کل کسی ملک کے بارے میں پڑھا کہ وہاں خوشی کو بطورِ نصاب سکولوں میں رائج کیا گیا ہے۔
ہمارے ہاں قومی غیرت، قومی حمیت اور اس طرح کی بے معنی چیزوں کو نصاب میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ قومی غیرت نچلی سطح پر جاکر اپنوں سے پنگا لینا ہوتا ہے۔ اس سے آگے پڑوس میں پنگا لینے کو ’’غیرت‘‘ کہا جاتا ہے اور تھوڑا آگے جاکر قبیلے کی اور گاؤں کی سطح پر پنگا لینے کو جسے عموماً توروالی میں ’’پختو‘‘ کہا جاتا ہے…… ’’قومی غیرت‘‘ کہا جاتا ہے۔ یوں ہمیں بچپن سے ایک ہمہ گیر اور متواتر تصادم میں مبتلا کیا جاتا ہے۔
زبیر توروالی کی دیگر تحاریر کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/zubair-torwali/
کسی سے درگزر کریں یا کسی کو نظر انداز کریں یا پھر گاؤں کی عمومی زندگی سے الگ طرز کی زندگی یا سوچ اپنائیں، تو گھر میں چھوٹے بھی کہیں گے ’’پختو سی وطن تُھو ایس کیئل کودُو!‘‘
جب پڑوس میں، گاؤں میں اور قبیلے میں کسی سے پنگا نہیں لے سکتے، تو 100 فٹ ٹارگٹ ایک مبہوم مغرب ہوتا ہے، جس سے ہمہ وقت نظریاتی اور تزویراتی تصادم ہماری غیرت بن جاتا ہے۔ خیر، مغرب کا کیا بگاڑ سکتے ہیں…… تاہم اپنی خوشی کا جنازہ نکال لیتے ہیں۔
دوسری جانب آپ ذرا بھی الگ سوچنے کی جرات کریں، تو طرح طرح کی باتیں بنائی جاتی ہیں۔ طرح طرح کی سازشی تھیوریاں گھڑی جاتی ہیں۔ آپ کو اس قدر جج کیا جاتا ہے کہ آپ اگر بہت زیادہ دلیر بھی ہوں، تو ذہنی صحت (مینٹل ہیلتھ) کے مسائل درپیش رہتے ہیں۔ چوں کہ سب ذہنی بیمار ہوتے ہیں، اس لیے سب کچھ نارمل بھی لگتا ہے۔
اسی تعلیم، اسی تصادم اور اسی طاقت کی کشمکش کی وجہ سے جو اعلا یعنی اشرافیہ میں بھی پائی جاتی ہے، یہ ملک ہمیشہ ’’نازک موڑ‘‘ پہ ہی رہتا ہے…… یعنی ملک کی یہ کھٹارا گاڑی کہیں سفر نہیں کرتی…… بلکہ روزِاوّل سے اسی نازک موڑ پر کھڑی رہتی ہے۔ یہ نہ تو کھائی میں گرتی ہے اور نہ آگے ہی چلتی ہے۔
اسی کھٹارا گاڑی کو ٹھیک کرنے کے لیے مستری بدل جاتے ہیں۔ ہر مستری پہلے سے زیادہ گھٹیا ہوتا ہے…… جو گاڑی کو اس ’’نازک موڑ‘‘ سے نکالنے کی کوشش میں گاڑی کے پرزے بھی کھا جاتا ہے ۔
مجھے نہیں یاد کہ اس ملک میں کبھی مہنگائی نہ رہی ہو۔ ہر نیا حکومتی دور پچھلے سے بدتر اور مہنگا آتا ہے۔ ایسے میں ’’مینٹل ہیلتھ‘‘ کے مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں۔ ان ذہنی بیماریوں کو پھر ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اگلی نسلوں کو منتقل کرتے ہیں۔ کیوں کہ اگر گھر میں اس مہنگائی اور غربت کی وجہ سے چپقلش رہتی ہے اور پڑوس اور گاؤں میں ہم ’’پختو‘‘ کرتے ہی ہیں، اس لئے ہمارا مستقبل یعنی بچے بھی براہِ راست اسی سے متاثر ہوتے ہیں۔
پہلے کوئی آس ہوتی تھی کہ لوگوں میں مزاحمت کا کوئی مادہ موجود تھا۔ اب وہ مزاحمت بھی ختم ہوگئی ہے۔ لوگ موبائل اور اس سے جڑے گیموں کی وجہ سے اس قدر سست ہوگئے ہیں کہ کوئی مزاحمت ہی نہیں کرتا۔
لوگ کریں بھی تو کیا……! کیوں کہ ان کے سامنے کوئی متبادل ہے ہی نہیں۔ جو بھی آیا ہے، وہ پہلے سے زیادہ بدتر ثابت ہوا ہے۔ لوگ بے زار ہوچکے ہیں۔ اس بے زاری کی بنیادی وجہ ہمارے اصل حکم ران بھی ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے یہاں کسی حقیقی اور اسی مٹی کے لیڈر کو پنپنے نہ دیا۔ خود کسی کو چنا اور اُس کو تراش خراش کر آگے کیا۔ ان کے پاس ہر قسم کا ہتھیار ہوتا ہے۔ حرام کاری میں یہ حلقے پوری دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ کوئی اگر کسی کا پیر یا پیرنی ہو، تو اس پیر یا پیرنی کے اوپر اپنا ایک ایجنٹ ’’مہا پیر‘‘ بناکر بٹھا سکتے ہیں، مولوی کو خوب استعمال کرسکتے ہیں، صحافت تو ان کے گھر کی لونڈی ہے اور عدلیہ تو ان کی جوتی کی نوک پر ہوتی ہے، پارلیمنٹ بھی وہ خود بناتے ہیں…… اور پھر اس کو چلاتے بھی فون کالز سے ہیں۔
ایسے میں ذہنی دباو بڑھ رہا ہے اور ہم ذہنی بیمار بن جاتے ہیں، جس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے…… اور جس پر کئی لوگ چل نکلتے ہیں…… مگر کیا کریں، یہ راستہ بھی جاکر انھی راہ داریوں سے مل جاتا ہے!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔