عوام کا پُرسانِ حال کوئی نہیں

کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
وزیرِ اعلا پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے بالآخر پنجاب اسمبلی کے ایم پی ایز سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا اور اس طرح گذشتہ ایک ماہ سے جاری پنجاب میں ہیجانی صورتِ حال کا خاتمہ ہوگیا۔ اس سے قطعِ نظر کہ چوہدری پرویز الٰہی نے غیر متوقع طور پر اتنی بڑی کامیابی کیسے حاصل کی اور اچانک وہ کون سی غیبی طاقت تھی جس نے مدد کرکے انھیں سرخ رُو کیا۔ بہرحال چوہدری پرویز الٰہی کامیاب ہوگئے ہیں۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ پسِ پردہ بہت سے حقائق ہیں۔ مسلم لیگ ن زبانی کلامی بیان بازی سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ ممکن ہے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اعتماد کے ووٹ کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کرلیا جائے، مگر یہ محض دکھاوا ہی ہوگا۔ اس تاریخی فتح کو ہم عمران خان یا چوہدری پرویز الٰہی کی فتح بھی نہیں کَہ سکتے کہ اگر ایسا ہوتا، تو اعتماد کا ووٹ لینے کے ساتھ ہی پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں الٹی چھری کے ساتھ ذبح ہو چکی ہوتیں، مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب اس کام کے لیے ’’مناسب وقت‘‘ کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جائے گا۔
دیکھا جائے، تو ہمارے ہاں سیاست میں اس قدر غلاظت شامل ہوچکی ہے کہ اس غلاظت نے سیاست کے چہرے کو مکروہ بنا کے رکھ دیا ہے۔ سیاست دان ایک دوسرے کو گالیاں بھی دیتے ہیں، طعنے بھی دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے کپڑے بیچ بازار اُتار کر ایک دوسرے کو گندا بھی کرتے ہیں۔ گذشتہ ایک دہائی سے سیاست نے اپنا چلن اور روپ بدلا ہے۔ نجابت اور شرافت کی جگہ گالم گلوچ اور ’’اوئے توئے‘‘ کے کلچر کو فروغ ملا ہے۔ عوام کے لیے یہ بالکل نئی چیز تھی۔ پہلے پہل تو عوام نے اس سے تفریح حاصل کی، مگر سوشل اور الیکٹرانک میڈیا نے اس کلچر کو مسلسل پروموٹ کر کے نہ صرف قابلِ قبول بنا دیا بلکہ شرافت کی سیاست کا جنازہ پڑھا کر اسے دفن کر دیا۔
بے روزگاری اور مہنگائی سے ستائی عوام کو ایک مشغلہ ہاتھ لگا اور انھوں نے اپنے مسائل سے توجہ ہٹا کر سیاست دانوں کی کٹھ پتلی بننے پر اکتفا کرلیا کہ چلو مخالف سیاست دانوں کو گالم گلوچ کر کے کتھارسس تو ہو جاتا ہے۔
گذشتہ ایک مہینے سے پنجاب کی سیاسی چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرکے ایک دوسرے کو سیاست دانوں نے خوب ننگا کیا اور بالآخر سبھی ایک پیج پر اکٹھے ہوگئے۔ یہی سیاست کا ’’حسن‘‘ ہے کہ ایک دوسرے کو چور ڈاکو اور اخلاق باختہ ثابت کرنے کے بعد بھی اسے گود میں بٹھالیا جاتا ہے اور عوام بے وقوفوں کی طرح اس یو ٹرن کے فضائل بیان کرنے لگ جاتے ہیں۔
سیاست دان اپنا کھیل کھیلنے کے بعد یک مشت ہوگئے ہیں، مگر گذشتہ ایک ماہ کے دوران میں عوام پر جو گزری ہے، اس کا حساب کون دے گا؟ ہمارا ملک جس کے متعلق دعوا کیا جاتا ہے کہ یہ ایک زرعی ملک ہے۔ یہ تو گندم میں بھی خود کفیل نہیں۔ 70 فی صد آبادی کسی نہ کسی طور زراعت سے وابستہ ہے، مگر ہم اتنی گندم بھی نہیں اُگاسکتے کہ ملکی ضروریات پوری کرسکیں۔ آٹا لینے والوں کی لمبی لمبی قطاریں ہماری زراعت کا منھ چڑاتی رہیں۔ سبزیوں کی آسمان پر پہنچی ہوئی قیمتیں ہماری زرعی ترقی کا پول کھولتی رہی ہیں۔ پیاز تک ڈھائی سو روپے کلو میں فروخت ہو کر ڈالر ریٹ کے مقابلے پر اُتر آیا ہے۔ برائلر کا ریٹ چھے سو روپے تک جا پہنچا۔ لوگ آٹے کے حصول میں قِطاروں میں لگ کر مرتے رہے، با پردہ خواتین جو کبھی گھر سے نہ نکلی تھیں قِطاروں میں لگی رہیں، گر کر بے ہوش ہوتی رہیں اور سیاست دان اقتدار کی رسہ کشی کے کھیل میں عوام کی بے بسی سے لاتعلق اور بے پروا ہو کر بے حسی کی عملی تفسیر بنے رہے۔
دیکھا جائے، تو اس وقت کوئی ایک سیاسی پارٹی بھی ایسی نہیں جو اقتدار سے باہر ہو۔ تمام پارٹیاں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو کر ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں اور ساتھ ساتھ سرکاری پروٹوکول کے مزے لینے بھی لے رہی ہیں۔ عوام کے ٹیکسوں سے عیاشی کی جا رہی ہے اور عوام ہی کو ذلیل و خوار و رسوا کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کے دور میں عوام کو سکون ملا اور نہ موجودہ حکومت ہی اب تک عوام کے زخموں پر مرہم رکھ سکی ہے، بلکہ دیکھا جائے تو عمران خان کی حکومت نے عوام سے قوتِ خرید چھین کر مہنگائی کے جو نشتر لگائے تھے موجودہ حکومت نے ان زخموں پر خوب نمک پاشی کر کے جمہوریت کے حسن کو دوبالا کر دیا ہے۔
جمہوریت کے اس سنہرے دور میں آٹے کا فی کلو سرکاری ریٹ پچاس روپے کے قریب ہے جب کہ یہی آٹا عوام کو ایک سو ساٹھ روپے کلو میں مشکل سے دست یاب ہے۔ یہ بھی جمہوریت کا حسن ہے، ورنہ ایسا بھی ہوا ہے کہ آمر پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں آٹے کی سرکاری قیمت 17 روپے کلو تھی۔ دکان دار نے ساڑھے سترہ روپے کلو میں فروخت کیا، تو اس پر اسی وقت دس ہزار روپے جرمانہ ہو گیا اور جس فلور مل (چکی) سے دکان دار نے آٹا لیا تھا، اسے ایک لاکھ روپے جرمانہ کرکے ایک ہفتے کے لیے سیل کر دیا گیا۔ یہ جنرل ایوب خان کی آمریت کا دور نہیں کہ کسی کو مقررہ قیمت سے زاید وصول کرنے کی جرات ہی نہ تھی۔
صاحب! یہ حسین جمہوری دور ہے جہاں سیاست دان کروڑوں اور اربوں کی دیہاڑیاں لگا رہے ہیں اور ہر روز عوام پر مہنگائی کا نیا بم گرا رہے ہیں۔ یہ کوئی ضیاء الحق کا دور نہیں کہ ان کے گیارہ سالہ آمریت کے دور میں روٹی کی قیمت پچاس پیسے فی روٹی پر مستحکم رہی تھی۔ جناب، یہ عوام کی حکومتیں ہی ہیں جو عوام کے لہو کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتی ہیں۔ یہ وہ نرالا جمہوری دور اور انوکھی جمہوریت ہے کہ جس میں جمہور کو کھانے سے جمہویت مضبوط ہوتی ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے