زین بدھ ازم (Zen Buddhism) میں ایک کہانی سنائی جاتی ہے: ’’ایک لڑکا جسے غصہ بہت آتا تھا اور اس کے والدین اس کے رویے سے پریشان بھی ہوتے تھے، لیکن اُس لڑکے کو اُس کے غصے کی وجہ سے والدین کو ہونے والی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ ایک دن اُس لڑکے کے والد اُس کے لیے لکڑی کا ایک ٹکڑا، کیلیں اور ہتھوڑا لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’بیٹا! تمھیں جب بھی غصہ آئے، تو اس لکڑی کے ٹکڑے میں ایک کیل ٹھوک دینا اور یوں جب یہ ٹکڑا کیلوں سے بھر جائے تب میرے پاس لے آنا۔‘
کچھ دنوں بعد جب لکڑی کا ٹکڑا کیلوں سے بھر جاتا ہے، تو اس لڑکے کے والد اُسے کہتے ہیں کہ ’اب جب تمھیں غصہ آئے، تو اس ٹکڑے میں سے ایک کیل نکال دینا۔‘
چند دن بعد لڑکا اپنے والد کے پاس لکڑی کا ٹکڑا لے کر آتا ہے کہ ساری کیلیں نکل چکی ہیں۔ لڑکے کے والدلکڑی میں موجود کیل سے پڑنے والے نشان کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں: کیلیں تو ہٹا دیں لیکن اس سے پڑنے والے نشان کیسے ہٹاؤ گے؟ ‘‘
جب ہم والدین کے عہدے پر فایز ہوتے ہیں، تو ہمارے بچے لکڑی کا ٹکڑا ہوتے ہیں…… اور اس عہدے پر فایز ہونے کے بعد ہمیں ایک ہتھوڑا اور لاتعداد کیلیں ملتی ہیں۔ ہم اپنے ہر ردِ عمل پر، اپنی ہر محدود سوچ اور اپنے ماضی کے تجربات کی کیلیں اپنے بچوں کے دماغوں میں ٹھوکتے رہتے ہیں۔ کئی کیلیں مَیں نے بھی ٹھوک دیں…… اور پھر انھیں نکالا بھی، لیکن نشان رہ گئے، جو معلوم نہیں کہ کبھی مٹیں گے بھی یا نہیں!
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔