
ان علاقوں اور یہاں بستی اقوام کے بڑے بڑے مسائل:
1:۔ ہمیشہ سے سیاسی طور پر نظرانداز۔
2:۔ ان کی سیاسی حیثیت صرف ووٹ کی حد تک۔
3:۔ یہاں سے کسی بھی نمائندے کو صوبے میں کوئی اہم وزارت کبھی نہیں دی گئی۔
4:۔ صدیوں کے حربی، سیاسی اور معاشی تسلط کے شکار رہے ہیں۔
5:۔ ان کے وسائل کو استعمال کیا جاتا ہے، تاہم ان کو ان وسائل سے کچھ نہیں دیا جاتا۔ مثال کے طور پر پن بجلی اور جنگلات میں مخصوص حصہ نہیں دیا جاتا۔
6:۔ تعلیمی و صحت کی سہولیات کے حوالے سے پورے ملک میں پس ماندہ ہیں۔
7:۔ سڑکیں، راستے اور مواصلات کے دوسرے ذرائع کا یہاں فقدان ہے۔
8:۔ بڑے بڑے سیاسی و تجارتی اور عسکری مگرمچھ یہاں کی زمینوں کو سستے داموں ہتھیا لیتے ہیں۔
9:۔ سیاحت کی صنعت میں مقامی لوگوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔
10:۔ صوبے میں ان علاقوں کی زبانوں کو نمائندگی نہیں دی جاتی۔
11:۔ یہاں کی ثقافتوں کو فروغ نہیں دیا جاتا اور ان کے بارے میں غلط تاثرات روا رکھے جاتے ہیں۔
12:۔ صوبے کی تعلیم میں ان علاقوں کی زبانوں کو نصاب میں شامل نہیں کیا جاتا اور نہ یہاں کی ثقافتوں کو نمائندگی ہی دی جاتی ہے۔
13:۔ ان علاقوں کی اپنی شناخت کو مٹا دیا جاتا ہے اور شناخت کے حوالے سے کوئی موثر آواز یہاں سے نہیں اٹھتی۔
14:۔ ان علاقوں کے لوگوں کو بھی صوبے کی بڑی آبادی کے ساتھ نتھی کرکے ان کی اپنی شناخت کو دبایا جاتا ہے۔
15:۔ یہاں کے لوگوں میں عمومی طور پر اپنی ثقافتوں، زبانوں اور تاریخ کے بارے میں ہمہ گیر آگاہی موجود نہیں۔
16:۔ ان علاقوں کے لکھاریوں، ادیبوں، شعرا اور دیگر فن کاروں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ان کی کوئی خاطر مدارت نہیں کی جاتی۔
17:۔ یہاں کے مستقبل یعنی بچوں اور نوجوانوں کو تعلیم کے شعبے میں پیچھے رکھا جاتا ہے۔
18:۔ کئی تعلیمی اور انتظامی شعبوں میں ان علاقوں کے لوگوں سے تعصب برتا جاتا ہے۔
19:۔ سرکاری محکموں اور شعبوں میں ان علاقوں کی زبانوں کو زبان نہیں بلکہ لہجے یا بولیاں کہہ کر کم تر گردانا جاتا ہے۔
20:۔ سرکاری محکموں اور اداروں میں ان علاقوں کے بارے میں علم کم تر ہی نہیں بلکہ متعصب اور توہین آمیز بھی ہے۔
21:۔ ان علاقوں کی مختلف جگہوں کے مقامی ناموں کو مٹا کر صوبے کی بڑی زبان یا پاکستان کی قومی زبان میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
22:۔ یہاں کی زمینیں کم اور کم زرعی ہیں۔ لہٰذا یہاں خوراک کی قلت ہمیشہ سے رہتی ہے۔
23:۔ ان لوگوں کو زمینوں کی تقسیم پر اب بھی لڑایا جاتا ہے۔
24:۔ یہاں کے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی جاتی ہے اور یہاں سے ٹمبر کی سمگلنگ پورے ملک کو کی جاتی ہے۔
25:۔ مقامی لوگوں کو جنگلات کے محکمے، پن بجلی کے منصوبوں، یہاں کے تعلیمی اداروں میں اور دیگر شعبوں میں بھرتی نہیں کیا جاتا۔
26:۔ آفات سے متاثر ہونے کی صورت میں ان علاقوں میں بحالی اور آفات سے روک تھام کا کوئی موثر کام نہیں کیا جاتا۔
27:۔ سیاحت کے شعبوں میں یہاں کے نوجوانوں کی بجائے باہر سے لوگوں کو یہاں لگایا جاتا ہے۔
28:۔ ان علاقوں کی تجارتی مارکیٹس اور سیاحت سے جڑی تجارت سے باہر کے لوگ منسلک ہیں۔
29:۔ غربت کی وجہ سے ان علاقوں سے 30 تا 80 فی صد لوگ ہجرت کرجاتے ہیں اور کرگئے ہیں۔
30:۔ صوبے اور مرکز میں ان علاقوں کی موثر نمائندگی نہیں ہوتی۔
اس سال (2023ء میں) پاکستان میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ اس لیے ابھی سے ان علاقوں کی مذکورہ نشستوں پر انتخاب سے پہلے ہمیں ان وسائل اور صدیوں سے جاری ان مسائل پر نظر رکھ کر ایسے نمائندوں کا چناو کرنا ہے جو آگے جاکر اس منشور پر کام کرسکیں۔
٭ لائحہ عمل:۔ ان علاقوں کی یہ براہِ راست نشستیں 07 بنتی ہیں۔ 2 یا 3 ان کے ساتھ مخصوص نشستیں آسکتی ہیں۔ اس طرح یہ کل تعداد 10 تک پہنچ سکتی ہے۔ یہاں سے منتخب نمائندوں کو شمالی پاکستان حقوق تحریک یا اتحاد کا پارلیمانی گروپ بنانا ہے اور مل کر ان مسائل پر ڈٹ جانا ہے۔ وہ صوبے میں وزیرِ اعلا اور سپیکر کے انتخاب میں اس تحریک/ اتحاد کے فلیٹ فارم سے حصہ لیں۔ اگر ان میں ہمت ہوئی، تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنا وزیرِاعلا بھی لاسکتے ہیں۔ اسی طرح وہ سینٹ کے الیکشن میں اس اتحاد کو آگے کرسکتے ہیں۔
مزید براں صوبائی اسمبلی میں متحد ہوکر ان علاقوں کے وسائل، مسائل اور ملکی ترقیاتی تقسیم کے حوالے سے قانون سازی کرسکتے ہیں۔
ان علاقوں کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ ان مسائل کو اجاگر کریں اور اپنے لیے ایسے نمائندے منتخب کریں جو ان نام نہاد سیاسی پارٹیوں سے بالا ہوکر اس تحریک اور اتحاد کے تحت کام کرسکیں۔
اس ملک میں ہمیں اب سب سیاسی جماعتوں کا خوب پتا چل چکا ہے۔ سب کی رسیاں کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی ہیں اور یہ لوگ محض اقتدار کا مزا لینے اور پیسے بنانے کے لیے آتے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں میں کسی کے پاس بھی کوئی عوامی ایجنڈا نہیں اور ہمارے ان علاقوں کے بارے میں تو یہ ساری سیاسی جماعتیں ایک ہی صفحے پر ہیں جہاں لکھا ہے کہ ان علاقوں کے لوگ جاہل اور پس ماندہ ہیں۔ لہٰذا یہاں سے جو نمائندہ آتا ہے، اس کو بہت کم پر راضی کیا جاسکتا اور اس کے ووٹ کو آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم روایتی سیاست سے باہر نکل جائیں اور اپنے لیے نئی تحاریک اور اتحادیں بنائیں۔ یہ نمائندے اپنی سیاسی پارٹیوں میں بھی رہ سکتے ہیں، تاہم ان علاقوں کی نسبت اور یہاں کے ووٹوں کی وجہ سے ان کو اسی طرح متحد ہونے کی ضرورت ہے۔
شمالی پاکستان کی اس پارلیمانی تحریک میں صوبہ خیبر پختون خوا کے دیگر علاقوں مثلاً دیر، شانگلہ، بونیر، تورغر اور سوات کے دیگر علاقوں کے نمائندے بھی شامل کیے جاسکتے ہیں، بشرط یہ کہ وہ ان مسائل اور وسائل کا احساس کرسکے۔