’’میری بڑی خواہش ہے کہ برطانیہ میں ریٹائرمنٹ کو پہنچنے کے بعد واپس پاکستان جاکر اپنے گاؤں میں رہوں اور پُرسکون زندگی گزاروں۔‘‘
مَیں اپنے کرم فرما کی یہ بات سن کر مسکرادیا۔ وہ میری مسکراہٹ کو طنز سمجھ کر کچھ بے زار سے ہوگئے اور کہنے لگے، ’’مَیں گذشتہ 35 سال سے برطانیہ میں مقیم ہوں، اچھی ملازمت کرتا ہوں۔ یہاں مجھے ہر طرح کی سہولت اور آسایش میسر ہے، لیکن پھر بھی میں پُرسکون زندگی سے محروم ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ مَیں اپنے آبائی گاؤں میں جا کر رہوں گا، تو مجھے سکون میسر آ جائے گا۔‘‘
مجھے ان خیالات نے پھر سے مسکرانے پر مجبور کر دیا۔ میری مسکراہٹ کو نظر انداز کر کے وہ کہنے لگے کہ مغربی معاشرے میں ہر طرح کی سہولت تو ہے، لیکن سکون اور اطمینان نہیں۔ مجھے خاموش اور پُرسکون دیکھ کر انھوں نے استفسار کیا کہ لگتا ہے آپ میری بات سے متفق نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ ریٹائرمنٹ سے پہلے چند ہفتے اپنے گاؤں میں جا کر رہیں، اگر آپ کو وہاں ایک عام آدمی کے طور پر چند ہفتے کے دوران میں سکون اور اطمینان میسر آ جائے، تو پھر واپسی پر آپ سے اس موضوع پر گفت گو ہوسکتی ہے۔
کئی برس بعد جب میری اُن صاحب سے دوبارہ ملاقات ہوئی، تو وہ مجھے بہت کچھ بتانے کے لیے بے تاب تھے۔ مَیں اُن سے آخری ملاقات میں سکون کی تلاش والے مکالمے کو بھول چکا تھا۔ انھوں نے مجھے یاد دلاتے ہوئے بتایا کہ مَیں گذشتہ سال لندن میں اپنی ملازمت سے ریٹائر ہوا، تو واپس پاکستان جا کر اپنے آبائی گاؤں میں آباد ہونے کے لیے تگ ودو شروع کر دی، لیکن چند مہینے میں ہی میرا رہا سہا سکون اور اطمینان بھی غارت ہوگیا۔ ہر ملنے والا اس بات کی ٹوہ میں رہتا تھا کہ میں کتنا مال کما کر واپسی آیا ہوں؟ ہر کوئی حیلے بہانوں سے میرا انٹرویو کرتا کہ مَیں اکیلا واپس پاکستان کیوں آیا ہوں یا میری فیملی انگلینڈ میں کیوں رہ رہی ہے؟ مجھے اپنے گاؤں میں 4 مہینے گزارنے کے بعد احساس ہوا کہ بجلی، گیس، صاف پانی کی بروقت دست یابی، علاج معالجے کی سہولت اور روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی کے بغیر سکون اور اطمینان حاصل نہیں ہوسکتا۔ یا شاید برطانیہ میں اتنی طویل مدت تک رہنے کے بعد میں ہر طرح کی سہولت کی آسانی سے دست یابی کا عادی ہو گیا تھا۔ اپنی اس کرم فرما کی بات سن کر میں پھر سے مسکرا دیا، تو وہ بھی میرے ساتھ مسکرانے لگے۔ مَیں نے انھیں مشورہ دیا کہ اگر آپ واقعی گاؤں کی زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں، تو لندن کو چھوڑ کر کسی مضافاتی گاؤں (کنٹری سائیڈ) میں جا کر آباد ہوں، جہاں آپ کو شہر کی تمام تر سہولتوں کے علاوہ سکون اور اطمینان بھی میسر آ جائے گا۔
یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ برطانیہ سمیت بیشتر ترقی یافتہ ملکوں میں مقامی لوگ شہروں کو چھوڑ کر گاؤں اور ساحلی بستیوں کی طرف نقلِ مکانی کرتے ہیں جب کہ پاکستان سمیت بیشتر ترقی پذیر ممالک میں دیہات سے شہروں کی طرف نقلِ مکانی کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پورے یونائیٹڈ کنگڈم اور خاص طور پر لندن میں امیگرنٹس کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ کے دیگر بڑے شہروں مانچسٹر، گلاسگو، بریڈ فورڈ اور برمنگھم وغیرہ میں بھی مقامی لوگ مضافاتی علاقوں کی طرف نقلِ مکانی کر رہے ہیں اور ان کی جگہ یورپی اور ایشیائی امیگرنٹس ان بڑے شہروں میں آباد ہو رہے ہیں۔
گوروں کی بڑی تعداد ریٹائرمنٹ کے بعد ساحلی علاقوں اور گاؤں میں رہنے کو ترجیح دیتی ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ شہروں کی گہماگہمی سے دور پُرسکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ایک تو کنٹری سائیڈ کی آبادی بہت کم ہوتی ہے اور پراپرٹیز کی قیمتیں شہروں کی نسبت بہت کم ہیں، جب کہ سہولتوں کے اعتبار سے برطانیہ کا کوئی گاؤں یا دیہات یہاں کے کسی شہر سے کم تر نہیں۔ برطانوی دیہات کے مکینوں کو ضرورت کی ہر وہ چیز میسر ہے جو اس ملک کے شہروں میں رہنے والوں کو دست یاب ہے۔ اسی لیے اہلِ مغرب آج کی جدید دنیا کو گلوبل سٹی کی بجائے گلوبل ولیج کہتے ہیں۔ شاید ترقی یافتہ ملکوں کا خیال ہے کہ دنیا بھر میں ہر گاؤں یا ہر ولیج ان کے اپنے معاشروں کی طرح ہر طرح کی جدید سہولتوں سے آراستہ ہے۔
گذشتہ نصف صدی کے دوران میں دنیا کے 195 ملکوں میں شہری آبادی میں 40 فی صد اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک میں سب سے زیادہ ہوا ہے، جس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ بیشتر پس ماندہ ملکوں نے اپنی دیہی آبادی کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اس لیے لوگ ملازمتوں اور سہولتوں کی تلاش میں شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ اس وقت کراچی اور لاہور شہر کی جتنی آبادی ہے، اس سے کئی گنا کم آبادی پر مشتمل یورپ کے کئی ممالک دنیا کے جدید ترین اور ترقی یافتہ ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ مثلاً مناکو کی کل آبادی تقریباً 39 ہزار افراد پر مشتمل ہے، جب کہ پورے سوئٹزرلینڈ کی آبادی تقریباً 86 لاکھ ہے اور یہ دونوں ممالک دنیا میں خوشحال اور جدید ترین ممالک کی فہرست میں بہت اوپر نظر آتے ہیں۔
اس حقیقت کی نشان دہی پہلے بھی کئی بار کر چکا ہوں کہ آج کی دنیا میں صرف وہی ملک خوش حال اور ترقی یافتہ ہیں جن کے وسایل زیادہ اور آبادی کم ہے۔ اگر ہم پاکستان کے حالات اور مسایل کا باریک بینی سے تجزیہ کریں، تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ جب تک پاکستان میں پاپولیشن پلاننگ یا آبادی پر کنٹرول کرنے کے لیے ٹھوس اور موثر حکمت عملی نہیں اپنائی جائے گی، اس وقت تک ہم مصیبتوں، مشکلوں اور مسایل سے نجات نہیں پاسکتے۔ کیوں کہ ہر آنے والے دن میں ہماری آبادی میں تشویش ناک اضافہ اور وسایل میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوگی اور اسی عدم توازن کے نتیجے میں اسلامی جمہوریۂ پاکستان جرایم، مہنگائی، بے روزگاری، انتہاپسندی اور افراتفری کے بوجھ تلے دبتا چلا جا رہا ہے۔ ہمیں صرف قرض اور امداد لینے کے لیے ہی ترقی یافتہ ممالک کی طرف نہیں دیکھناچاہیے، بلکہ ان کی اس حکمت عملی کو بھی دیکھنا اور اسے اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے جس کے ذریعے سے انھوں نے بدحالی سے خوش حالی کی طرف سفر کیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ کافر ملکوں میں انصاف، مساوات اور قانون کی بالادستی ہے، سہولتوں کی فراوانی ہے، ہر طرح کی ضروریات زندگی کی دست یابی ہے اور امن و امان قایم ہے؟ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے شہر ہوں یا گاؤں، امن و سکون اور بنیادی سہولتوں سے محروم کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ یہ ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کے گاؤں کسی حد تک پُرسکون اور امن و امان کا گہوارہ ہوا کرتے تھے، لیکن غلط ترجیحات اور گڈگورننس نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے گاؤں بھی اپنے قدرتی حسن اور روایتی سادگی سے محروم ہوگئے ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں جب مَیں نے پہلی بار غلام ثقلین نقوی کا ناول ’’میرا گاؤں‘‘ پڑھا تھا، تو اُس کے بعد سے مجھے گاؤں اچھے لگنے لگے۔ مَیں نے پاکستان کے کئی گاؤں دیکھے اور ان کا سیر سپاٹا کیا۔ برطانیہ آنے کے بعد مجھے دنیا کے درجنوں ممالک میں جانے اور وہاں کے گاؤں دیکھنے کا موقع ملا۔ ہر گاؤں فطری حسن، پُرسکون ماحول اور بنیادی ضروریاتِ زندگی سے مزین تھا اور وہاں کے لوگوں میں بھی ایک خاص طرح کی اپنائیت اور خلوص تھا۔ ماحول کے فرق کی وجہ سے شہر اور گاؤں کے مکینوں کے رویے میں بھی نمایاں تفریق محسوس کی جا سکتی ہے۔
اگر ہم غور کریں تو انسانوں کی اکثریت اسی لیے محنت کرتی اور مال ودولت کماتی ہے کہ سکون اور اطمینان سے زندگی گزار سکے۔ آسایشوں کا حصول بھی سکون اور اطمینان کے لیے ہوتا ہے۔ اسی لیے آج بھی دنیا کی اکثریتی آبادی دیہات اور گاؤں میں رہتی ہے۔ گذشتہ دنوں ایک سروے کے بعد یونان کے ایک چھوٹے کی گاؤں اویا (OIA)کو دنیا کا سب سے پُرکشش اور شان دار گاؤں قرار دیا گیا۔ ساڑھے سات مربع میل رقبے کے اس گاؤں کی آبادی تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ یہ گاؤں چوں کہ ایک جزیرے پر واقع ہے، اس لیے ہر سال ہزاروں سیاح اور نوبیاہتا جوڑے ہنی مون منانے کے لیے اس پُرسکون گاؤں کا رُخ کرتے ہیں۔
پاکستان میں بھی اکثریتی آبادی گاؤں میں رہتی ہے اور ہمارا ملک بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، لیکن بدقسمتی سے کسی بھی دور میں ہمارے ملک کے دیہات اور زرعی نظام کی بہتری کے لیے کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ ایک وقت تھا جب دیہات کے لوگ کہتے تھے کہ ہر جانب ہریالی ہے…… میرا گاؤں مثالی ہے۔ اور بدقسمتی سے ہم نے پی آئی اے سے لے کر ٹیکسٹائل انڈسٹری تک کسی بھی شعبے کو اپنے ملک میں مثالی نہیں رہنے دیا۔ معلوم نہیں کس نے ہمارے معاشرے کا امن اور عوام کا سکون اور قرار چھین لیا ہے، کھیتوں کھلیانوں کو خشک سالی یا پھر سیلابوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے؟ شہری زندگی کی گہما گہمی اور افراتفری کے اثرات سے ہمارے گاؤں اور دیہات بھی محفوظ نہیں رہے۔ خود آسایش اور سہولتوں سے بھرپور زندگی گزارنے والے ہمارے حکم ران، سیاست دان اور مولوی حضرات عوام کو برملایہ کہتے ہیں کہ اصل سکون تو قبر میں جا کر ہی ملتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں مصیبتوں کے مارے مسلمان عوام اب تو یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔