ویسے انسانی تاریخ اور خصوصاً سیاسی تاریخ مختلف کرداروں، شخصیات اور ان کی جد و جہد اور کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ ہزاروں لاکھوں افراد نے اپنے آزادی برقرار رکھنے یا کھوئی ہوئی آزادی اور سیاسی و معاشی حقوق حاصل کرنے کے لیے جانی و مالی قربانیاں پیش کی ہیں، لیکن ان میں سے چند کرداروں کو تاریخ ہیرو اور مشعلِ راہ کے رتبہ پر فایز کرتی ہے۔
برصغیر کی آزادی کی طویل اور صبر آزما تحریک نے بھی اس قسم کے چند کردار پیدا کیے ہیں، جنھوں نے اس تحریک میں قایدانہ کردار ادا کیا۔ تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ آزادی کے بعد ان کے ہم عصر ہم سفروں کو ہندوستان میں ریاستی طور پر قومی ہیروز بنایا گیا، لیکن پاکستان میں وہ لوگ غدار ٹھہرے اور آگ کا دریا پار کرنے کے بعد ان کو ایک اور آگ کے دریا کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی سیاست کی وجہ سے ان کی مشکلات، تکالیف اور قید و بند میں کمی کی بجائے اور اضافہ ہواا ور آخری سانس تک اس کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔ ان کرداروں میں ایک ’’خان عبدالصمد خان اچکزئی‘‘ ہیں جو اَب ’’خان شہید‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔
طالع مند خان کی دیگر تحاریر کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/taliman/
خان شہید 7 جولائی 1907ء کو کوئٹہ سے 70 کلومیٹر دور قلعہ عبداللہ خان کے علاقہ گلستان میں گاؤں عنایت اللہ کاریز میں پیدا ہوئے۔ مذکورہ تینوں علاقے ان کے اجداد کے نام سے منسوب ہیں۔
خان شہید نے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز سکول کے زمانے، جب آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے، سے شروع کیا۔ جلوس نکالنے کی پاداش میں سکول سے نکالے گئے۔ اس کے بعد ان کی پوری زندگی سیاست کی وجہ سے ’’ریل‘‘ یا ’’جیل‘‘ میں گزری۔
جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا کہ ہندوستان کی تحریکِ آزادی نے مایہ ناز ہیروز کو پیدا کیا ہے، اور ہر ایک کا کردار اور جد و جہد قابلِ فخر ہے…… لیکن جس خطے میں خان شہید پیدا ہوئے تھے اور جہاں انھوں نے سیاسی جد و جہد کا آغاز کیا تھا، اگر اس کے جغرافیائی، معروضی سیاسی، سماجی، تعلیمی و معاشی حالات کو مدنظر رکھا جائے، تو کئی عوامل ہیں جو خان شہید کو دوسروں سے ممتاز بناتے ہیں۔
وہ خطہ جہاں خان شہید نے جنم لیا، وہ برطانوی استعمار کی سلطنت کا حساس سرحدی علاقہ تھا، جو انگریز کے لیے بہت اہمیت کا حامل تھا۔ اس علاقے پر سامراج کا ’’ایف سی آر‘‘ جیسا غیر انسانی کالا قانون نافذ تھا۔ اس کے علاوہ برطانوی جاسوسی کا وسیع، مربوط اور برق رفتار جال اور نظام موجود تھا۔ سیاسی تو درکنار وہ بنیادی انسانی حقوق جو برطانوی ہندوستان کے دوسرے خطوں کو حاصل تھے، اس علاقے میں اس کا تصور بھی نہیں تھا۔ پورے علاقے میں ایک مڈل سکول تھا۔ ہر طرف قبائیلیت اور پس ماندگی کا دور دورہ تھا۔ اگر ایک طرف ’’مہاتما گاندھی‘‘ یونیورسٹی آف بمبئی اور یونیورسٹی کالج لندن سے فارغ التحصیل تھے، تو دوسری طرف ’’باچا خان‘‘ ایڈورڈز میشن سکول اور علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علم رہے…… لیکن خان شہید نے رسمی تعلیم آبائی علاقے میں مڈل تک حاصل کی اور باقی غیر رسمی طورپر زیادہ تر جیل کے مختلف ادوار میں۔ اس زماں و مکاں میں سیاسی ہونا، آزادی کی تحریک کا حصہ بننا اور چلانا، مقامی سیاسی جماعتوں کی بنیاد رکھنا بذاتِ خود ایک عجوبہ اور معجزہ تھا…… لیکن خان شہید نے نہ صرف یہ کارنامہ انجام دیا بلکہ کوئٹہ سے ’’استقلال‘‘ کے نام سے اپنی ادارت میں بلوچستان کے اولین شمار ہونے والے اخبار کا اجرا بھی کیا۔ ان کی 66 سالہ زندگی کا تقریباً آدھا حصہ جیلوں میں گزرا تھا اور باقی سیاسی مصافتوں، مصروفیتوں اور تحریر و تقریر میں گزرا۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ خان شہید کے بچوں کو اپنے والد کے ساتھ ملاقات اور سیر حاصل گفت گو کا موقع صرف جیل میں ملتا تھا۔ خان شہید کو بچوں کا بچپن دیکھنا نصیب ہوا، لڑکپن اور نہ جوانی۔
باچا خان کا نظریۂ وفاقیت:
https://lafzuna.com/history/s-30024/
پاکستان بننے کا ابھی سال پورا نہیں ہوا تھا کہ 1948ء میں گرفتار ہوئے اور جب پانچ سال بعد رہا ہوئے، تو گھر داخل ہونے پر ننھے محمود خان اچکزئی دوڑ کر اپنی ماں کے پاس گئے کہ ہمارے گھر میں کوئی غیر شخص آگیا۔ اُس وقت مشر محمود خان اچکزئی کی عمر پانچ سال تھی۔
جب جنرل ایوب نے مارشل لا لگایا، تو سب سے پہلے خان شہید کو گرفتار کیا۔ بعد میں باقی سیاسی قیدی ان کے دورِ حکومت میں رہا ہوئے، لیکن خان شہید کو رہائی تب نصیب ہوئی جب جنرل یحییٰ نے دوسرا مارشل لا لگا کر عنانِ اقتدار سنبھالی۔
پاکستان بننے کے بعد خان شہید بھی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کا حصہ بنے لیکن 1970ء میں ون یونٹ کے خاتمے کے وقت سابقہ برٹش بلوچستان جو زیادہ تر پختون علاقوں پر مشتمل تھا، قلات، مکران اور لسبیلہ اور دیگر قبائلی علاقہ جات کو یک جا کرکے صوبہ بلوچستان بنایا گیا، خان شہید نے اس بنیاد پر نئے صوبے کے خلاف شدید احتجاج کیا کہ مجوزہ صوبہ کی تقریباً آدھی آبادی پشتونوں پر مشتمل ہے اور اس کو بلوچ صوبے کا حصہ بنانا ان کے تشخص کو مٹانے، ثقافتی، سیاسی اور معاشی حقوق پر کمپرومائز کرنے کے مترادف ہے…… لیکن نیپ کی لیڈر شپ نے اسے درخورِ اعتنا نہ سمجھا اور آخرِکار خان شہید نے نیپ سے اپنی راہیں جدا کرکے ’’پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یاد رہے کہ پاکستان بننے سے پہلے انھوں نے ’’انجمن وطن‘‘ اور بعد میں ’’ورور پشتون‘‘ کے نام سے سیاسی جماعتیں بنائی تھیں۔ خان شہید کے اس عمل سے سپر طاقتوں سے لے کر پڑوسیوں اور پاکستان تک ہر اسٹیبلشمنٹ نا خوش تھی۔ کیوں کہ ہر ایک کے اپنے اپنے خدشات ، اہداف اور خواہشات تھیں، جس کی راہ میں وہ اس چھوٹی سی پارٹی کو رخنہ سمجھتے تھے۔حالاں کہ چند سال بعد نیپ کے خاتمے پر اس میں شامل تمام قومیتوں اور رہنماؤں نے اپنی اپنی قوم پرست جماعتیں بنائیں اور اُس راستے پر چل پڑے جس پر سفر کا آغاز خان شہید نے کیاتھا۔
خان شہید نے پاکستان بننے کے بعد پشتون نیشنل ازم کے خط و خال واضح کرکے پشتونوں کا مقدمہ واضح انداز میں پیش کیا۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انگریز کے جانے کے بعد اُن کے مذموم مقاصد کے لیے سیاسی بنیادوں پر پشتونوں کی جغرافیائی اور انتظامی تقسیم کو ختم کرکے ان کی ایک وحدت بناکر ان کے سیاسی، معاشی اور ثقافتی مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ اس موقف پر زمین تو کیا گویا آسمان بھی خان شہید کا مخالف ہوگیا۔ ہر چھوٹی بڑی سیاسی طاقت، اسٹیبلیشمنٹ سے لے کر نیپ تک سب ان کی مخالفت کرنے لگے۔ آخرِکار 2 دسمبر 1973ء کو نا معلوم افراد نے ان کی کوئٹہ کی رہایش گاہ میں روشن دان کے ذریعے ہینڈ گرینیڈ پھینک کر ان کو شہید کیا۔ تاہم، کھڑے پانی میں پتھر پھینکا گیا تھا، تیر کمان سے نکل چکا تھا اور مدہم ہی سہی لیکن روشنی نے اندھیروں کا سینہ چاک کرلیا تھا۔ راستہ پُرپیچ اور سفر کٹھن تھا، لیکن ہمت نے ابھی جواب نہیں دیا تھا۔ ابھی خان شہید کا فاتحہ جاری تھا کہ نوزائیدہ پختونخوا نیشنل پارٹی کے اکابرین نے آیندہ کے لایحۂ عمل کے لیے اجلاس بلایا۔
ریاستِ سوات کے خاتمے کا مروڑ:
https://lafzuna.com/history/s-29943/
جون 2015ء میں کوئٹہ میں ایک نشست کے دوران میں ایک معتبر اور غیر جانب دار ذریعے نے راقم کو بتایا کہ ’’اُس وقت پورا دن اجلاس جاری تھا، لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہورہا تھا۔ محمود خان اچکزئی کی عمر اُس وقت 25 سال تھی، نئے نئے پشاور یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کرکے فارغ ہوئے تھے، اور اجلاس کے دوران میں دور ایک کونے میں بیٹھے تھے۔ اُس وقت کوئی چیئرمین بننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ جو لوگ ممکنہ امیدوار تھے، ان کو پیغام پہنچایا گیا تھا کہ جو بھی چیئرمین بنے گا، اُس کا انجام وہی ہوگا جو خان شہید کا کیا گیا ہے۔ صورتِ حال پارٹی کی تحلیل کی طرف جا رہی تھی۔ ایسے میں محمود خان کھڑے ہوگئے اور کہا کہ ’مَیں تو اپنے والد کی جائیداد کا وارث ہوں اور ان کے فاتحے کے لیے بیٹھا ہوں۔ پارٹی کے اکابرین آپ ہیں اور جسے آپ لوگ بطورِ چیئرمین منتخب کرتے ہیں، مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا، لیکن اگر موت کے خوف سے کوئی قیادت کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس بنیاد پر ان کی بنائی ہوئی جماعت تحلیل ہو رہی ہے، تو پھر مَیں اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوں۔ کیوں کہ اس سیاسی راستے میں میرے والد نے اپنی جان کی قربانی دی۔ انھیں مَیں نے چند دن پہلے انھی کے خون آلود چادر میں دفنایا۔‘‘
قارئین، بعض چیزیں جو ظاہری طور پر نظر آتی ہیں، حقیقت میں وہ ویسی نہیں ہوا کرتیں، خصوصاً ’’مملکتِ خداداد‘‘ جیسی ریاست میں جہاں خاص طور پر پختونوں کی تاریخ کو نہ صرف مسخ کیا گیا بلکہ بلیک آؤٹ بھی کیا گیا۔ اس لیے آج پختون ٹرک کی بتی کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ جو سٹیج سے چند بھڑکیں مارے اور چند دن پلاستر باندھے، وہ اِس قوم کا ہیرو بن جاتا ہے۔ اپنے ہیروز اِس کی نظر میں ولن بنائے گئے ہیں، اور اس لیے ہم تاریک راہوں میں باآسانی مار دیے جاتے ہیں۔
اس قسم کی صورتِ حال میں محمود خان کو ورثے میں ایک تین سالہ خوف زدہ، کم زور اور مریل قسم کی ان کے والد کے خون میں لت پت جماعت کی قیادت گلے میں ڈال دی گئی۔ اُس وقت وہ لوگ، جو بعد میں جماعت کے کرتا دھرتا بن گئے، نیپ کا حصہ تھے۔ عبد الرحیم مندوخیل اس وقت نیپ بھاشانی گروپ میں تھے، جو بعد میں پختونخوا نیپ میں شامل ہوئے۔ یوں موصوف سیاسی گم نامی سے نکل کر بعد میں اس جماعت میں ایک دراز قد اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے موجودہ تنظیمی ڈھانچے کے معمار بن گئے۔
یہاں میرا مقصد کسی پر تنقید یا کسی کی توصیف نہیں، بلکہ بساط اور سمجھ کے مطابق تاریخ کی دُرستی ہے۔ باقی فیصلہ عوام اور وقت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ تنظیمی اور فکری سطح پر جو کچھ مندوخیل صاحب نے کیا دانستہ طور پر ان کا مقصد ’’موجودہ مقاصد‘‘ حاصل کرناتھا۔ شاید وہ یہ سب کچھ اپنے ذہنی بساط کے مطابق نیک نیتی سے کرتے تھے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ محمود خان اچکزئی اُس وقت 25 سالہ نوجوان تھے اور اُن کو گھمبیر سیاسی صورتِ حال کا سامنا تھا۔ مندوخیل صاحب کی شمولیت کے بعد محمود خان اچکزئی کو اس قسم کے لوگوں پر اعتماد کرنا پڑا…… لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مندوخیل کی شروع سے ذہن سازی بائیں بازو کی سیاست میں ہوئی تھی جو فطری طورپر قوم پرستی اور مذہب پرستی کا ضد تھی۔ دوسری طرف خان شہید کی پختون خوا نیشنل پارٹی ایک خالص پشتون مقدمے کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی۔ لہٰذا یہ دونوں آگ اور پانی کے مترادف تھیں۔
ملکہ الزبتھ دوم کا دورۂ سوات:
https://lafzuna.com/history/s-29653/
عبدالرحیم مندوخیل کو اپنے نظریات اور اصولوں کی بنیاد پر پارٹی کی تنظیمی ری سٹرکچرنگ کا بھرپور موقع 1980ء کی دہائی میں ملا۔ 1983ء میں محمود خان اچکزئی کی قیادت میں کوئٹہ میں ضیاء الحق کے مارشل لا کے خلاف جلوس نکالا گیا جس پر اُس وقت بلوچستان کے فوجی گورنر جنرل رحیم دین کے حکم پر براہِ رست گولیاں برسائی گئیں جس کے نتیجے میں چار کارکنان شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ محمود خان اچکزئی کی جان کو براہِ راست خطرے کی وجہ سے وہ زیرِ زمین چلے گئے، اور پارٹی کی کمان مندوخیل صاحب کے ہاتھوں میں آگئی۔ پہلے انھوں نے 1986ء میں خیبر پختونخوا (اُس وقت صوبہ سرحد) میں مزدور کسان پارٹی کے ایک گروپ کے ساتھ اتحاد کیا، جو 1989ء انضمام پر منتج ہوا…… لیکن اس فیصلے نے خیبر پختونخوا میں پارٹی کا مستقبل تاریک کردیا۔ اس لیے کہ ایک تو یہ پوری مزدور کسان پارٹی نہیں تھی، بلکہ اس کا ایک گروپ تھی۔ دوسرا یہ کہ بھٹو کے دور میں وجود میں آئی یہ پارٹی ایک جماعت سے زیادہ ایک پریشر یا انٹرسٹ گروپ تھی، جو زیادہ تر چارسدہ، مردان اور صوابی تک محدود تھی اور پختون قوم یا عوام کی بجائے ایک مخصوص گروہ کے نام پر کام کر رہی تھی۔ بھٹو کے اَشیرباد سے یہ گروپ ان ضلعوں میں سرگرم تھا جہاں ولی خان کا یا ان کی جماعت کا اثرو رسوخ تھا۔ اس لیے اس کا اثر اور سیاسی رسائی بہت محدود تھی۔ ضیا کے دور میں پیپلز پارٹی کی طرح یہ لوگ بھی سخت زیرِ عتاب تھے اور کسی سیاسی پناہ گاہ کی تلاش میں تھے، جو مندوخیل صاحب نے ایک بڑی سیاسی قیمت پر مہیا کی…… جس کو آج تک پختونخوا میپ بھگت رہی ہے، لیکن ستم ظریفی یہ ہوئی کہ اس گروپ کو صرف شامل نہیں کیا بلکہ اس انضمام کی آڑ میں آئین اور منشور تبدیل کیا گیا اور پارٹی کا نام بھی پختونخوا نیشنل سے پختونخوا ملی عوامی پارٹی رکھا۔ یوں صوبہ خیبر پختونخوا میں پارٹی ان کے حوالے کی۔
اَب یہاں میں یہ سوال قارئین کے لیے چھوڑ رہا ہوں کہ آیا یہ مندوخیل صاحب کا منشا تھا یا انضمام کرنے والوں کا……؟ اب پارٹی کا آئین ایک نیشنلسٹ سے زیادہ بائیں بازو کی جماعت کا لگ رہا تھا اور تنظیمی ڈھانچا بھی ان اصولوں پر بنایا گیا۔
پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے کارکنان پر کمیونسٹ اور کفر کے لیبل چسپاں کرکے مذہبی قوتوں کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ ان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈا اور فتوا بازی کرنے لگی جس سے کارکنوں کی زندگی تک خطرے میں پڑگئی۔
دوسری طرف ضیا دور میں محمود خان اچکزئی کی غیر موجودگی میں منظم تنظیم اور کیڈر کے نام پر پارٹی میں مخصوص سوچ اور فکر پر مبنی اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی وجود میں آئی۔ اس اسٹیبلشمنٹ سے منسلک لیڈر شپ کے رویے عوامی تھے، نہ ان کی جڑیں۔ اس میں سے کسی بڑے لیڈر نے بھی اپنے آبائی علاقوں سے کبھی انتخاب نہیں جیتا۔ پارٹی کا عوامی چہرہ اور طاقت ان علاقوں مثلاً قلعہ عبداللہ خان، پشین اور کوئٹہ، تک محدود تھا…… جہاں خان شہید کا خاندان موجود تھا اور پارٹی کی بیوروکریسی کا اثر نسبتاً محدود تھا۔ ان علاقوں سے پارٹی پارلیمانی انتخابات جیتی تھی اور اس ووٹ بنک سے اس اسٹیبلشمنٹ کے لیڈرز پارلیمنٹ پہنچتے۔ مندوخیل صاحب اپنے آبائی علاقے ژوب کی بجائے کویٹہ کی نشست سے منتخب ہوتے تھے۔ مندوخیل صاحب اور رضا محمد سے لے کر عثمان کاکڑ شہید تک اپنے آبائی علاقوں سے صوبائی اسمبلی میں نشستیں نہ ہونے کے باوجود ان علاقوں سے جیتی ہوئی نشستوں کے ذریعے سینٹ پہنچے۔ اس کے علاوہ پارٹی میں اسٹیبلشمنٹ کے مخالفین یا تنظیمی عہدے نہیں ملتے تھے اور اگر مل بھی جاتے، تو الگ تھلگ کردیے جاتے۔ آئین میں گنجایش نہ ہونے کے باوجود یہ لوگ بیک وقت دو اور تین تین عہدوں پر قابض تھے اور بہانہ یہ تھا کہ متبادل قیادت نہیں ہے۔ حالاں کہ دوسری طرف یہ لوگ یہ دعوا اور اس امر پر فخر کرتے تھے کہ انھوں نے اپنے ورکرز کی بہترین تربیت کی ہے۔
مثال کے طور پر مختیار مرکزی ڈپٹی چیئرمین بھی تھے اور صوبائی صدر بھی۔ اس طرح خورشید (کاکاجی) صوبائی سیکرٹری بھی تھے اور ساتھ ضلع سوات کے صدر بھی۔ عثمان کاکڑ مرکزی سیکرٹری بھی تھے، صوبائی صدر بھی اور ضلع کوئٹہ کے صدر بھی تھے۔ یہ سب کچھ جمہوری مرکزیت کے خود ساختہ اصول اور تشریح کے نام پر ہو رہا تھا۔ اس بنا پر جماعت کی کھوپڑی پر ایک آہنی کنٹوپ رکھ کر اسے تنظیمی بیوروکریسی کے ایک فولادی ’’ریم‘‘ میں بند کیا گیا۔ اب حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس قسم کے تنظیمی ڈھانچے میں جمہوری اُصول اور سزا و جزا کا قانون کہاں گیا؟ ان کی طاقت کا منبع، سماجی و سیاسی اثر و رسوخ اور عوامی رابطہ نہیں بلکہ ڈسپلن، رولز اور ضابطہ تھا، جو صرف کارکن پر قابلِ نفاذ تھا۔ سال ہا سال سے یہی لوگ پارٹی تنظیمی عہدوں پر براجمان تھے، جو بالآخر مفاداتی گروہ میں تبدیل ہوگئے۔
بیوروکریسی کی طرح یہ گروہ اس نظام میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لیے تیار نہ تھا۔ وسعت نظری، جدت پسندی اور نئی سیاسی رجحان کی آب یاری اور حوصلہ افزائی گویا شجرِ ممنوعہ تھی۔ اس پارٹی کا ایک سابق جنرل سیکرٹری اس بنیاد پر ایک کارکن کو پارٹی سے نکالنا چاہتا تھا کہ اس نے اسلام آباد میں کالاباغ ڈیم پر اس کے کہنے پر ایک گھنٹے میں اس کے لیے انٹرنیٹ سے مواد ڈاؤن لوڈ کرکے دیا، تو سیکرٹری صاحب یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ یہ کیسا ممکن ہے کہ کوئی ایک گھنٹے میں ایسے مواد پیدا کرے؟ لہٰذا موصوف کو شک ہوا کہ شاید یہ خفیہ ایجنسی کا اہل کار ہے۔
اشوک سے اشوک اعظم تک:
https://lafzuna.com/history/s-29082/
معلوم نہیں محمود خان اچکزئی کی کیا مجبوری تھی کہ وہ یہ سب کچھ برداشت کر رہے تھے؟ یہ فرسودہ تنظمی ڈھانچا نہ ان کے بیانیے اور سیاسی موقف سے اہم آہنگ تھا اور نہ اس کو اٹھانے کی سکت ہی رکھتا تھا۔ دوسری طرف موجودہ جماعتی کیڈر اور کارکن اس کو مزید برداشت نہیں کر رہے تھے۔ اس لیے ان لوگوں کو مافیا کا خطاب دینے لگے، لیکن شاید محمود خان اچکزئی ان کو وقت دے رہے تھے یا اس اندرونی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراو کا بانڈا بیچ چوراہے نہیں پھوڑ نا چاہتے تھے۔ کارکنان کے بڑھتے ہوئے دباو کے نتیجے میں رواں سال جنوری میں مرکزی کانگرس کا دو روزہ اجلاس بلایا گیا جس میں اگست تک نچلی سطح سے تنظیم سازی مکمل کرکے دوبارہ اجلاس بلا کر نئی تنظیم بنانا تھی۔ میری اطلاع کے مطابق اس اجلاس میں بھی کارکنان ان لوگوں کو کسی قسم کا عہدہ دینے کے خلاف تھے، لیکن شاید محمود خان اچکزئی ان کو ’’سیف ایگزیٹ‘‘ دینا چاہتے تھے اور کارکنان کو اس پر مطمئن کیا کہ چند مہینے ہی کی تو بات ہے…… لیکن بات بن نہیں پائی۔ شاید انھوں نے اگلے کانگرس میں خواب میں اپنی چھری دیکھ لی تھی۔ اس لیے اگست گزر گیا، لیکن تنظیم سازی کا عمل شروع نہیں ہوا، اور پھر جو ہوا وہ سب اب قارئین کے سامنے ہے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔