ملکی قوانین کو کس طرح طاقت ور حلقے اور اہلِ اقتدار اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں؟ پاکستان کی آئینی اور قانونی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
یہ وسیع موضوع پھر سہی، سرِ دست یہاں جنگلات کی کٹائی اور اس سے سمگلنگ کے ’’قانونی راستوں‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔
جنگلات کے وزرا، افسرشاہی اور اہل کار ان جنگلاتی علاقوں جیسے کالام فارسٹ ڈویژن یعنی تحصیل بحرین کے جنگلات سے دیار کے درختوں کی کٹائی کے لیے مقامی طور پر گاؤں کی سطح پر ایسے لوگوں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ جنگلات کاٹیں۔ پھر ان افراد کے خلاف بے نامی پرچے کٹے جاتے ہیں۔ اس ٹمبر کو ضبط کیا جاتا ہے…… اور مذکورہ افسروں اور وزیروں کے گماشتے اس ٹمبر کو ضلع کے مرکزی آکشن/ نیلامی والی جگہوں پر سے کم قیمت نیلامی کے بعد خرید لیتے ہیں۔ یوں یہ ٹمبر ان کے لیے ’’قانونی‘‘ بن جاتا ہے اور وہ پھر اس کو مارکیٹ میں اچھی قیمت پر فروخت کرکے خوب پیسے کماتے ہیں۔
دوسرا اہم اور زیادہ مضر طریقہ 2017ء میں ’’ووڈلاٹس رولز‘‘ (Woodlots Rules 2017) کے تحت خیبرپختون خوا میں اپنایا گیا ہے۔ ان قوانین کی رو سے دیار، چیڑ اور ان جیسے دوسرے کونیفرس (Coniferous) درختوں کو جو کسی جنگل، گزارہ جنگل کا حصہ نہ ہو اور جن کو کسی ورکنگ پلان کے اندر نہیں لایا گیا ہو، کو مقامی مالک یا مالکان بیچ سکتے ہیں…… یعنی کسی کے ہنڈی، شاملات یا کھیت میں ایسے درخت ہوں، تو وہ ان کو پرائیویٹ افراد کو بیچ سکتا ہے۔ اب اس پالیسی کے پیچھے کیا خیال تھا، معلوم نہیں…… لیکن بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ اس وقت کے کئی جان کار اور طاقت ور افراد کی ایسے درختوں پر نظر پڑی اور انھوں نے جھٹ سے ایسا قانون بنوالیا۔ اس کی رو سے کوئی بھی فرد یا گروہ اپنی زمینوں سے ایسے درختوں کو بیچ سکتا ہے اور خریدنے والا اس لکڑی کو کاٹ کو مارکیٹ میں کہیں بھی بیچ سکتا ہے۔
اس قانون کے تحت اب ہوکیا رہا ہے؟ صوبے میں ٹمبر مافیا سرگرم ہوچکا ہے۔ وہ ٹھیکے دار بن گئے ہیں اور اپنے لیے مقامی طور پر کئی افراد کو دلال کے طور پر رکھا ہے جو کچھ کمیشن کی خاطر ان کے لیے ایسی خریداری کرتے ہیں۔ یہ لوگ مالکان سے ایسے درختوں کو خریدتے ہیں اور ان کی پیمایش زیادہ لکھتے ہیں۔ یہ لوگ پھر ان درختوں کو تو کاٹتے ہیں ہی بلکہ اس قانونی لکڑی کے کھاتے میں جنگلات سے دیگر درخت کاٹ کر اس میں شامل کیا جاتا ہے…… اور یوں ان کو بڑے قانونی طریقے سے ٹرکوں اور دوسری گاڑیوں میں نیچے لے جایا جاتا ہے۔
اس پورے گیم میں محکمۂ جنگلات کے اعلا اور نچلی سطح کے اہل کارشامل ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی آفیسر ایسی حرکتوں پر نظر رکھنے کی کوشش کرتا ہے، تو اُس کی شامت آجاتی ہے۔ مقامی طور پر ان سمگلروں کے دلال اور چھوٹے چھوٹے سمگلر احتجاج شروع کردیتے ہیں۔
جب کسی شے کا محافظ ہی اُس شے کے لیے خطرہ بن جائے، تو کیا کیا جاسکتا ہے! توروالی میں کہاوت ہے ’’پیِش سی ماڑ وا ماس لھمؤ‘‘ (بلی کے گلے میں گوشت لٹکانا)۔ بالکل اسی کہاوت کے مصداق ہمارے ملک میں کئی رکھوالے اُسی شے کے خاتمے کا سبب بن جاتے ہیں جن کی ذمے داری دراصل اُس شے کا تحفظ ہو۔ یہ ’’ووڈلاٹ‘‘ والی پالیسی بھی بس بلیوں کے گلے میں گوشت لٹکانا ہے!
جو افراد ’’ووڈ لاٹ پالیسی‘‘ کے تحت اپنے درخت بیچتے ہیں، ان کو چوکس رہنا چاہے کہ کہیں ٹھیکیدار صاحب اس میں باقی جنگل کو بھی شامل نہ کرے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
