سفرنامہ ’’روبی کے دیس میں‘‘ (تبصرہ)

وادیِ نیلم حسن کی جاگیر ہے۔ خوب صورتی کی اخیر ہے۔
وادیِ نیلم کے ٹکڑے کو دنیا میں جنت کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کو آزادی سے قبل ’’دراوہ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ جب کہ دریائے کشن گنگا بھی 1956ء کے بعد ہی ’’نیلم ‘‘کہلایا تھا۔ ’’روبی‘‘ نیلم کا انگریزی نام ہے۔
خالد حسین کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/khalid/
’’روبی کے دیس میں‘‘ کتاب میرے سامنے پڑی ہے۔ مَیں نے اسے پڑھا ہے۔ کیا خوب صورت کتاب تخلیق کی ہے ڈاکٹر اقبال ہما صاحب نے۔ کمال ہی کر دیا ہے۔ یہ ہر لحاظ سے جامع اور مکمل کتاب ہے۔ اس میں لہجے کی حلاوت و شیرینی بھی ہے اور خیالات کی رنگینی بھی۔ بر محل اشعار کے نگینے بھی ہیں اور روانگی و سلاست کے سفینے بھی۔ حسِ مزاح کا تڑکا بھی ہے اور عشقِ مجازی کا دھڑکا بھی۔ مدھر ملن کے گیت بھی ہیں اور پہاڑی پگڈنڈیوں سے پریت بھی۔ تاریخ کے حوالے بھی ہیں اور معلومات کے مدھو شالے بھی۔ لاڈو رانی (گاڑی) کی شرارتیں بھی ہیں اور ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہم سفروں کی جسارتیں بھی۔ لفظوں کی بنت کے جال بھی ہیں اور سفری قصے کا جاہ و جمال بھی۔
’’روبی کے دیس میں‘‘ ڈاکٹر محمد اقبال ہما صاحب کی یہ کل ملا کر آٹھویں کتاب ہے، جو اس وادیِ بے نظیر کا سفرنامہ ہے۔ وادی تو واقعی بہت خوب صورت ہے، کیوں کہ مَیں بھی دو تین دفعہ اس جنتِ ارضی کا دیدار پُرانوار کرچکا ہوں۔
’’تھامس فلر‘‘ نے کیا خوب کہا تھا کہ "The foolish wanders and the wise man travel”
ہما صاحب واقعی ’’ٹریول‘‘ کرتے ہیں۔ ان کا گھومنے پھرنے اور دیکھنے کا زاویۂ نگاہ بالکل منفرد، سب سے الگ، ایک وکھری قسم کا اور سب سے جدا ہے۔ اور پھر اس جنت نگر کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان ہو کر ایسے ایسے ڈونگرے برساتے ہیں کہ اس کی خوب صورتی و حسن کا حق ادا کر دیتے ہیں۔ وہ اس سفر نامے میں خود فرماتے ہیں کہ ’’حسن کو مبالغے میں ملبوس کرکے پرستش کرنا ہی فطری رویہ ہے۔‘‘
اڑنگ کیل کا علاقہ اس وادی کا سب سے دل کش و دل نشیں علاقہ ہے…… جس کی خوب صورتی کا لفظوں میں احاطہ کرنا شاید کسی میرے جیسے عام لکھاری کے بس کی بات نہیں، مگر ہما صاحب نے کمال مہارت سے اسے اپنے لفظوں کی بنت میں سمو کر ایسی تصویر کشی کی ہے کہ جس کا کوئی ثانی نہیں۔
’’ہماری خوش قسمتی تھی کہ آج موسم بالکل صاف تھا۔ ریشمی فرش، ارزقی عرش، چمپئی نقش، مہکی ہوائیں، بھیگی فضائیں، کالی گھٹائیں۔ایک محدود فطرت کدے میں ایسے تمام عناصر سمٹ کر یکجا ہوگئے تھے، جن کا دیدار فطرت پرست مذہب کی بنیاد بن سکتا تھا۔ دنیا کی بہت سی اقوام آج بھی اس مذہب پر عمل پیرا ہیں، اڑنگ کیل بلا مبالغہ فطرت پرستوں کا قبلہ قرار دیا جا سکتا ہے ۔‘‘
اور پھر اس وادی میں جہاں جہاں انھوں نے قدم رنجہ فرمایا…… اس پورے علاقے کی تفصیل کے ساتھ ساتھ اس کی وجۂ تسمیہ، تاریخی اہمیت اور تاریخی پس منظر کا بھی احاطہ کیا ہے۔
مثلاً: اسلام آباد کی آب پارہ مارکیٹ میں کھانا کھانے گئے، تو اس مارکیٹ کی وجۂ تخلیق اور وجۂ تسمیہ بیان کی۔
کہوڑی گاوں کی تاریخی اہمیت اور اس کا تاریخی پس منظر، شاردہ، مدھومتی، سرسوتی دیوی، سرسوتی جھیل اور مدہومتی نالے کا آپسی رشتہ…… شاردہ یونیورسٹی، نیلم میکرون شاہراہ، کیل، اڑنگ کیل اور تاؤ بٹ کی تاریخی اہمیت…… ان سب کی وجۂ تسمیہ۔ پھر شاونٹھر جھیل اور چٹھہ کٹھا کی وجۂ تسمیہ اور ہندو مت میں ان کی اہمیت ،دل موہ لینے والے اندازِ بیاں میں ان کی ٹریکنگ اور سفر کی دلچسپ و دلنشیں داستاں کا احوال…… ان کے خیال میں چٹا کٹھہ جھیل کا ماٹو
دل لائیے نا عشق گل پائیے نا
نظارہ لئیے دور دور دا
ہے۔ اور وہ اپنی سندرتا، کوملتا، لافانی حسن، مست و بے خود اور دل کش و دل نشیں اداؤں سے دور دور سے ترسانے والی نیلم کی ہیر ہے۔ جب کہ شاؤنٹھر جھیل کی ہیر دور دور سے نہیں ترساتی بلکہ اپنے رانجھے سے مل کر اس کا ’’رانجھا راضی‘‘ بھی کیا کرتی ہے ۔
وہ اپنے قاری کی انگلی پکڑ کر اس کو اس طرح سے اپنے ساتھ لے کر چلتے ہیں کہ وہ ان کی سفری داستان میں غرق ہو کر مست و الست چلتا جاتا ہے۔ مجال ہے جو ایک لمحے کے لیے اِدھر اُدھر منھ پھیر کر دیکھے بھی۔
سفر تو ہم بھی کرتے ہیں۔ سفری قصہ تو ہم بھی لکھتے ہیں…… مگر ہما صاحب کی بات ہی کچھ اور ہے۔ ان کا اندازِ تخاطب، الفاظ کا برمحل اور موزوں انتخاب، ہیر پھیر اور ہر ہر لفظ کو ایک ماہر کاریگر کی طرح اس کی اصل جگہ پر فٹ کرنا تو کوئی ان سے سیکھے۔
ہما صاحب اپنے قاری کو ایک لمحے کے لیے بھی بوریت کا احساس نہیں ہونے دیتے…… اور یہی ان کی تحریر کا خاصا ہے۔
قارئین! یہ سفرنامہ (روبی کے دیس میں) پڑھ کر ہمیں پتا چلا کہ وہ ہم سے بھی پہلے ہماری لاڈو رانی( جیپ) کے اسیر ہو کر اس کی شرارتوں اور نخروں سے تنگ آ چکے ہیں۔ لاڈو رانی جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، ہماری لاڈلی ہے اور وہ بہت نخرے والی بھی ہے۔ اس کا ایک ایک نخرہ ہی خالی سوا سوا لاکھ کا ہے۔
’’سونی دے نخرے سونے لگدے‘‘
چوں کہ مَیں نے بھی ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب کی سربراہی میں وادیِ کمراٹ کا سفر کیا تھا…… اور پھر اس سفر کو لفظوں کا جامہ پہنا کر ’’وادیِ کمراٹ اور باڈگوئی پاس‘‘کے نام سے چھپوایا بھی تھا۔ لہٰذا میں بھی لاڈو رانی کو خوب جانتا ہوں۔ میرے سارے سفرنامے میں اس کے نخروں کی دھوم ہے۔
ڈاکٹر اقبال ہما صاحب کے ہم سفروں ڈاکٹر شاہد اقبال صاحب اور ان کے لختِ جگر علی شاہد، منیب بدر، طاہر محمود آصف صاحب اور عمران حیدر تھہیم کے آپسی ڈائیلاگ سارے سفر نامے میں جان ڈال دیتے ہیں۔ مَیں ’’عشاقانِ پربتاں‘‘ سے کہوں گا کہ وہ اس سفرنامے کو ایک بار ضرور پڑھیں۔ کم از کم اس وادی کا سفر کرنے سے پہلے تو اسے لازمی پڑھ لیں۔ آپ کے سفر کا مزہ دوبالا ہو جائے گا۔
فیر نہ کینا کہ دسیا ای نئیں!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے